لاہور کا ’’تاریک‘‘جغرافیہ!
لاہور کے شادی گھر
یوں تو لاہور میں بہت سے شادی گھر ہیں تاہم اُن میں مشہور ترین ’’شادی گھر‘‘ لاہور کے فائیو اسٹار ہوٹل ہیں، دوپہر اور رات کے اوقات میں یہاں بہت رش ہوتا ہے، یہاں باراتیوں کے علاوہ بھی دوسرے لوگ زرق برق کپڑے پہنے آتے ہیں اور کھانا کھا کر چلے جاتے ہیں۔
لڑکے والے سمجھتے ہیں یہ لڑکی والوں کے مہمان تھے اور لڑکی والے انہیں باراتی سمجھ کر اُن کی آئو بھگت کرتے ہیں۔ داتا دربار کے بعد یہ دوسری جگہ ہے جس کے لنگر سے روزانہ بیسیوں مسکین اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ اِن ’’شادی گھروں‘‘ میں ریستوران، ڈائننگ ہال اور رہائشی کمرے بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ کہلاتے تو ہوٹل ہیں تاہم عملی طور پر بطور شادی گھر ہی استعمال ہوتے ہیں۔
فلم اسٹوڈیو
لاہور پاکستان کا ثقافتی مرکز ہے، یہاں کبھی بہت سے فلم اسٹوڈیو تھے جن میں بیک وقت ایک ہی فلم بنتی، اس فلم کی کاسٹ بھی عموماً تبدیل نہیں ہوتی تھی۔ دس پندرہ برس بعد ہیروئن بدل جاتی البتہ ہیرو ایک ہی رہتا جس کا نام نہیں لکھ رہا کہ وہ فوت ہو چکا ہے۔
یہ ہیرو ایک خوبرو ہیرو کا رول بھی ادا کرتا، کالج کے اسٹوڈنٹ اور ڈریکولا کا بھی۔ وہ یہ سبھی کردار بغیر کسی میک اَپ یا گیٹ اَپ کے کرتا اور ہر کردار میں سُپرہٹ جاتا، اس میں اس کا کوئی کمال نہیں البتہ اللہ تعالیٰ ناظرین کی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتے ہیں، مسلسل نظر بندی کی وجہ سے یہ ناظرین سیاست میں بھی ہیرو اور ولن کے فرق کو بھول چکے ہیں۔
سیاسی رہنما
لاہور سیاست کا گڑھ ہے لیکن یہاں سیاستدان دوسرے صوبوں یا شہروں سے منگوائے جاتے تھے اور ان کی بہت آئو بھگت کی جاتی۔ یہاں بہت عرصے سے کوئی مقامی سیاستدان پیدا نہیں ہوا تھا جو ماڑے موٹے سیاستدان تھے ان کا دائرہ اثر بھی لاہور کارپوریشن کی حدود تک تھا۔
لاہور نے بہت عرصے کے بعد ایک مقامی سیاستدان پیدا کیا جس کا نام نواز شریف ہے، جس کا دائرہ اثر چاروں صوبوں میں موجود ہے مگر یہ سیاستدان ان دنوں شدید علیل ہے اور اس بات پر پریشان بھی کہ آج کے ہر بلنڈر کا بوجھ بھی اس پر لاد دیا جاتا ہے۔
اخبارات
اخبارات کی تعداد اور اُن کی سرکولیشن کے لحاظ سے لاہور پاکستان کے تمام شہروں سے آگے ہے۔ لاہور سے جو اخبارات نکلتے ہیں اُن میں اہم سے اہم خبر کی سنگل کالمی پہلی سطر صفحہ اول اور باقی خبر بطور بقیہ شائع ہوتی ہے چنانچہ سمجھ دار قاری اصل خبر بقیہ والے حصے میں تلاش کرتا ہے۔
لاہور سے شائع ہونے والے اخباروں میں ریورس خبر بہت نکالی جاتی ہیں۔ ریورسوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کسی اخبار کو پیلی صحافت کا طعنہ دینا ممکن نہیں رہتا، اسے زیادہ سے زیادہ کالی صحافت کہا جا سکتا ہے۔ بعض اخباروں کی شہ سرخیاں کسی زمانے میں دمادم مست قلندر، جیڑا آ گیا میدان میں‘ ہے جمالو، اوئے تیری لاش نوں مچھیاں ای کھان گِیاں، قسم کی ہوتی تھیں۔
اب پولیس، کسٹم، ایف آئی اے، انکم ٹیکس، ایکسائز اور فضلِ ربی والے دوسرے محکموں کی طرح اخبار میں کام کرنے والوں کی تنخواہیں انتہائی کم ہیں جبکہ کچھ عرصے سے بلیک منی کو وائٹ کرنے کے لئے بھی اخبارات نکالے جارہے ہیں مگر کارکنوں کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
مذہبی جماعتیں
لاہور میں تمام مذہبی جماعتوں کے دفاتر موجود ہیں۔ اِن جماعتوں کا عہدیدار کوئی بھی باریش شخص ہو سکتا ہے۔ مذہبی جماعتیں لوگوں کی مذہبی تربیت کی طرف بہت توجہ دیتی ہیں چنانچہ مختلف اسٹیکرز چھپوا کر کاروں پر ان کے مالکوں سے پوچھے بغیر چسپاں کر دیئے جاتے ہیں، ان اسٹیکروں پر مختلف مذہبی نعرے درج ہوتے ہیں۔
دراصل ان اسٹیکروں سے اپنے اپنے فرقے کی تبلیغ کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے۔ مذہبی جماعتیں مذہب کے فروغ کے علاوہ باقی تمام خدمات انجام دیتی ہیں۔
پبلشنگ کے ادارے
لاہور میں بےشمار پبلشنگ کے ادارے ہیں چنانچہ کوئی بھی معروف اور مقبول مصنف باآسانی اپنی کتاب شائع کرا سکتا ہے مگر چند پبلشر حضرات نے غیر معروف لکھنے والوں کے لئے بہت آسان طریقہ کار رکھا ہے۔
یعنی مصنف کتاب کی اشاعت کے تمام اخراجات پبلشر کو ادا کر دیتا ہے چنانچہ اس کی کتاب شائع ہو کر پبلشر کے گودام میں چلی جاتی ہے تاہم یہ پبلشر حضرات مصنف کو باقاعدہ رائلٹی بھی ادا کرتے ہیں جو مصنف کی کتابوں ہی کی صورت میں ہوتی ہے۔ (جاری ہے )