پاکستان

شہزاد اکبر کی شہریت کیا ہے، کیا وہ پاکستانی ہیں یا غیر ملکی: جسٹس فائز عیسی کا سوال

Share

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے خلاف دائر ہونے والے صدارتی ریفرنس میں ایک جواب سپریم کورٹ میں جمع کروایا ہے جس میں احتساب سے متعلق وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر کی اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی بطور سربراہ تقرری، ان کی شہریت اور اثاثوں سے متعلق سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں بلوچستان کے سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر کو جس محکمہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کا سربراہ بنایا گیا اس کا معیار کیا مقرر کیا گیا۔

اُنھوں نے کہا کہ کیا اس عہدے پر کسی شخص کی تقرری کے لیے کوئی اشتہار وغیرہ دیا گیا اور کیا درخواستیں موصول کی گئیں اور کیا یہ عہدہ پبلک سروس کمیشن کے طریقہ کار کی روشنی میں چنا گیا ہے۔

اپنے جواب میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ شہزاد اکبر کو اثاثہ جات ریکوری یورنٹ کا سربراہ مقرر کرنے کے حوالے سے کیا شرائط اور ضوابط طے کیے گئے تھے۔

اپنے جواب میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے اثاثہ جات کی ریکوری کے سربراہ کی شہریت کے بارے میں بھی سوال اُٹھایا ہے اور کہا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ شہزاد اکبر کی شہریت کیا ہے اور کیا وہ پاکستانی ہیں یا غیر ملکی اور کیا وہ دوہری شہریت رکھتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے اثاثہ جات ریکوری یورنٹ کی قانونی حثیت بھی سوال اُٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ قوم کے ٹیکسز سے جو پیسہ اس ادارے پر خرچ ہو رہا ہے وہ کیسے قانونی ہوسکتا ہے۔

سپریم کورٹ کے جج نے یہ بھی سوال اُٹھایا کہ اُن کے (فائز عیسی) اور ان کے بیوی بچوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے جو پیسہ خرچ ہوا اس کی قانونی حثیت کیا ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ

سپریم کورٹ کے جج نے اپنے جواب میں احتساب سے متعلق وزیر اعظم کے مشیر کے انکم ٹیکس ریٹرنز کے علاوہ ان کے بیوی بچوں کے ناموں اور ان کی شہریت کے بارے میں بھی سوالات اُٹھائے ہیں اور یہ بھی کہا ہے کہ شہزاد اکبر نے اپنے بیوی بچوں کے نام پاکستان یا بیرون ممالک جائیداوں کے بارے میں کیوں نہیں بتایا۔

اس صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران ججز پر الزام عائد کرنے والے اس وقت کے اٹارنی جنرل اس ضمن میں کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے جس کے بعد وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے جبکہ حکومت کا اس ضمن میں موقف تھا کہ کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور مستعفی نہیں ہوئے بلکہ ان سے استعفی لیا گیا ہے۔

اپنے جواب میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے وزیر قانون فروغ نسیم پر بھی سوال اُٹھایا ہے کہ کیسے اُنھوں نے اُن کے خلاف وکلا برادری کو تقسیم کرنے کے لیے عوام کے ٹیکسوں کی 17 ملین روپے سے زیادہ رقم خرچ کی۔

واضح رہے کہ اس جواب سے قبل بھی جسٹس قاضی فائز عیسی تین سے زائد جواب داخل کرواچکے ہیں۔

سابق اٹارنی جنرل انور منصور، وزیر قانون بیرسٹر فروع نسیم اور احتساب سے متعلق وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر کا سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے ساتھ بلواسطہ یا بلا واسطہ تعلق ضرور رہا ہے۔

سابق اٹارنی جنرل اور موجودہ وزیر قانون سابق فوجی صدر کے خلاف آئین شکنی اور سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں مجرم کے وکیل رہے ہیں جبکہ شہزاد اکبر سابق فوجی صدر کے دور میں قومی احتساب بیورو میں تعینات ہوئے تھے۔

سپریم کورٹ

جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے جمع کرائے گئے جواب میں وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروع نسیم کے بارے میں لکھا ہے کہ فروغ نسیم پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے تو اُنھوں نے متحدہ قومی موومنٹ سے پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینٹ کا ٹکلٹ حاصل کیا اور اُنھوں نے ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کو نیلسن مینڈیلا کے ہم پلہ قرار دیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے جواب میں کراچی میں 12 مئی سنہ 2007کے واقعہ کا بھی ذکر کیا ہے اور اس واقعہ کا ذکر فیض آباد دھرنے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے فیصلے میں بھی کیا گیا ہے ۔

واضح رہے کہ فیض آباد دھرنے سے متعلق از خود نوٹس کا فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے ہی تحریر کیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے جواب میں کہا کہ فیض آباد دھرنے سے متعلق ایم کیو ایم نے جو نظرثانی کی درخواست دائر کی اس میں کہا گیا کہ کہا درخواست گزار یعنی جسٹس قاضی فائز عیسی جج بننے کے اہل نہیں ہیں۔

اُنھوں نے جواب میں مزید لکھا کہ فیض آباد دھرنے کے فیصلے کے خلاف سات مارچ سنہ 2019 میں ایم کیو ایم اور حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے نظرثانی کی درخواستوں میں ایک ہی قسم کی زبان استعمال کی گئی اور ایک ہی ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی خدمات حاصل کی گئیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں کی سماعت دو جون کو دوبارہ شروع ہوگی اور جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا دس رکنی بینچ ان درخواستوں کی سماعت کرے گا۔

ان درخواستوں کی آخری سماعت فروری کے مہینے میں ہوئی تھی۔ موجودہ اٹارنی جنرل خالد جاوید نے ان درخواستوں میں وفاق کی نمائندگی کرنے سے معذوری ظاہر کی تھی جس کے بعد ایڈشنل اٹارنی جنرل آئندہ سماعت پر دلائل دیں گے۔

ایڈشنل اٹارنی جنرل کے دلائل کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک جواب الجواب دلائل دیں گے۔

شہزاد اکبر کون ہیں؟

پےد

شہزاد اکبر پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں نیب میں ان کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جس میں وہ مختلف ریفرنسس میں نیب کو قانونی مشاورت فراہم کرتے تھے تاہم اُنھیں نیب کے بورڈ کے اجلاس میں طلب نہیں کیا جاتا تھا۔

نیب کے شعبہ پراسیکیوشن سے وابستہ ایک سابق اہلکار کے مطابق سابق فوجی صدر کے دور میں نیب کے دوران مختلف ممالک کے دورں پر جانے کے لیے شہزاد اکبر کو ترجیح دی جاتی تھی۔

نیب کے سابق اہلکار کے مطابق بیرون ملک دورے کے دوران ان کے قیام پر جتنے بھی اخراجات اتھتے تھے وہ تمام اخراجات نیب ہی برداشت کرتا تھا۔

شہزاد اکبر سے جب اس ضمن میں بی بی سی نے رابطہ کیا گیا تو اُنھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

نیب سے الگ ہونے کے بعد شہزاد اکبر زیادہ عرصہ بیرون ممالک میں رہےاور پھر پاکستان واپس آکر اس وقت وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف اعلی عدالتوں میں درخواستوں دائر کرتے رہے۔

اسی عرصے کے دوران موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی ان ڈرون حملوں کے خلاف ریلیاں نکالا کرتے تھے۔