قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے!
امن و امان صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے، تو کیا ملک کے سب سے بڑے صوبے کے دارالحکومت میں صورتِ حال اس حد تک خراب ہو چکی کہ وفاق کو معاملات اپنے ہاتھ میں لینا پڑے۔ بدھ کی شام وفاقی وزارتِ داخلہ کی طرف سے ڈی جی رینجرز پنجاب کے نام مراسلے میں شہر کے اہم مقامات کی حفاظت کے لیے رینجرز کے دس پلاٹون اور دو کمپنیاں بھجوانے کا کہا گیا تھا، جن میں سے ایک ایک پلاٹون گورنر ہائوس، پنجاب اسمبلی، سول سیکرٹریٹ، ایوان عدل، سپریم کورٹ رجسٹری، لاہور ہائی کورٹ، (گزشتہ روز تباہی و بربادی کا نشانہ بننے والے) پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی، جی پی او چوک اور آئی جی پولیس کے آفس پر تعینات ہوں گی (جی ہاں، آئی جی آفس کے تحفظ کے لیے بھی رینجرز)۔ دو کمپنیاں ریزرو میں رکھی جائیں گی۔
یاد رہے، ابھی دو ہفتے بھی مکمل نہیں ہوئے، جب پنجاب میں اعلیٰ بیوروکریسی اور پولیس میں تبادلوں کا سونامی آیا تھا، جس میں چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کے ساتھ ہوم اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری بھی بدل دیئے گئے تھے (ان کے علاوہ 29 سیکرٹریز، 9 میں سے 8 کمشنر اور 36 میں سے 31 ڈپٹی کمشنر بھی تبادلوں کی زد میں آئے تھے) 30 نومبر کو لاہور میں اس کے لیے جناب وزیر اعظم کی باقاعدہ میڈیا کانفرنس کا اہتمام کیا گیا‘ جس میں وہ نئی ذمہ داریوں پر لائے گئے ان افسران کو، بیوروکریسی اور پولیس کے بہترین افسر قرار دے رہے تھے‘ جن کے انتخاب کے لیے انہوں نے وزیر اعلیٰ بزدار کے ساتھ مل کر تین ہفتے سخت محنت کی تھی۔ ریٹائرڈ بیوروکریٹس سے بھی صلاح مشورہ کیا گیا تھا۔
بدھ کی سہ پہر پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا سانحہ، لاہور میں متعین ان اعلیٰ افسران کی صلاحیتوں کا پہلا بڑا امتحان تھا، جس میں یہ بری طرح ناکام رہے… ایسا نہیں تھا کہ کوئی دہشت گرد، اچانک کہیں سے آیا اور خونیں واردات کر گیا۔ وکلا اور پی آئی سی کے ڈاکٹروں میں جھگڑا 20 نومبر سے چل رہا تھا‘ لیکن محکمہ صحت اور امن و امان کے ذمہ داران نے اسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ وکلا قیادت بھی، اپنے نوجوانوں کے ساتھ کھڑی رہی۔ کہا جاتا ہے، آخر کار دو تین روز قبل فریقین میں صلح صفائی ہو گئی، لیکن راکھ میں چنگاریاں موجود رہیں‘ جو ایک فوٹیج کے وائرل ہونے سے شعلوں میں تبدیل ہو گئیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ صلح صفائی سے پہلے کی ویڈیو تھی، جس میں ایک ینگ ڈاکٹر ایک ہجوم سے خطاب میں، وکلا کی بے بسی و بے کسی کا مذاق اڑا رہا تھا۔ اس میں ایک شعر بھی تھا، جو وکلا کے اشتعال کو بڑھانے کا سبب بنا ؎
سنا ہے، ان کے اشکوں سے بجھی ہے پیاس صحرا کی
جو کہتے تھے، ہم پتھر ہیں، ہمیں رونا نہیں آتا
انتخابات کی اپنی ایک خاص فضا ہوتی ہے۔ لاہور بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں یہ ویڈیو ایک گروپ کو اپنے انتخابی مقاصد کے لیے کارآمد نظر آئی۔ بدھ کی دوپہر، نوجوان وکیلوں کا ایک بڑا (اور مشتعل) گروپ لوئر مال کے ایوان عدل سے روانہ ہوا۔ وہ ڈاکٹروں سے اپنی توہین پر بدلہ لینے نکلے تھے۔ ان کے نعرے، ان کے عزائم کا واشگاف اظہار تھے۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پہنچنے میں انہیں ایک، ڈیڑھ گھنٹے سے کم کیا لگا ہو گا۔ بار ایسوسی ایشنوں کے ہال اور عدالتوں کے احاطے بھی ان حساس مقامات میں شامل ہیں، کہ حساس ادارے جن کی سن گن رکھنے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ حیرت ہے کہ امن و امان کے ذمہ داروں کو اس احتجاجی جلوس سے قبل ہونے والی تقریروں اور پھر راستے بھر بلند ہونے والے نعروں، احتجاجی مظاہرین میں سے بعض کے ہاتھوں میں ڈنڈوں سے بھی خطرے کا احساس نہ ہوا۔ ٹی وی فوٹیج میں تو ایک ”قانون دان‘‘ کے ہاتھ میں پستول بھی نظر آ رہا تھا‘ جس سے وہ دکانیں بند کرا رہا تھا۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے اندر اور باہر اڑھائی، تین گھنٹے جو کچھ ہوتا رہا، اس کا ایک ایک منظر ساری دنیا، ٹی وی سکرینوں پر دیکھ چکی۔ حملہ آوروں کا رخ دل کے ہسپتال کی طرف تھا۔ انہیں ہسپتال سے دور ہی روکنے کی کوشش کیوں نہ کی گئی؟ پھر ہسپتال کے اندر اور باہر بھی تاخیر کے ساتھ جو ”حکمت عملی‘‘ اختیار کی گئی، وہ نا اہلی کا ایک اور شاہکار تھی۔ آنسو گیس تو اچھے بھلے صحت مند لوگوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی ہے، یہاں اسے ہسپتال کے احاطے میں، وکیلوں کو منتشر کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ دل کے مریضوں کے لیے یہ ایک اور عذاب تھا۔ ”حملہ آوروں‘‘ کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کیوں استعمال نہ کی گئی؟۔
ایک ہسپتال (اور وہ بھی دل کے مریضوں کے ہسپتال) پر یہ حملہ، مریضوں کے ساتھ بد سلوکی اور قیمتی آلات سمیت مختلف ساز و سامان کی تباہی، ایسا شرمناک جرم ہے جس کی مذمت کے لیے لغت میں ”مناسب‘‘ الفاظ بھی موجود نہیں۔
ہسپتال بلا شبہ ان مقدس مقامات میں شمار ہوتے ہیں، حالتِ جنگ میں بھی ویانا کنونشن جیسے عالمی قوانین جن پر حملے کو سنگین ترین جرم قرار دیتے ہیں۔ ہسپتال کے حوالے سے حساسیت کا یہ عالم ہے کہ عام دنوں میں بھی اس علاقے کو ”سائیلنس زون‘‘ قرار دیا جاتا ہے، جہاں ہارن وغیرہ بجانا منع ہے کہ مریضوں کو تکلیف نہ ہو۔ انسانی جان کی حرمت و تقدیس کا یہ عالم کہ حالتِ جنگ میں پکڑے گئے دشمن کے زخمی قیدی کا مکمل علاج معالجہ بھی لازم ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے اس المیے کا جائزہ لیتے ہوئے، ہمیں ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ تصویر کا دوسرا رخ بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر ی ایک مقدس پیشہ ہے، انسانی جان بچانے سے زیادہ مقدس اور محترم کام اور کیا ہو گا؟۔ ان مسیحائوں کے بھی مسائل ہوتے ہیں، جن کا حل اس لیے بھی لازم ہے کہ وہ دکھی انسانوں کی مسیحائی کی طرف پوری توجہ دے سکیں۔ اس کے لیے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن باقاعدہ تسلیم شدہ ادارہ ہے، جس کے باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں۔ لاہور میں ڈاکٹر سعید الٰہی اور محترمہ ڈاکٹر یاسمین راشد کے گروپ برسوں ایک دوسرے کے انتخابی حریف رہے (جس طرح وکلا کے انتخابات میں عاصمہ جہانگیر اور حامد خان کے گروپ ہوتے تھے) انتخابی مہم میں باہم گرما گرمی بھی ہو جاتی، لیکن اس سے کوئی مریض متاثر نہ ہوتا۔
چند برس پہلے ”ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن‘‘ کے نام سے ایک نیا گروپ منظر عام پر آیا تھا۔ اس کی طرف سے ایمرجنسی اور او پی ڈی وغیرہ میں ہڑتال کی پہلی خبر پر، کسی کو یقین ہی نہ آیا۔ کیا مسیحائی کے عظیم مناسب پر فائز لوگ مریض کی جان بچانے سے انکار کر سکتے ہیں؟ نوجوان وکلا کی طرف سے ججوں کے ساتھ بدتمیزی کے کلچر کا آغاز بھی افسوس ناک تھا، لیکن نوجوان ڈاکٹروں کی طرف سے مریضوں کے لواحقین کے ساتھ لڑائی جھگڑے کی خبریں بھی آنے لگیں۔ ہڑتال کو کامیاب بنانے کے لیے انہیں سینئر ڈاکٹروں سے الجھنے میں بھی عار نہ ہوتی۔ پی آئی سی میں وکلا کے ساتھ جھگڑا تو تازہ واقعہ ہے، اس سے پہلے بھی آئے روز ہڑتالیں، ینگ ڈاکٹرز کا معمول تھیں۔ عدالتی مقدموں میں پھنسے ہوئے لوگ، دور دراز کا سفر کر کے آتے ہیں، اور ناکام و نامراد لوٹ جاتے ہیں کہ وکیل ہڑتال پر ہوتے ہیں۔ ہسپتالوں میں بھی یہ مناظر عام ہوئے کہ لوگ مریض کو لے کر آتے اور معلوم ہوتا کہ ڈاکٹر صاحبان ہڑتال پر ہیں۔ وکلاء کی ہڑتال کی نسبت یہ معاملہ زیادہ حساس ہے کہ انسانی جان کے لیے ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے۔
ادھر پی آئی سی کے اس المیے میں بھی پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کی روایت برقرار رہی۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان کو حملہ آوروں میں نون لیگ کے ”گلو بٹ‘‘ نظر آرہے تھے، تو جناب فیاض الحسن چوہان ان کا تعلق بیگم ”صفدر اعوان‘‘ اور حمزہ شہباز سے جوڑ رہے تھے۔ کیا وہ وقت نہیں آ گیا کہ قوم کے سنجیدہ و فہمیدہ عناصر اصلاحِ احوال کے لیے آگے بڑھیں؟ قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے اور ہم درندوں کا معاشرہ بن جائیں۔