جل تو جلال تو۔۔۔
ماہِ رمضان بھی گزر گیا اور عید بھی بحالتِ مجبوری لوگوں نے منائی۔ لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگوں کو گھروں میں قید کرنے کے لیے لاک ڈاؤن اب تک معمہ بنا ہوا ہے۔تاہم یورپ میں دھیرے دھیرے زندگی معمول پر آنا شروع ہو چکی ہے۔ لیکن حکومت کی اعصابی کیفیت اور ماہرین کی اوٹ پٹانگ باتوں سے ہم جیسے عام لوگ بری طرح پھنس کر رہ گئے ہیں۔
سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ کیا اب ہم اپنی زندگی سے کورونا وائرس کو الگ کر پائیں گے یا آئے دن اس کے خوف سے ہسپتال کاچکر لگاتے رہیں گے۔اس کے علاوہ خبروں پر نظر ڈالیے تو ذہن یوں پریشان ہوتا ہے کہ بس لگتا کرونا وائرس دروازے پر دستک دینے والا ہے۔میں نے تو مارے خوف کے خبروں کو سننا یا دیکھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ میں ہی کیا سبھی یہی بات کہہ رہے۔اب کون بھلا خبر دیکھے یا سنے، شروع سے آکر تک اتنے لوگ مرے اور اتنے لوگ ہسپتال میں یا کورونا وائرس دوبارہ آنے کا اندیشہ۔ توبہ توبہ جی اکتا گیا ہے اور سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ کرے تو کیا کرے۔پھر بھی ہم جی رہے ہیں اور اس بات کی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان شاء اللہ جلد از جلد ہم اس وبا سے نجات پا لیں گے۔
برطانیہ دھیرے دھیرے یورپ کا سب سے زیادہ کورونا وائرس سے متاثر ملک بن گیا ہے۔ لگ بھگ تیس ہزار سے زیادہ لوگوں کی جانیں جاچکی ہیں جبکہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد پچاس ہزار سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ضعیف معذور لوگ جو اولڈ پیوپل ہوم میں اپنی صحت کی وجہ سے رہائش پذیر تھے ان کی اموات بھی کافی زیادہ ہے۔حکومت اس سلسلے میں ینقید کا خاصہ نشانہ بن چکی ہے۔ آئے دن حکومت کی سست رفتار بچاؤ پالیسی اور پی پی ای یعنی پرسنل پروٹیکشن ایکیوپمنٹ کی کمی جو کہ ہیلتھ اسٹاف کے بچاؤ کے لیے لازمی تھا،کی وجہ سے حکومت نشانے پر ہے۔
اس کے علاوہ زیادہ تر اقلیتی طبقہ کے اسٹاف کی موت سے بھی لوگوں میں کافی غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ تاہم یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کورونا وائرس سے زیادہ تر مرنے والوں میں ایک بات عام پائی جا رہی جو پہلے سے ہی کسی بیماری میں مبتلا رہے ہوں۔ جس کی وجہ سے ایسے لوگ کورونا وائرس کی لپیٹ میں آنے کے بعد جلد موت کی آغوش میں چلے جارہے ہیں۔ لیکن عام طور پر ایسا دیکھا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس کے شکار لوگ صحت یاب بھی ہورہے ہیں۔ اگر آپ ڈبلو ایچ او کے پریس ریلیز کو دیکھیں تو آپ کو حیرانی ہوگی کہ کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد سے صحت یاب ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ دورانِ کورونا وائرس ایک مریض کو جتنی اذیتیں سہنی پڑتی ہیں وہ کافی دردناک ہے۔پھر نفسیاتی دباؤ اور ذہنی تناؤ بھی ایک ایسا اعصابی معاملہ بن گیا جس سے مریض تو زندگی اور موت سے لڑتا ہی ہے لیکن عام آدمی بھی ان مریضوں کی کیفیت کو جان کر بیمار اور گھبرایا ہوا ہے۔
لندن کے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے سامنے سے آنے والا کوئی بھی بندہ ایسا خوف زدہ دِکھتا ہے کہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ میں کورونا کا مریض ہوں۔ اخلاقی طور پر ہم دونوں مسکرا کر ایک دوسرے کو یوں نظر انداز کرتے ہیں کہ اس بات سے کلیجہ منھ کو آجا تا ہے۔کچھ لوگ تو راستہ بھی تبدیل کر کے دوسری جانب چلے جاتے ہیں۔ ان باتوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان کس قدر دوسرے انسان سے خوف زدہ ہے۔ اور خوف زدہ کیوں نہ ہو ہر کسی کو اپنی جان کی پڑی ہے۔
برطانیہ میں لاک ڈاؤن اب دم توڑتا ہوا نظر آرہا ہے۔ وزیر اعظم نے لوگوں سے صبر کرنے کی اپیل کی ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ لوگوں کا صبر کا پیمانہ اب لبریز ہورہا ہے۔ دھیرے دھیرے دکانیں کھلنے لگی ہیں۔ جن میں گارڈن سینٹر اور عمارتوں کی تعمیر کے مٹیرئیل کی دکانیں ہیں۔ تاہم ریسٹورنٹ وغیرہ فی الحال بند ہیں۔ حکومت اس بات کا اشارہ دے رہی ہے کہ اگر کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جائے گی تو حکومت جولائی میں دکانوں کو پورے طور پر کھولنے پر غور کرے گی۔جون کے پہلے ہفتے سے پرائمری اسکول کو کھولنے کا پلان ہے۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ بچوں کو ایک ساتھ نہ بٹھا کر ان میں دوری بر قرار رکھی جائے گی۔ٹیک اوے یعنی کھانے پینے کی چیزیں حسبِ معمول کھلی ہوئی ہیں اور لوگ آن لائن اپنا آرڈر کر کے کھانا وغیرہ گھر منگوا رہے ہیں۔ سڑکوں پر گاڑیاں کافی تعداد میں نظر آنے لگی ہیں اور ٹرین، بسوں میں مسافروں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔
اسی دوران بی بی سی کی ایک رپورٹ کو پڑھ کر بہت دکھ ہوا کہ ہندوستان میں مزدوروں کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔ وہ مزدور جو دیگر ریاستوں میں پھنسے ہوئے تھے ان کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے۔ حکومت کا کوئی اتا پتا نہیں ہے اور غریب مزدور کسی طرح اپنی جان پر کھیل کر بڑے شہروں سے اپنے گاؤں کی طرف پیدل چل کر جارہے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے مزدور تھے جو اپنی جان سے گئے تو کئی بھوک اور پیاس کی وجہ سے مارے گئے۔ممبئی اور دلی دو ایسے شہر ہیں جہاں سے یہ مزدور لاک ڈاؤن سے عاجز آکر اپنے خاندان اور دوست کے ساتھ اپنے اپنے گاؤں کی طرف نکل پڑے تھے۔ یوں تو بھارتی وزیراعظم نے اپنے مخصوص انداز میں کئی اعلان کئے تھے۔ لیکن ذرا سوچئے جو غریب اور مزدور جو روزانہ کی کمائی سے اپنا پیٹ پالتے ہیں اور اگر انہیں لاک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑے تو وہ انسان کتنے دن تک بنا کھانے پینے کے زندہ رہ سکتا ہے۔ اس پر قہر یہ کہ ان غریب مزدوروں کا کوئی سننے والا نہیں۔ ہندوستانی پولیس جسے اپنے ڈنڈے پر ناز ہے اس نے بڑی بے رحمی سے لاک ڈاؤن میں باہر نکلنے والے لوگوں کی پٹائی کی۔ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آخر انسان پل بھر میں حیوان کیسے بن جاتا ہے۔اگر میں ایسی حالت میں ہوتا تو ظاہر سی بات ہے کھانے پینے کی ضروریات کے لیے ضرور باہر نکلتا چاہے کتنا ہی سخت لاک ڈاؤن کیوں نہ ہو۔ ہاں اگر حکومت ان غریب مزدوروں کے لیے کوئی لائحہ عمل بناتی اور ان کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرواتی تو میں کہہ سکتا کہ ہندوستانی حکومت قابلِ تعریف ہے۔ اس کے علاوہ لاک ڈاؤن میں پھنسے لوگوں کو گاؤں جانے کے لیے شروعات میں کسی خاص ٹرین اور بس کا انتظام نہیں کیا گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ حکومت کے پاس کوئی انتظام نہ تھا۔ہندوستان کے غریب مزدور کی ایسی دردناک تصاویر کو ہمارے ساتھ دنیا بھر کے لوگوں نے دیکھا جو کہ ایک نہایت شرمناک بات ہے۔
مجھے تو اس بات سے بھی حیرانی ہوتی ہے جب پاکستان جیسے ملک نے لاک ڈاؤن میں بہت جلد ڈھیل دے دی۔ عجیب بات ہے۔ جب چار سو لوگ کورونا سے مرے تو لاک ڈاؤن کا نفاذ ہوا اور جب چار ہزار لوگ مرے تو لاک ڈاؤن ختم کر دی گئی۔ ہے نہ عجیب بات۔ کیا کہوں۔
کبھی کبھی میں سوچتا کہ آج کل کے حکمرانوں کی صلاحیت اور ذہانت پر پردہ ہی نہیں بلکہ ان کا ذہن زنگ آلود ہے۔ امریکی صدر کی بات کرے تو توبہ توبہ۔ وہ حضرت مرنے والوں پر د’کھ کم دکھا رہے ہیں اور لاک ڈاؤن پر زیادہ فکر مند ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی صدر ٹرمپ کے ہر جواب میں چین کا نام لینا لازمی ہے۔ اور اگر رپورٹر چینی ہو تو بس اس کی شامت ہے۔ کیونکہ ٹرمپ اپنے مخصوص انداز میں اس رپورٹر کے سوال کا جواب دینے کی بجائے اس سے یہ پوچھ لیتے ہیں کہ چین سے پوچھو۔
کورونا وائرس کا خوف ابھی پورے طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔ برطانیہ کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد میں امریکہ کے بعد دوسرا ملک بن چکا ہے۔ لیکن سب سے تشویش ناک بات تو یہ ہے کہ سائنسی ماہرین اور طبی ماہرین اس بات کو پتہ نہیں لگا پارہے کہ اس بیماری کی شروعات کیسے اور کہاں سے ہوئی۔ اس کے علاوہ آئے دن یہ ماہرین ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر آنے والی ہے۔ وہیں یہ بھی کہا جارہا کہ کورونا وائرس کئی برسوں تک ختم نہیں ہوگا۔ گویا زندہ رہنے کی خواہش میں انسان جیتے جی مر کر رہ گیا ہے۔
بچپن سے مصیبت کے وقت اکثر یہ بات سنتا رہا کہ ’جل تو جلال تو،آئی بلا ٹال تو۔اب تو سچ پوچھیے کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن سے ہم یہی کہنا چاہے گیں کہ جل تو جلال تو، آئی بلا ٹال تو۔ کیونکہ حکومت اور اس کے بیان اور پالیسی محض ایک کھوکھلی بات لگتی ہے۔ جس سے اب تک کوئی ٹھوس بات یا اقدام سامنے نہیں آئے ہیں۔ سوائے مرنے والوں کی تعداد کتنی بڑھی ہے۔مجھے لوگوں کی مجبوری اور بے بسی کا پورا احساس ہے اور میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ یا اللہ اب مزید ہماری آزمائش نہ لے اور ہم سب کو اس وبا سے جلد نجات دلا دے۔