بدھ کی صبح لاہور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور جیل روڈ وکلا اور ڈاکٹروں کی لڑائی کے باعث کئی گھنٹوں تک میدان جنگ بنا رہا۔
خیال رہے کہ تقریباً دو ہفتے قبل پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں علاج کے غرض سے آنے والے چند وکلا کا ڈاکٹروں اور ہسپتال انتظامیہ کے درمیان جھگڑا ہوا تھا جو بدھ کو پیش آنے والے واقعے کا سبب بنا۔
بدھ کو انتظامیہ اور وکلا کے درمیان مذاکرات ہونے تھے تاہم وکلا گروہ کی شکل میں ہسپتال آئے اور انھوں نے حملہ کر دیا۔ اس ہنگامہ آرائی کی وجہ سے ہسپتال میں داخل مریض بھی متاثر ہوئے اور حکام کے مطابق ہنگامہ آرائی کے دوران تین مریض طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
پولیس نے ہنگامہ آرائی کرنے والے وکلا کے خلاف تعزیراتِ پاکستان اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت دو مقدمات درج کیے ہیں۔ پہلا مقدمہ ہسپتال کے عملے کے ایک رکن کی مدعیت میں 250 سے زیادہ وکلا کے خلاف قتلِ خطا، کارِ سرکار میں مداخلت، دہشت پھیلانے، ہوائی فائرنگ کرنے، زخمی اور بلوہ کرنے، لوٹ مار، عورتوں پر حملہ کرنے اور سرکاری مشینری اور نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہچانے کی دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔
وکلا پی آئی سی کی جانب کب بڑھے
نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ایک وکیل نے بتایا کہ 23 نومبر کو ڈاکٹر اور کچھ وکیلوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد ’کوئی تسلی بخش کارروائی نہیں کی گئی۔ تاہم جب بھی ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو وکلا کمیونٹی میں ’یہ عموماً اس وکیل کی بے عزتی سمجھی جاتی ہے اور یہ تک کہا جاتا ہے کہ یہ وکیل مار کھا کر آگیا۔ ایسا ہی کچھ ان وکلا کے ساتھ ہو رہا تھا جس کی وجہ سے نوجوان وکلا کا غصہ بڑھتا گیا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بدھ کی صبح میں سول کورٹ میں اپنے ایک کیس کے سلسلے میں عدالت میں پیش ہوا۔ دلائل جاری تھے کہ جج صاحب نے کہا کہ وکیل صاحب بار نے ہڑتال کر دی ہے تو آپ بھی آگے کی تاریخ لے لیں۔ میں باہر آیا تو دیکھا کہ وکلا کی بڑی تعداد جمع تھی۔ سامنے نظر پڑی تو دیکھا کہ سامنے صدر بار کونسل پنجاب عاصم چیمہ صاحب مائیک پر گفتگو کر رہے تھے کہ ینگ لائیرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر نے ان سے مائیک چھینا اور کہا کہ اگر آپ سے کچھ نہیں ہو سکتا تو آپ استعفیٰ دے دیں۔ جس کے جواب میں صدر بار کونسل عاصم چیمہ صاحب نے کہا کہ ’آپ سب کیا کرنا چاہتے ہیں‘ تو سب وکلا نے نعرے لگانے شروع کر دیے، ’پی آئی سی ۔۔۔پی آئی سی‘۔ جس کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ اب پولیس کے افسر یا منسٹر سے جو بھی بات ہوگی پی آئی سی کے باہر جا کر ہو گی۔ جس کے بعد تمام وکلا جیل روڈ کی طرف چل پڑے‘۔
اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے ینگ لائرز ایسوسی ایشن کے صدر رانا اعجاز نے کہا کہ ’وکلا پر پی آئی سی کے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی جانب سے تشدد کیا گیا اور ہم اس معاملے پر اتنے دن سے پر امن احتجاج کر رہے تھے کہ ہمارے مسئلے کو حل کیا جائے۔ اس کے بعد ہم سب ڈاکٹر اور وکلا مل کر بیٹھے اور ہم نے معاملے کو حل کرنے کی بات کی جس کے بعد ڈاکٹر عدنان نے ویڈیو بنا کر وائرل کر دی‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس ویڈیو کے بعد وکلا کو غصہ تھا کہ ہماری بے عزتی کی گئی ہے۔ ہم اپنی لیڈر شپ کے پیچھے کھڑے تھے اور ہمارا صرف یہ مطالبہ تھا کہ قانون کے مطابق ملزمان کو سزا دلوائی جائے۔ جبکہ دوسری طرف پولیس نے مقدمے میں درج چند دفعات بھی ختم کر دیں اور ان ملزمان کو بھی گرفتار نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے وکیلوں نے چیمہ صاحب (صدر پنجاب بار کونسل) پر پریشر ڈالا ہوا تھا کہ قانون کے مطابق کارروائی کروائیں‘۔
ان کے مطابق ’جب ہماری سنوائی کہیں نہیں ہوئی تو ہم پی آئی سی کی طرف گئے‘۔
انھوں نے کہا کہ ’ڈاکٹر اور وکلا دونوں پڑھے لکھے لوگ ہیں اور کیا ایک ڈاکٹر کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ صلح ہونے کے بعد ایسی ویڈیو کو وائرل کریں۔ تاہم تشدد دونوں طرف سے کیا گیا۔ جب ڈاکٹروں نے ہم پر پتھراؤ کیا تو ہم نے جواب دیا لیکن اس کے باوجود بھی چوٹیں صرف وکلا کو آئیں اور گرفتار بھی وکیل ہی ہوئے۔‘
وجوہات جن کی بنا پر وکلا نے پی آئی سی پر حملہ کیا
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے صدر پنجاب بار عاصم چیمہ نے بتایا کہ ‘پہلے جو معاملہ ہوا تھا اس میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف نے وکلا کو کمرے میں بند کر کے مارا۔ اس کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ڈاکٹر عدنان نے اچھا قدم اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہم معافی مانگتے ہیں وکلا سے لیکن اس کے بعد انھوں نے ویڈیو بنا کر وائرل کر دی اور اس ویڈیو کی وجہ سے وکلا کی ہتک ہوئی جو ہمارے نوجوان وکلا کو بلکل اچھا نہیں لگا۔ گیارہ دسمبر کی صبح ہم نے ہاؤس کا اجلاس کیا اور اجلاس ختم ہو گیا لیکن نوجوان وکلا کا غصہ بہت زیادہ تھا اس لیے انھوں نے کہا کہ ہم نے پی آئی سی جانا ہے‘۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ’اس ویڈیو میں ڈاکٹر نے جو کہا کہ ‘کسی کی جرات نہیں ہے کہ پی آئی سی میں آکر دکھائے‘، اس جملے سے وکلا کو اشتعال آیا اور انھوں نے کہا کہ ہم جیل روڈ پر جا کر پرامن احتجاج کریں گے۔ جبکہ ہم نے یہی سوچا تھا کہ وہاں جا کر راضی نامہ ہو جائے گا اور ہم واپس آجائیں گے‘۔
ان کا کہنا ہے ’ہمارا احتجاج پرامن تھا لیکن جب اندر سے پتھر آنا شروع ہو گئے تو اس کے بعد وکلا اندر گئے‘۔
عاصم چیمہ (صدر پنجاب بار کونسل) نے دعویٰ کیا کہ ہمارے کسی وکیل نے کسی مریض کو ہاتھ نہیں لگایا اور ہمارے وکلا ہسپتال سے باہر آگئے۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر اور ہسپتال سٹاف باہر آیا اور پھر لڑائی شروع ہو گئی‘۔
ڈاکٹر عدنان کی ویڈیو کے علاوہ ایک ویڈیو حملے کے بعد وائرل ہوئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون وکیل کو پی آئی سی کے معاملے پر اشتعال انگیز تقریر کرتے سنا جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو میں خاتون وکیل نے دیگر وکلا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی بہن آپ سب کے ساتھ چلے گی وکلا کی عزت بحال کروانے‘۔ جبکہ بار کے اعلیٰ عہدیداران کو مخاطت کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلے کبھی کوئی مسئلہ ہوتا تھا تو ہم نے دیکھا ہے کہ آئی جی خود بار کے صدر کے پاس چل کر آتا تھا۔ ہم کمزور ہو چکے ہیں اور اب ہمیں اپنے لیے نکلنا ہے‘۔
اس معاملے کی تصدیق کرتے ہوئے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک وکیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایسی تقاریر کی جا رہی تھیں کیونکہ پنجاب بار کے الیکشن اگلے ماہ ہیں اور ووٹ لینے کے لیے امیدوار یہ سب کرتے ہیں‘۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ویڈیو میں تقریر کرنے والی خاتون وکیل اس مرتبہ نائب صدر کی امیدوار ہیں اور فی الحال پولیس کی حراست میں ہیں۔‘
اس معاملے پر ایڈوکیٹ سعد رسول نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ تاثر درست ہے کہ جو جب بھی الیکشن ہوتے ہیں تو امیدوار ایسے لوگوں کی سپورٹ کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہیں جو ہر حال میں یہاں تک کہ پر تشدد واقعات میں بھی وکلا کا ساتھ دیں گے اور پھر یہی لوگ ووٹ لے کر بار کے عہدیدار بن جاتے ہیں اور پروفیشنل وکلا پیچھے ہٹ جاتے ہیں‘۔
تاہم اس حوالے سے صدر پنجاب بار عاصم چیمہ سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ بدھ کو وکلا کی جانب سے پر تشدد واقعے میں بار کی سیاست کا کتنا عمل دخل ہے تو ان کا کہنا تھا ’یہ سچ ہے کہ اگلے ماہ الیکشن ہیں اور اس میں ایک نہیں درجنوں امیدوار کھڑے ہوتے ہیں اور اگر کسی امیدوار نے اس معاملے پر وکلا کو اشتعال دلایا ہے اور کہا ہے کہ ہم وہاں جا کر عزت بحال کروائیں گے تو میرا نہیں خیال کے اس واقعے کے بعد وکلا کی عزت بحال ہوئی ہے۔ تاہم وکلا نے کہا کہ احتجاج ریکارڈ کروانا ہمارا حق ہے لیکن ہم لوگوں کا پی آئی سی جا کر لڑنے کا کوئی ارادہ تھا اور نہ ہی ہم لڑنا چاہتے تھے‘۔
ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے بار ایسوسی ایشن کیا کرتی ہے
ایڈووکیٹ سعد رسول نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کل کا واقعہ وکلا تاریخ کا سب سے افسوسناک واقع ہے کیونکہ اس کے اندر جانی اور مالی نقصان ہوا ہے’۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’افتخار چوہدری کی وکلا تحریک سے لے کر اب تک وکیلوں کا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ ان کو جہاں موقع ملتا ہے یہ وہاں فساد کرتے ہیں۔ ہم نے وکلا کو صحافیوں پر، ڈاکٹروں پر، پولیس والوں اور ججوں تک پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا ہے‘۔
ماضی کے چند واقعات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’وکلا کے جو لیڈر ان کے اس واقعے کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انھیں تھوڑی سی شرم آنی چاہیے کیونکہ کسی بھی معاشرے میں ایسے واقعات نا قابل برداشت ہوتے ہیں‘۔
قانونی پہلو کے بارے میں بات کرتے ہوئے سعد رسول کا کہنا تھا کہ ‘لوگ صرف یہ باتیں کر رہے ہیں کہ ان تمام وکلا کا لائسنس معطل ہونا چاہیے جو کافی نہیں ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ اس کے علاوہ ان تمام لوگوں کے خلاف قتل کے پرچے درج ہونے چاہیں۔ لائسنس معطل ہونے سے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ آج ان کا لائسنس معطل ہوتا ہے اور چار دن بعد وکلا کا لائسنس بحال ہو جاتا ہے۔ اس لیے ان تمام افراد جو بھی کل کے واقعے میں ملوث تھے، ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے‘۔
ایڈوکیٹ سعد رسول نے بتایا کہ ایسے واقعات میں ملوث وکلا کے خلاف بار نے نہ تو کوئی پالیسی بنائی ہے اور نہ ہی کوئی میمو یا سسٹم موجود ہے۔
’ایسے واقعات بارہ تیرہ برسوں سے ہو رہے ہیں۔ اس کے باوجود بھی آج تک پنجاب بار کونسل اور نہ ہی کسی اور تنظیم کی طرف سے کوئی تجویز دی گئی کہ ایسے معاملات کو کیسے حل کرنا ہے اور میرے خیال میں یہ سینئر لیڈرشپ کی بہت بڑی ناکامی ہے‘۔
انھوں نے مزید کہا کہ بار کونسل کے لوگ اس لیے بھی ایسے اقدامات نہیں اٹھاتے کیونکہ وہ سب سے پہلے یہ سوچتے ہیں کہ مجھے ووٹ چاہیے ہیں‘۔
اس حوالے سے پنجاب بار کے صدر عاصم چیمہ کا کہنا تھا کہ ’جس جس وکیل کا ہمیں پتہ چلے گا کہ وہ کل کے احتجاج میں پرامن نہیں تھے ان کی ممبرشپ اور لائسنس دونوں کو کینسل کیا جائے گا۔ جبکہ ہم نے ایک وکیل، جس نے اندر جا کر بتمیزی کی تھی اس کا لائسنس کینسل کر دیا ہے اور جس وکیل کو فائزنگ کرتے دیکھا گیا ہے ہم اسے بھی دیکھ رہے ہیں کہ کیا وہ ہمارا وکیل تھا یا نہیں۔ اگر وہ ہمارا وکیل ہوا تو اس کا لائسنس بھی کینسل ہوگا۔‘