بیلجیئم کے پارک پیری ڈائزا زولوجیکل گارڈن میں ایسا لگتا ہے کہ صبح صبح ہاتھیوں کی کوئی میٹنگ ہو رہی ہے۔ یہ مہوت کے ایک لفظ پر بے مثال نظم و ضبط کے ساتھ قطار در قطار کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد دوستانہ انداز میں ایک دوسرے سے گھل مل جاتے ہیں۔
یہ رسم جمعہ 13 مارچ کو بیلجیئم کے لاک ڈاؤن میں جانے سے اب تک روزانہ بغیر تماشائیوں کے منعقد کی جاتی رہی ہے۔
اب یہ پارک آہستہ آہستہ لاک ڈاؤن کے اثرات سے باہر نکل رہا ہے۔
یہ مرحلہ سست رفتار اور بتدریج ہوگا۔
یہاں روزانہ 30 ہزار افراد کو سنبھالنے کی گنجائش ہے تاہم ابتدائی طور پر صرف پانچ ہزار لوگوں کو آنے کی اجازت ہو گی۔ لوگ ماسک پہنیں گے، سماجی دوری اختیار کریں گے، اور صرف انہی یکطرفہ راستوں پر چل سکیں گے جن کا تعین اہلکار کریں گے۔
تمام یورپی حکومتیں اس مسئلے پر غور و خوض میں مصروف ہیں کہ لاک ڈاؤن کو کتنا تیزی سے اور کس حد تک کھولا جا سکتا ہے۔
مگر کئی ممالک بشمول ڈنمارک اور جرمنی میں چڑیا گھر سیاحوں کے لیے دوبارہ کھولے جانے والی پہلی جگہوں میں سے تھے۔ اب فرانس، اٹلی، جمہوریہ چیک اور سپین کے کچھ خطوں میں بھی چڑیا گھر کھل رہے ہیں۔
بندشوں کے اچانک نفاذ سے چڑیا گھروں کے انتظام و انصرام میں حائل مالی مشکلات کھل کر عیاں ہوگئیں۔ یہاں تک کہ پیری ڈائزا جیسا بڑا چڑیا گھر جو بڑی سرمایہ کاری حاصل کر چکا ہے اور یورپ کے زو آف دی ایئر کا ایوارڈ دو مرتبہ جیت چکا ہے، وہ بھی ان مسائل سے محفوظ نہیں رہ سکا۔
زو کے ترجمان میتھیو گوڈفروئے نے بتایا: ‘چڑیا گھر میں زندگی جاری رہی، اور چونکہ ہم یہاں آنے والے لوگوں سے پیسے نہیں کما سکے، اس لیے بہت زیادہ پیسے خرچ ہوئے ہیں۔’
انھوں نے کہا کہ ‘لاک ڈاؤن کے دوران روزانہ ایک لاکھ یورو (90 ہزار پاؤنڈ یا ایک لاکھ 10 ہزار ڈالر) کا نقصان ہوا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم اس سال کے لیے اپنا خسارہ تین کروڑ یورو تک محدود رکھ سکیں گے۔’
چڑیا گھروں کے متعین اور بلند اخراجات ہوتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے آمدنی میں کمی تو ہوئی لیکن جانوروں کی خوراک اور ان کی دیکھ بھال کرنے والوں کی تنخواہوں پر اخراجات جاری رہے۔
محدود تعداد میں لوگوں کو آنے کی اجازت سے چڑیا گھروں کو فائدہ ہوگا لیکن تھیم پارکس کے مالکان کو اس سے کچھ خاص مدد نہیں ملے گی، کیونکہ مثال کے طور پر رولر کوسٹر میں سماجی دوری اختیار کروانا مالی اعتبار سے موزوں نہیں ہے۔
سب سے پہلے آنے والے تماشائیوں میں خاندان تھے جن کے چھوٹے بچے ایک طویل عرصے بعد تازہ ہوا میں سانس لے کر اور بہار کی چمکدار دھوپ سے لطف اندوز ہو کر بہت خوش ہوئے۔
ایک ماں نے مجھے اپنے بیٹے کے بارے میں بتایا: ‘انھیں دریائی گھوڑا دیکھنا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ خوشی انھیں گھر سے باہر نکلنے اور اپنی گاڑی میں بیٹھنے کی ہے۔’
بیلجیئم میں فی الحال دکانیں کھول دی گئی ہیں مگر ریستوران اب بھی بند ہیں۔
چڑیا گھر عوامی تفریح کے وہ واحد مقامات ہیں جنھیں کھلنے کی اجازت دی گئی ہے، صرف اس لیے کیونکہ یہ کھلے مقامات ہوتے ہیں اور سائنسدانوں کو اعتماد ہے کہ باہر رہنا اندر رہنے کے مقابلے میں کم خطرناک ہے۔
چڑیا گھر کے عملے کا خیال ہے کہ دوبارہ کھلنے پر جوش و خروش صرف انسانوں تک محدود نہیں ہے۔
ہاتھی کا خیال رکھنے والے روب کوناشی کہتے ہیں کہ مالا نامی ایک ہاتھی کو انسانوں کو باقی جھنڈ سے متعارف کروانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
جب ہم باتیں کر رہے تھے تب چڑیا گھر کے دروازے کھلے اور لوگ اندر آنے شروع ہوئے۔
روب نے ہمیں بتایا کہ ‘مالا کو عام طور پر بہت سی گاجریں کھلائی جاتی ہیں اور لاک ڈاؤن کے دوران ظاہر ہے کہ اسے حیرانگی ہے کہ گاجریں کہاں چلی گئیں۔ ہاتھی ٹھیک ہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ لوگوں کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔’
اب لاک ڈاؤن بتدریج ختم ہو رہا ہے اور چڑیا گھر میں زندگی بحال ہو رہی ہے۔ چڑیا گھر آنے والے لوگ بھی خوش ہیں مگر یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ اس خوشی میں ہاتھی بھی ان کے ساتھ شریک ہیں۔