پاکستان

کوئٹہ: ہزارہ ٹاؤن میں مشتعل ہجوم کے تشدد سے نوجوان کی ہلاکت، 12 افراد گرفتار، پانچ پولیس اہلکار معطل

Share

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں مشتعل ہجوم کے تین نوجوانوں پر تشدد کے نتیجے میں ایک نوجوان کی ہلاکت کے بعد سنیچر کو حکام نے جہاں پانچ پولیس اہلکاروں کو غفلت برتنے پر معطل کر دیا ہے وہیں متعدد افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

یہ واقعہ جمعے کی شب ہزارہ ٹاﺅن میں پیش آیا تھا جہاں ایک حجام کی دکان میں تین نوجوانوں کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مبینہ طور پر لڑکیوں کی ویڈیوز بنانے پر شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

ابتدائی تحقیقات کے مطابق ان لڑکوں کا تعلق کوئٹہ کے ہی ایک اور علاقے سے تھا۔ مشتعل افراد کے تشدد کی وجہ سے ان میں سے ایک لڑکا ہلاک ہو گیا تھا جبکہ دیگر دو شدید زخمی ہوئے ہیں۔

ہلاک اور زخمی ہونے لڑکوں کے اہلخانہ اور رشتہ داروں نے سنیچر کو مرنے والے لڑکے کی لاش کے ہمراہ کوئٹہ میں گورنر ہاؤس کے باہر احتجاج بھی کیا۔

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی نے اعلان کیا ہے کہ واقعے کی ایف آئی آر درج کرتے ہوئے نامزد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ زخمیوں کا علاج کراچی میں کروایا جائے گا جبکہ معاملے کی تحقیقات جاری ہیں۔

بلوچستان، جام کمال، ہزارہ ٹاؤن

احتجاج کرنے والوں میں لواحقین کے علاوہ علاقے کے لوگوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ مظاہرین لاش کے ہمراہ وزیر اعلی ہاﺅس کے باہر احتجاج کرنا چاہتے تھے لیکن پولیس نے انھیں ریڈ زون میں داخل نہیں ہونے دیا جس پر انھوں نے گورنر ہاﺅس کے قریب احتجاج کیا اور ملزمان کی گرفتاری اور ان کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

غفلت برتنے پر پانچ پولیس اہلکار معطل

وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے بی بی سی کے محمد کاظم کو بتایا کہ تشدد کے الزام میں اب تک مجموعی طور پر 12 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے ایک ملزم کو ہلاک ہونے والے لڑکے کے لواحقین نے نامزد کیا تھا جبکہ بقیہ 11 افراد کو ابتدائی تحقیقات کے بعد پولیس نے اپنے طور پر گرفتار کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اس واقعے کے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور یہ یقین دہانی ہم نے حملے کا نشانہ بننے والے نوجوانوں کے لواحقین کو بھی کروائی ہے‘۔

ضیاءاللہ لانگو نے یہ بھی بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے بعد اس واقعے میں پولیس اہلکاروں کی کوتاہی اور غفلت بھی نظر آتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غفلت برتنے پر علاقے کے ایس ایچ او سمیت پانچ پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔

بعد ازاں ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کے ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ یہ واقعہ خالصتاً چند لوگوں کی جانب سے ایک مجرمانہ کارروائی ہے۔

جمال

یہ واقعہ کس طرح پیش آیا ؟

بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے بی بی سی کو بتایا کہ ان تینوں افراد کو ایک ہجوم نے ایک حجام کی دکان میں تشدد کا نشانہ بنایا۔

اس واقعے کے حوالے سے جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر آئیں ان میں یہ واضح طورپر دیکھا جا سکتا ہے کہ حجام کی دکان میں ٹوٹے ہوئے شیشے بکھرے پڑے ہیں جبکہ وہاں چند پولیس اہلکار بھی نظر آ رہے ہیں۔

ضیا اللہ لانگو کے مطابق ان تینوں افراد کا تعلق ہزارہ ٹاﺅن سے نہیں تھا اور اب تک کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ ان افراد کو اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا وہ اس علاقے میں مبینہ طور پر خواتین کی ویڈیوز بنا رہے تھے۔

سوشل میڈیا پر موجود دکان کی ایک ویڈیو میں ہلاک ہونے والا نوجوان اپنے ایک دوست کے ساتھ ایک صوفے پر بیٹھا دکھائی دے رہا ہے اور ان کا انداز جارحانہ نہیں بلکہ وہ خوفزدہ لگ رہے ہیں۔

ویڈیو میں ایک موبائل فون ایک شخص کے ہاتھ میں نظر آرہا ہے جو اس میں موجود خواتین کی ویڈیوز کو دیکھ رہا ہے۔

تشدد کا نشانہ بننے والے نوجوانوں کے رشتہ داروں نے خواتین کی ویڈیوز بنانے کے الزام کو مسترد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نوجوان اکثر اس حمام میں جا کر بیٹھتے تھے جہاں انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

نوجوانوں کے رشتہ داروں کے مطابق ان کا وہاں رقم کے لین دین پر تنازع ہوا جس پر انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں غلط الزام عائد کیا گیا ہے۔

اس واقعے میں ایک زخمی شخص کی ویڈیو بھی منظرِ عام پر آئی ہے۔

زخمی شخص اپنا نام نیاز محمد بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے حمام والے کو ایک وِٹز گاڑی دی تھی اور حمام کے مالک نے انھیں اس کے چار لاکھ 20 ہزار روپے دینے تھے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان پیسوں کے حوالے سے جھگڑا ہوا اور اس کے علاوہ معاملہ کچھ اور نہیں تھا۔

ہزارہ ٹاؤن کی تاریخ

ہزارہ ٹاﺅن کوئٹہ شہر کے مغرب میں بروری کی پہاڑی علاقے پر واقع ہے۔ اس علاقے کی زیادہ تر آبادی دری زبان بولنے والے ہزارہ قبیلے کے افراد پر مشتمل ہے جس کے باعث یہ علاقہ ہزارہ ٹاﺅن کہلاتا ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بدامنی کے دیگر واقعات کے ساتھ ساتھ جب فرقہ واریت کے حوالے سے تشدد کے واقعات شروع ہوئے تو ہزارہ ٹاﺅن سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی بڑے پیمانے پر اس قتل و غارت کا نشانہ بنے۔

خود ہزارہ ٹاﺅن میں متعدد خود کش حملوں کے علاوہ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو دیگر علاقوں میں بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا اور ان واقعات میں کئی لوگ زخمی بھی ہوئے۔

ان واقعات کے بعد ہزارہ ٹاﺅن کے اردگرد نہ صرف سیکورٹی کو سخت کیا گیا ہے بلکہ یہاں کے لوگ بھی اپنی مدد آپ کے تحت سیکورٹی کا خیال رکھتے تھے۔

فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کے علاوہ اس علاقے میں عام جرائم کے دوسرے واقعات بھی پیش آتے رہے ہیں لیکن طویل عرصے بعد یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا جس میں ایک پشتون قبیلے سے تعلق رکھنے والے تین نوجوان تشدد کا نشانہ بنے۔

سوشل میڈیا پر ردِعمل

اس واقعے پر سوشل میڈیا پر بھی لوگوں نے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے مختلف پہلوؤں سے اس واقعے پر اظہارِ خیال کیا ہے۔

اشفاق نامی ایک صارف نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں تحریر کیا کہ کوئٹہ کا واقعہ بہت سنگین ہے اور یہ نسلی اور فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ بن سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فوراً اس معاملے کو حل کرنا ہوگا ورنہ کوئٹہ میں کشت و خون دور نہیں۔

کوئٹہ

انسانی حقوق کی کارکن جلیلہ حیدر نے کہا کہ وہ ہزارہ ٹاؤن میں ہونے والے واقعے کی مذمت کرتی ہیں اور اگر مجرمان میں ان کے والد بھی ہوتے تو وہ انھیں بھی اس غیر انسانی قتل پر معاف نہیں کرتیں۔