فیچرز

سمندری حیات: پاکستان کی سمندری حدود میں بلیک بلینکٹ آکٹوپس کی موجودگی کا انکشاف

Share

پاکستان کی سمندری حدود سے پہلی مرتبہ بلیک بلینکٹ آکٹوپس ملے ہیں۔

ماحول کی بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق یہ مچھلی کا شکار کرنے والے ماہی گیروں کو سمندر کے گہرے پانیوں سے ملے تھے جنھیں بعد ازاں ماہی گیروں نے زندہ حالت میں ہی پانی میں چھوڑ دیا۔

یہ آکٹوپس سندھ اور بلوچستان کے قریبی سمندر سے ملے جس کی لمبائی ایک میٹر کے قریب جبکہ وزن دو سے ڈھائی کلو کے قریب تھا۔ سات دسمبر کو بلوچستان کے ماہی گیر سعید بادشاہ کو پہلا بلیک آکٹوپس ملا جو ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق اس نسل کے زندہ آکٹوپس کے ملنے کا پہلا واقعہ تھا۔

دوسرے واقعے میں سندھ کے علاقے گھوڑا باری سے 103 ناٹیکل دور ماہی گیر امیر رحمان کے جال میں ایک بلیک بلینکٹ آکٹوپس پھنسا جس کو واپس سمندر میں چھوڑ دیا گیا۔ تیسرے واقعے میں سندھ اور بلوچستان کی سمندری حدود کے قریب کیپ مونز کے پاس ماہی گیر حسنات خان کے جال میں ایسا ہی ایک آکٹوپس پھنسا جسے فوری طور پر سمندر میں چھوڑ دیا گیا۔

آکٹوپس
بلیک بلینکٹ آکٹوپس بحرالکاہل، بحرِ اوقیانوس اور بحیرہ عرب میں پائے جاتے ہیں

پاکستان کی سمندری حیات میں ایک اضافہ

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنیکل مشیر محمد معظم نے بی بی سی کو بتایا کہ بلیک بلینکٹ آکٹوپس بحرالکاہل، بحرِ اوقیانوس اور بحیرہ عرب میں پائے جاتے ہیں، لیکن پاکستان میں اس کی کبھی موجودگی کی اطلاع نہیں ملی۔ ’اس کا پاکستان کی سمندری حدود میں ملنا پاکستان کی سمندری حیات میں ایک اضافہ ہے۔‘

’اس نسل کی مادہ آکٹوپس پر ایک طرح کا کمبل کا کور ہوتا ہے اس لیے اس کو بلینکٹ آکٹوپس کہتے ہیں۔ نر آکٹوپس کی جسامت چھوٹی ہوتی ہے اس لیے وہ کم ہی نظر آتا ہے۔ اسی لیے اس کی شناخت مادہ آکٹوپس سے ہی ہوتی ہے، جو انڈے اپنے ساتھ رکھتی ہے اور وقت آنے پر پانی میں چھوڑ دیتی ہے۔‘

آٹھ آنکھیں اور تین دلوں والا گوشت خور جاندار

آکٹوپس
اس نسل کی مادہ آکٹوپس پر ایک طرح کا کمبل کا کور ہوتا ہے اس لیے اس کو بلینکٹ آکٹوپس کہتے ہیں

آکٹوپس گوشت خور جاندار ہے، اس کی خوراک میں چھوٹی مچھلیاں، جھینگے اور گھونگے شامل ہیں جبکہ بعض اقسام کی جیلی فش بھی اس کی خوراک کا حصہ ہے۔

آکٹوپس کا شمار دنیا کے انوکھے جانداروں میں ہوتا ہے، جس کے آٹھ بازو، تین دل اور خون کا رنگ نیلا ہوتا ہے۔

جسامت میں کوئی ہڈی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کسی بھی سانچے میں ڈھلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان کا رنگ سیاہ، چاکلیٹی اور نارنجی ہوتا ہے جبکہ بعض آکٹوپس اپنا رنگ تبدیل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ان کی کئی اقسام ہیں اور آسٹریلیا میں پایا جانے والا نیلے رنگ کا آکٹوپس زہریلہ ہوتا ہے جس کے کاٹنے سے انسان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔

محدود وسائل محدود تحقیق

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنیکل مشیر محمد معظم کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سمندری حدود میں کتنی اقسام کے جاندار ہیں اس کی مکمل تحقیق کبھی نہیں ہوئی کیونکہ وسائل دستیاب نہیں ہیں۔ ’یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ مخلوق یہاں پہلے سے موجود تھی یا بعد میں آئی ہے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔‘

’ہمارے پاس کئی دہائیاں قبل بحری جہاز ہوتے تھے جن کی مدد سے سمندری حیات پر تحقیق ہوتی تھی موجودہ وقت کسی بھی ادارے کے پاس کوئی وسائل نہیں، جب کبھی گہرے سمندر میں ماہی گیروں کے جال میں کوئی جاندار آ جائے اور وہ تصویر بھیج دیں تو اس کی شناخت ہو جاتی ہے۔‘