کوک سٹوڈیو کے 12ویں سیزن میں حدیقہ کیانی اور علی سیٹھی کی جانب سے گائے گئے گانوں پر تعریف اور تنقید کا سلسلہ فی الحال جاری ہے۔
بی بی سی ایشین نیٹ ورک کی شبنم محمود نے حال ہی میں کوک سٹوڈیو سیزن 12 میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے گلوکاروں حدیقہ کیانی اور علی سیٹھی سے خصوصی گفتگو کی ہے جو قارئین کے لیے پیشِ خدمت ہے۔
گلوکارہ حدیقہ کیانی نے کوک سٹوڈیو کے 12ویں سیزن میں ’ڈاچی والیا‘ گایا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نوجوان گلوکاروں کو سامنے آنے کے مواقع کم ہی ملتے ہیں اور یہاں المیہ یہ ہے کہ ریکارڈ لیبلز کا تصور ہی نہیں ہے۔
’گلوکاروں اور موسیقاروں کے لیے ریکارڈ لیبل کی اہمیت ایک چھت جیسی ہے، جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے معاشی سپورٹ ملتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ نئے ٹیلنٹ اور یہاں تک کے ہمارے جیسے سنگرز کے پاس کوئی ایسی چھت نہیں ہے جہاں جا کر ہم یہ کہہ سکیں:
’چلیے کچھ موسیقی بناتے ہیں۔ ہمارے پاس نیا کام کرنے کے انتہائی محدود مواقع ہیں اور ایسا ہی ایک پلیٹ فارم کوک سٹوڈیو ہے۔ میری خواہش ہے کہ کوک سٹوڈیو جیسے دس اور پلیٹ فارم ہوں جس میں نیا اور پرانا ٹیلنٹ آئے اور سب مل کر کام کریں۔‘
حدیقہ نے بتایا کہ کوک سٹوڈیو کے پانچویں سیزن میں انھوں نے ’کملی‘ گانا گایا تھا جو دراصل بابا بلھے شاہ کا کلام تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ان کا مشہور گانا ’بوہے باریاں‘ پڑوسی ملک انڈیا میں کاپی ہوا جس کا انھیں کریڈٹ تک نہیں ملا۔
’ہمارے یہاں ریکارڈ لیبل اور موسیقی کے جملہ حقوق محفوظ ہونے چاہیں اور ایک ایسی کمپنی ہونی چاہیے جو ہمارے موسیقی سے متعلقہ حقوق کا تحفظ پاکستان میں بھی اور بیرونی ممالک میں بھی کرے۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ فی الحال ’بوہے باریاں‘ کو نئے انداز سے گانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں تاہم انھوں نے کہا کہ مستقبل میں وہ شاید ایسا کریں گی۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں خواتین گلوکاراؤں کو اپنے فنی سفر میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
’اگر ان مشکلات کے پیشِ نظر آپ ہمت کھو دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کا شوق اور پیشن کافی مضبوط نہیں تھا جس کی وجہ سے آپ ہار جاتے ہیں۔ مگر اگر آپ کے جذبے بلند ہوں تو آپ کو کوئی مشکل مشکل نہیں لگتی۔ پاکستانی معاشرہ پدرشاہی ہے مگر آپ کو مشکلات صرف اسی وقت روک سکتی ہیں جب آپ کا جذبہ بلند نہ ہو تو۔ میں اپنے گلوکاری کے شوق میں اتنی جنونی اور جذباتی تھی کہ میں نے بڑے بڑے مسائل کا سامنا مگر وہ مسئلے مجھے کبھی مسئلے لگے ہی نہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے مستقبل میں کیا ارادے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ان کا آج بھی موسیقی سے عبارت ہے اور آنے والا کل بھی۔
’میوزک کے ساتھ ساتھ میں بہت سے دیگر کام کر رہی ہوں۔ میں گذشتہ آٹھ برسوں سے بیوٹی سیلون بھی چلا رہی ہوں اور آج ملک کے مختلف شہروں میں اس کی سات فرنچائزز ہیں۔ اس کے علاوہ میں ایک کامیڈی شو کی ہوسٹنگ بھی کر رہی ہوں۔ اپنے آپ کو دریافت کرنے کا اور سیکھنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔‘
علی سیٹھی
کوک سٹوڈیو سیزن 12 میں گلوکار علی سیٹھی نے فیض کا کلام ’گُلوں میں رنگ بھرے‘ گایا ہے۔
بی بی سی کی جانب سے ان سے سوال کیا گیا کہ کوک سٹوڈیو کے انھوں نے 12ویں سیزن میں گانے کے لیے مہدی حسن کی ہی غزل کا انتخاب کیوں کیا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ مہدی صاحب ہم سب کے ہی آئیڈیل ہیں۔
’ہم جیسے طالبعلم جو ابھی گانا سیکھ رہے ہیں ان کے لیے مہدی صاحب سے بڑھ کر شاید کوئی بھی نہیں ہے۔ نہ پاکستان میں اور نہ ہی انڈیا میں۔ میں مہدی صاحب کو استاد مانتا ہوں اور ان کے کام کو سنتا بھی ہوں۔‘
انھوں نے کہا کہ کچھ لوگ بڑے گلوکاروں کا کام گا کر کہتے ہیں کہ یہ خراجِ عقیدت پیش کرنے کے جیسا ہے۔
’میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں کہاں اور وہ مقام کہاں۔ میں نہیں سمجھتا کہ آپ ایک شاہکار اور شاندار چیز کو خراجِ عقیدت پیش کر سکتے ہیں۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ آپ ادب کے دائرے میں رہ کر اپنی محبت کا اظہار کر سکتے ہیں۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کے جو معیار مہدی صاحب نے قائم کیا میں اس کو نہ صرف مانتا ہوں بلکہ اس کے سائے میں اپنی ایک کوشش کرنا چاہتا ہوں۔‘
’مہدی صاحب اور فیض صاحب کے کام کو آج کل کے نوجوانوں کو پہنچانے کا بھی یہ ایک طریقہ ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ کوک سٹوڈیو کی وجہ سے آج کل کے نوجوانوں کو لیجنڈز کو سننے کا موقعہ ملتا ہے اور گائیکی کے اس اعلیٰ معیار کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے بہت سے لوگ جا کر اوریجنل کام کو سنتے ہیں اور پھر کئی لوگ گلہ کرتے ہیں کہ آپ نے اوریجنل کا ستیاناس کر دیا۔ مگر ہم حاضر ہیں۔‘
پہلی مرتبہ کوک سٹوڈیو میں آنے کی کتنی خوشی تھی؟
علی سیٹھی کہتے ہیں ’مجھے بہت خِوشی تھی، مگر ڈر بھی تھا کہ میرا کیا بنے گا۔ جس سیزن میں میں سب سے پہلے کوک سٹوڈیو آیا تھا اس کو بلال مقصود اور فیصل کپاڈیا پروڈیوس کر رہے تھے، انھوں نے مجھے بہت عمدہ سلاٹ دیا ساڑھے پانچ منٹ کا اور اپنی موسیقی کے اظہار کا بھرپور موقع فراہم کیا۔‘
فریدہ خانم پر ڈاکیومنٹری
علی سیٹھی نے بتایا کہ وہ گذشتہ دس برسوں سے گلوکارہ فریدہ خانم کی ڈاکیومنٹری پر کام کر رہے ہیں۔
’میرا شوق یہ تھا پاکستان میں سنہ 60 اور 70 کی دہائیوں میں موسیقی کا جو ماحول تھا اسے زندہ رکھا جائے۔ اور فریدہ خانم شاید اس جنریشن کی پاکستان میں آخری نمائندہ ہیں۔ فریدہ جی کا فیض صاحب کے ساتھ کافی اٹھنا بیٹھنا تھا اور انھوں نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر کئی غزلیں فریدہ جی کو گانے کے لیے دیں۔ میں یہ قصے کہانیاں سنتا رہتا تھا تو مجھے خیال آیا کہ اسے ڈاکومنٹ کیا جائے۔‘
میں نے شروعات ایسے کی کہ میں ان کے ساتھ بیٹھتا، چائے پیتا اور گفتگو کرتا۔ ہم ان کے ساتھ امرتسر اور کلکلتہ گئے جہاں ان کی پیدائش ہوئی تھی، ہم نے ان کا آبائی گھر ڈھونڈا۔ ہم نے وہ ساری چیزیں ڈاکیومنٹ کیں۔
میں فریدہ خانم سے گانا بھی سیکھتا ہوں اور ان کا شاگرد ہوں۔
انھوں نے بتایا کہ لاہور میں ہر روز لگ بھگ تین، ساڑھے تین گھنٹے وہ فریدہ خانم کے ہاں گاتے ہیں اور کلاس لیتے ہیں۔
’میں تھک جاتا ہوں تو کہتا ہوں کے کھانا کھلا دیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ابھی سُر تو لگا نہیں اور کھانا پہلے ہی کھانا ہے۔ جتنی سختی ایک استاد کو کرنی چاہیے فریدہ جی اتنی سختی کرتی ہیں۔‘