تاریخ واقعات کا نام ہے، نادر اقوال کا نہیں۔ یہی سبب ہے کہ اس باب میں خبرِ واحد کو حجت نہیں مانا جاتا۔
خبرِ واحد کیا ہے؟ ایک واقعہ سرِ عام ہوا مگر اسے ایک دو سے زیادہ افراد نے روایت نہیں کیا۔ اس کے برخلاف خبرِ متواتر ہے۔ ایک واقعے کو اتنے لوگ روایت کریں کہ ان کا کسی جھوٹ پر متفق ہونا عملاً محال ہو۔ جس طرح خبر واحد کا اعتبار آسان نہیں، اسی طرح خبرِ متواتر کا انکار مشکل ہے۔ وہی تاریخی واقعہ معتبر سمجھا جاتا ہے جو خبرِ تواتر ہو۔ خبرِ متواتر کے مقابلے میں خبرِ واحد کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔
ایٹمی دھماکہ کس نے کیا؟ کسی گوہر ایوب یا کسی شیخ رشید کی بات، اس معاملے میں مستند نہیں، جب اخبارِ متواتر ان کی تردید کر رہی ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان اعلانیہ ایٹمی قوت28 مئی 1998ء کو بنا۔ اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم محمد نوازشریف تھے۔ انہیں ہی یہ اعزاز ملا کہ پہلی بار دنیا نے ان کی زبان سے یہ اعلان سنا۔ یہ واقعہ ہے اور یہی تاریخ ہے۔ کوئی خبرِ واحد اس کو جھٹلا نہیں سکتی۔
جب پاکستان کو 1973ء کا آئین نصیب ہوا، جس نے آج تک ملک کو متحد رکھا ہوا ہے تو اس وقت پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ یہ آئین پاکستان کو ایک اسلامی ریاست مانتا ہے۔ اس کے مطابق کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے برخلاف نہیں ہو سکتی۔ اب بھٹو صاحب کو سیکولر ثابت کرنے سے اس واقعے کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جو سرخاب کا پَر ان کی دستار میں لگنا تھا، لگ چکا۔
اخبارِ متواتر بتا رہی ہیں کہ پاکستان قائد اعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کی جدوجہد سے بنا۔ جب دنیا کے نقشے پر اس کا ظہور ہوا تو وہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل تھے۔ اب کسی خبرِ واحد سے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کاقیام انگریزوں کا منصوبہ تھا۔ اس طرح کی کوشش علم اورتحقیق کے دنیا میں اعتبار نہیں پا سکتی۔ کوئی کسی واقعے سے کیا اورکتنا فائدہ اٹھاتا ہے، یہ الگ موضوع ہے۔ واقعہ بہرحال واقعہ ہی رہے گا۔
پھر یہ کہ کوئی بڑا فیصلہ اچانک نہیں ہوتا۔ اگر اس کے ساتھ کروڑوں لوگوں کا مستقبل وابستہ ہو تو پھر فیصلہ گہری سوچ بچار کا متقاضی ہوتا ہے۔ ایٹمی قوت ہونے کا اعلان معمولی فیصلہ نہیں تھا۔ عالمی قوتوں کا غصہ ناک پر دھرا تھا۔ اعلیٰ ترین سطح پر اس پر بحث مباحثہ جاری تھا۔ ہر امکان پر بات ہو رہی تھی۔ یہ رائے بھی دی گئی کہ جن کو معلوم ہونا چاہیے، انہیں خبر ہے‘ اس لیے اگر یہ اعلان نہ ہو تو بھی امرِ واقعہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ان آرا میں سے کوئی رائے بے ہمتی کی دلیل ہے نہ حب الوطنی کے خلاف۔
کوئی وزیر اعظم اتنا بڑا فیصلہ تنہا نہیں کرتا، کرنا بھی نہیں چاہیے۔ لازم تھا کہ وہ سب کی بات سنے اور ہر موقف کے مثبت اور منفی پہلو پر غور کرے۔ اس کے بعد کوئی فیصلہ کرے۔ فیصلے کے بعد، اس کے نتائج کی تنہا ذمہ داری اسی کی ہے کہ وہی جوابدہ ہے۔ جو بھی ریاست کے نظام کو جانتا ہے، اسے معلوم ہے کہ قومی فیصلے اسی طرح ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ آمر بھی، اگر اس میں عقل کی کوئی رمق ہو، کبھی تنہا بڑے فیصلے نہیں کرتا۔ ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ بھی اسی طرح ہوا۔ تاریخ مگر یہ ہے کہ اس کا اعلان محمد نوازشریف نے کیا۔ اس کے لیے ان کی گرمجوشی بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ اگراعزاز ہے تو کسی خبرِ واحد سے اسے چھینا نہیں جا سکتا۔
تاریخ کے باب میں، خبرِ واحد کوایک اضافی دلیل کے طور پر قبول کی جاسکتا ہے، اگر بعض دیگر واقعاتی شہادتیں (Circumstantial evidences) اس کی تائید میں کھڑی ہوں۔ اس کے ساتھ تمام اخبار پر، آحاد ہوں یا متواتر، عقلِ عام کی حاکمیت قائم رہتی ہے۔ یہ اہتمام اس لیے ضروری ہے کہ خواہشات کو تاریخ نہ بنایا جاسکے۔ ان دنوں ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کے دوطرح کے ارشادات گردش میں ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ فریقین ان کی دو متضاد شہادتوں کواپنے اپنے حق میں پیش کر رہے ہیں۔ واقعہ تو ایک طرف رہا، اس تضاد نے خود راوی کے بارے میں سوالات پیدا کر دیے ہیں۔
عام طور پر ہوتا یہی ہے کہ لوگ اپنے ذہن میں کسی فرد یا تاریخی واقعے کے بارے میں ایک تاثر قائم کر لیتے ہیں‘ پھر تاریخ سے اپنے حق میں دلائل تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ یوں لوگوں کی افرادی یادداشتیں بطور تائید پیش کر دیتے ہیں۔ اب کوئی اپنی یادداشت سے کچھ بھی لکھ ڈالے، اسے ایک طرح سے اعتبار مل جاتا ہے۔ اسے ساقط الاعتبار ثابت کرنے کے لیے علمی مشقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کم افراد ہی اس کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر ان معاشروں میں جہاں تحقیق کی کوئی روایت نہ ہو۔
خبرِ واحد کو اگر بلا تحقیق قبول کر لیا جائے تو تاریخ مسخ ہو جاتی ہے۔ علامہ اقبال سے غازی علم دین کے بارے میں ایک جملہ، وحیدالدین مرحوم نے ”روزگارِ فقیر‘‘ میں منسوب کردیا۔ اسے اتنی مرتبہ دہرایا گیا ہے کہ یہ اب علامہ اقبال کا مصدقہ موقف مان لیاگیا ہے۔ لوگ اسے متواتر دھراتے چلے جاتے ہیں۔ حال ہی میں علامہ اقبال پر خرم علی شفیق صاحب کی بہت محققانہ کتاب شائع ہوئی ہے، جس میں انہوں نے تواتر کو پہنچے ہوئے تاریخی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ اقبال کی طرف اس جملے کی نسبت خلافِ واقعہ ہے۔
خرم علی شفیق کی یہ کتاب”اقبال کی منزل (1927-1946)‘‘ ان کے ایک تحقیقی منصوبے کی پہلی جلد ہے۔ 864 صفحات پر مشتمل یہ کتاب میرے دوست اجمل شاہ دین نے بہت اہتمام کے ساتھ شائع کی ہے، جو اقبال کے ساتھ ان کی محبت کا ایک مظہر ہے۔ یہ کتاب ایسی مصدقہ معلومات کا مجموعہ ہے جسے ”اقبالیات‘‘ کے باب میں بہت اہم اضافہ سمجھاجائے گا۔ ایک جملہ حوالے کے بغیر نہیں۔ علامہ اقبال کی زندگی پریہ تحقیق متقاضی ہے کہ اس پر الگ سے لکھا جائے۔ میں اس کا ارادہ رکھتا ہوں۔
سرِدست مجھے صرف اس مقدمے کو مستحکم کرنا ہے کہ خبرِ واحد کو بلا تحقیق قبول کر لینے سے تاریخ کس طرح بدل جاتی ہے۔ اس کتاب میں اس مقدمے کی رودادکا ایک حصہ محفوظ کردیا گیا ہے جس کا تعلق حیاتِ اقبال سے ہے۔ قائداعظم کے وہ دلائل بھی اس کتاب میں موجود ہیں‘ جو انہوں نے غازی علم الدین کے مقدمے میں، عدالت کے سامنے دیے۔ اگر ان سب حقائق کو سامنے رکھا جائے تو واقعے کی نوعیت یکسر تبدیل ہو جاتی ہے۔
خود قائداعظم کے بارے میں آج تک یہ بحث جاری ہیں کہ وہ کیسی ریاست چاہتے تھے؟ جو ان کو سیکولر ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ بھارتی سفیر کی یادداشتیں، بطور ثبوت پیش کررہے ہیں۔ اب اس خبرِ واحد کو کیسے مانا جائے، جب اخبارِ متواتر یا قائد کے اپنے ارشادات اس کے تائید نہ کرتے ہوں۔ دوسرے طرف ایک معروف عالمِ دین ہمیں بتاتے ہیں کہ دمِ مرگ، قائداعظم کسی کے کان میں پھونک گئے تھے کہ وہ خلافت کا نظام قائم کرنا چاہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ خبرِ واحد بھی اتنی ہی غیرمعتبر ہے، جتنی پہلی۔
مذہب میں بھی یہ بحث، قدرے مختلف تناظر میں بہت اہم سمجھی گئی۔ مذہب، اصلاً نقل اور روایت سے ثابت ہوتا ہے۔ اسے تحریف سے بچانے کے لیے، روایت کی صحت کو یقینی بنایا گیا۔ عہدِ صحابہ کے بعد مسلم تاریخ کا سب سے بڑا علمی معرکہ روایت اور درایت پر ہوا۔ اسی کی ایک فرع، خبرِ واحد کی حجیت کا موضوع ہے۔ محدثین اور فقہا کا فرق بھی اسی سے سمجھ میں آتا ہے۔ جو اس موضوع کا تفصیلی مطالعہ کرنا چاہیں، انہیں استادِ محترم عمار خان صاحب ناصر کی کتاب ”فقہائے احناف اور علمِ حدیث‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس سے حنفی فقہا کی وہ خدمت نمایاں ہوگی، خود حنفیوں کو جس کا ادراک نہیں۔
تاریخ میں بھی اس بات کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ تاریخی واقعات کی صحت کا انحصار خبرِ واحد پر نہیں، اخبارِ متواتر پرہے۔ تاریخی واقعات کی توجیہ سب کا حق ہے، وہ ہوتی رہے گی۔ تاریخ کو لیکن مسخ نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ اُس وقت زیادہ ضروری ہو جاتاہے جب راوی شیخ رشید صاحب یا گوہر ایوب صاحب جیسا ہو، جن کا تاریخی نقطہ نظر، ان کی عصری سیاست کے تابع ہو۔