پاکستان

بھارت میں پاکستانی سفارتکاروں کو ’ناپسندیدہ‘ قرار دینے پر پاکستان کا اظہار مذمت

Share

پاکستان نے بھارت میں پاکستانی ہائی کمیشن کے دو سفارتی اہلکاروں کو ناپسندیدہ قرار دینے کی شدید مذمت کی ہے۔

دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکاروں کو ناپسندیدہ قرار دینا اور انہیں 24 گھنٹے میں بھارت چھوڑنے کا حکم قابل مذمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کا عمل منفی اور پہلے سے طے شدہ ’میڈیا مہم ‘ کا حصہ ہے اور یہ پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا تسلسل ہے۔تحریر جاری ہے‎

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارتی حکام نے 2 پاکستانی ہائی کمیشن کے اراکین کو اٹھایا اور ان پر بے بنیاد الزامات لگائے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان ہائی کمیشن کی مداخلت پر انہیں رہا کیا گیا۔

عائشہ فاروقی نے کہا کہ تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد پاکستانی سفارتی عملے کو الزام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا جو ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی ہائی کمیشن سفارتی آداب کے مطابق کام کرتا ہے جبکہ بھارتی عمل کا مقصد پاکستانی ہائی کمیشن کی کارکردگی کو متاثر کرنا ہے۔

بھارتی نائب سفارتکار دفتر خارجہ طلب

دفتر خارجہ نے دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے 2 اہلکاروں کو ناپسندیدہ شخص قرار دینے پر بھارتی سفارتخانے کے امور کی نگرانی کرنے والے عہدیدار(چارج ڈی افیئرز) کو طلب کرلیا۔

دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق سفارتخاتی عہدیدار کو سخت احتجاج اور بھارت کی جانب سے پاکستانی ہائی کمیشن کے 2 اہلکاروں کو ناپسندیدہ شخص قرار دینے اور ان پر لگائے گئے بھارتی الزام کو مسترد کرنے کے لیے طلب کیا گیا۔

ساتھ ہی یہ پیغام بھی پہنچا دیا گیا کہ بھارتی ایکشن، سفارتی تعلقات اور روایات کے ویانا کنویشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

بھارتی الزام

واضح رہے کہ بھارت نے الزام لگایا ہے کہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے دو سفارتی اہلکار ’جاسوسی میں ملوث‘ تھے جنہیں 24 گھنٹے کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان اہلکاروں میں 42 سالہ عابد حسین کو مشن میں اسسٹنٹ ہیں جبکہ محمد طاہر خان نامی کلرک شامل ہیں جن کی عمر 44 برس ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ انہیں ’بھارتی قانون نافذ کرنے والے حکام نے جاسوسی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر پکڑا‘۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ان اہلکاروں پر ایک مقامی شخص سے بھارتی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے متعلق دستاویزات لینے کا الزام ہے۔

نئی دہلی کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ حکومت نے دونوں پاکستانی سفارتی عملے کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے جو ’سفارتی آداب کے خلاف کارروائیوں‘ میں ملوث تھے۔

علاوہ ازیں بھارتی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ پاکستانی ہائی کمیشن سے بھارت کی قومی سلامتی کے خلاف ان عہدیداروں کی سرگرمیوں کے سلسلے میں سخت احتجاج بھی درج کرایا گیا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’متعلقہ ذمہ داران سے کہا گیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ سفارتی مشن کا کوئی بھی رکن بھارت میں غیرمجاز سرگرمیوں میں ملوث نہ ہو یا ان کی سفارتی حیثیت سے متضاد انداز میں برتاؤ نہ کرے‘۔

واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے حالیہ الزام لداخ میں غیرقانونی تعمیرات اور بابری مسجد کی تعمیر سے توجہ ہٹانے کا حربہ تصور کیا جارہا ہے۔

علاوہ ازیں چند روز قبل پاک آرمی نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے اندر ایک مہینے میں 2 بھارتی جاسوس ڈرون مار گرائے تھے جبکہ گزشتہ سال پاک فوج نے بھارت کے 3 ڈرون مار گرائے تھے۔

لداخ کے معاملے میں بھارت اور چین آمنے سامنے ہیں اور دونوں کے درمیان بڑی کشیدگی کا خدشہ ہے۔

اس وقت دونوں ممالک کے فوجیوں نے بلند بالا علاقے لداخ کی وادی گالوان میں کیمپ قائم کیے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے پر متنازع سرحد پر دخل اندازی کے الزامات لگاتے رہتے ہیں، اس متنازع سرحد کی وجہ سے 1962 میں بھارت اور چین کے درمیان خطرناک جنگ بھی ہوئی تھی۔

سرحد پر چینی حصے میں 80 سے 100 خیمے جبکہ بھارتی حصے میں 60 خیمے لگائے گئے ہیں جہاں فوجی مقیم ہیں، رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی حکام نے لداخ کے دارالحکومت لیہہ اور نئی دہلی میں حکام کو معاملے سے آگاہ کردیا ہے۔

دونوں ممالک دفاعی تعمیرات کررہے ہیں اور چینی ٹرکس علاقے میں آلات پہنچا رہے ہیں جس سے طویل جھڑپ کے خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

دوسری جانب پاکستان نے بھارتی شہر ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر کے آغاز کی شدید مذمت کی تھی۔

دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا کووڈ 19 سے پیدا ہونے والی سنگین صورتحال سے دوچار ہے اور آر ایس ایس کی حامی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ’ہندوتوا‘ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’26 مئی 2020 کو ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر کا آغاز اس سمت میں ایک اور قدم ہے اور حکومت پاکستان اور عوام اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں‘۔