برطانوی محققین کا کہنا ہے کہ خوراک کے پیکٹس پر یہ بات تحریر ہونی چاہیے کہ اس میں موجود کیلوریز کو جلانے کے لیے کتنی ورزش کرنی پڑے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ خوراک میں موجود توانائی کے حوالے سے آگہی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک پیزا کی کیلوریز کے لیے چار گھنٹے کی چہل قدمی اور ایک چاکلیٹ بار کے لیے 22 منٹ کی دوڑ لگانی پڑے گی۔
ایک تحقیقی مطالعے کے مطابق اس قسم کے لیبل کی وجہ سے لوگوں میں ایسی خوراک کی عادت کم کرنے میں مدد ملے گی۔
اس کا مقصد موٹاپے سے لڑنے کے لیے خوراک کی صحتمند عادتوں کو فروغ دینا ہے۔
لفبرو یونیورسٹی کے محققین کے مطابق اس طرح کے 14 مطالعوں سے نیتجہ اخذ کیا گیا کہ خوراک پر لگے لیبل کی وجہ سے کسی بھی شخص کی یومیہ 200 کیلیوریز تک کم کی جا سکتی ہیں۔
کیلیوریز ہے کیا؟
- کسی بھی خوراک یا مشروب میں توانائی کی مقدار کو کیلوریز کہا جاتا ہے۔
- مردوں کو یومیہ 2500 کیلوریز جبکہ عورتوں کو 2000 کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کا جسم صحیح طرح کام کرتا رہے۔
- ضرورت سے زیادہ کیلوریز کھانے سے موٹاپا ہو جاتا ہے کیونکہ آپ کے جسم میں اضافی کیلوریز چربی کی صورت میں جمع ہو جاتی ہیں۔
- حتی کے اگر آپ تھوڑا بہت بھی روزانہ کھائیں تو یہ جمع ہوتا رہتا ہے۔
محققین کے مطابق یہ بات سننے میں شاید بڑی نہ لگے لیکن اس کا ملک بھر میں موٹاپے کی شرح پر اثر پڑے گا۔
برطانیہ کے دو تہائی بالغ افراد زیادہ وزن یا موٹاپے کا شکار ہیں۔
محققین کی ٹیم کی سربراہ پروفیسر امینڈا ڈیلے کا کہنا تھا ’ہم لوگوں کو ان کی خوراک کے تعین کا فیصلہ کرنے میں مدد کرنے اور جسمانی طور پر زیادہ چست ہونے کے طریقے بتانا چاہتے ہیں۔‘
اور خوراک پر اس میں موجود کیلوریز کی مقدار لکھنے سے لوگوں کو یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ وہ کیا کھا رہے ہیں اور انہیں بہتر چیز چننے میں مدد ملے گی۔
پروفیسر ڈیلے کا کہنا تھا کئی لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کے کسی خاص طرح کی دعوت اڑانے کے بعد اسے ہضم کرنے کے لیے انہیں کتنی ورزش کی ضرورت ہوگی۔
ان کا مزید کہنا تھا ’ہم جانتے ہیں کہ لوگ عام طور پر اپنی خوراک میں موجود کیلوریز کے بارے میں غلط اندازہ لگاتے ہیں۔‘
’ اس لیے اگر آپ ایک چاکلیٹ مفن خریدتے ہیں تو اس میں 500 کیلوریز ہوتی ہیں اور اسے ہضم کرنے کے لیے آپ کو 50 منٹ تک بھاگنا ہوگا۔‘
’اس کا مقصد لوگوں کو بتانا ہے کہ جو وہ خوراک کھاتے ہیں تو اسے ہضم کرنے کے لیے توانائی درکار ہوتی ہے اور وہ اس کے بارے میں سوچ سکتے ہیں کہ ’کیا واقعی مجھے یہ چاکلیٹ کیک ہضم کرنے کےلیے دو گھنٹے صرف کرنے چاہیں؟ کیا واقعی یہ چاکلیٹ کیک اس قابل ہے؟‘
خطرے کی وجہ
رائل سوسائٹی فار پبلک ہیلتھ ایسے لیبل جلد از دیکھنا چاہتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ بیشتر صارفین اس اقدام کا خیر مقدم کریں گے۔
سوسائٹی کے مطابق اس قسم کے لیبل لوگوں کی کیلوریز کھانے کے عمل کو ایک معمول میں لائیں گے۔
اس کے بقول ’چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں سے بڑے پیمانے پر کیلوریز کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں فرق پڑ سکتا ہے اور یہ آگے چل کر وزن بڑھنے کے عمل پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔‘
پروفیسر ڈیلی کو امید ہے کہ اگر ایک بڑی فوڈ چین یا کمپنی اپنی مصنوعات پر ایسے لیبل لگاتی ہے تو اس نظام کو حقیقت میں آزمایا جا سکتا ہے۔
تاہم کھانوں پر لیبل لگانے کے حوالے سے کچھ خدشات بھی ہیں۔
کھانے کی بدنظمی سے متعلق کام کرنے والے فلاحی ادارے بیٹ کے اہلکار ٹام کوئن کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ ہم موٹاپے کو کم کرنے کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہیں تاہم خوراک پر لیبل لگانے سے کھانے کی بد نظمی کا شکار افراد کے لیے خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں۔‘
’ہم جانتے ہیں کہ کھانے کی بدنظمی کا شکار افراد پہلے ہی بہت زیادہ ورزش کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں اور اگر ایسے میں انہیں بتایا جائے گا کہ کسی مخصوص کھانے کو ہضم کرنے میں کتنی ورزش لگے گی تو اس سے ان کی علامات بد تر ہونے کا خدشہ ہے۔‘