Site icon DUNYA PAKISTAN

کرونا سے ’’فقط‘‘ سات فی ملین ہلاکتیں

Share

ماہِ رمضان کے دوران ’’صرف کرونا‘‘ کو زیر بحث لانے کے بہانے قومی اسمبلی اور سینٹ کے جو ’’ہنگامی‘‘ اجلاس بلائے گئے تھے ان سے خطاب کرتے ہوئے عمران حکومت کے پالیسی سازی کے حوالے سے مؤثر ترین تصور ہوتے وزراء نے واضح الفاظ میں ایک پیغام دیا تھا۔ مختصر ترین الفاظ میں یہ پیغام ہمیں یقین دلاتا پایا گیا کہ اٹلی اور امریکہ جیسے ممالک کے برعکس پاکستان میں کرونا کی وباء بہت شدت سے پھیلتی نظر نہیں آرہی۔ اس سے خوفزدہ ہوکر ہمیں کاروبار زندگی مکمل لاک ڈائون کی زد میں لانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔کاروبارِ زندگی بحال کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہمارے عوام کی بے تحاشہ ا کثریت دیہاڑی داروں اور کم آمدنی والوں پر مشتمل ہے۔وباء کے خوف سے وہ گھروں میں محصور رہے تو کرونا کی زد میں آئے بغیر فاقوں سے ہلاک ہونا شروع ہوجائیں گے۔فاقہ کشی کا خوف انہیں گھروں سے باہر آکر فسادات اور لوٹ مار کومجبور بھی کرسکتا ہے۔ممکنہ خلفشار کے تدار ک کے لئے لہذا ضروری ہے کہ بتدریج کاروبار کھول دئیے جائیں۔عوام سے فریاد کی جائے کہ وہ ازخود احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔بار بار ہاتھ دھوئیں۔گھروں سے باہر نکلیں تو اپنے منہ اور ناک کو ماسک سے ڈھانپ لیں۔ کرونا کی علامات ظاہر ہوتے ہی پریشانی میں ہسپتالوں کا رُخ کرنے کی ضرورت نہیں۔60برس سے کم عمر افراد اگر ذیابیطس،پھیپھڑوں یا دل کے امراض کا دائمی شکار نہ ہوں تو کروناکی زد میں آنے کے بعد اکثر ازخود شفایاب ہوجاتے ہیں۔بہتر یہی ہے کہ اپنے گھر کی تنہائی میں بیٹھے صحت یابی کا انتظار کریں۔پالیسی سازوزراء کی تقاریر کو بغور سننے کے بعد میں نے اس کالم میں آپ سے عرض کی تھی کہ عمران حکومت نے یہ اصطلاح استعمال کئے بغیر اپنے تئیں درحقیقت Herd Immunityاختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔اس فیصلے کے نتائج اب نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیں۔مئی 2020ختم ہوتے ہی جو اعدادوشمار جمع ہوئے ہیں ان کے مطابق گزشتہ مہینے کے دوران 54ہزار افراد کرونا کی زد میں آئے۔ 11سوافراد اس سے جانبرنہ ہوپائے۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ پاکستان میں اب اوسطاََ 2,785افراد روزانہ کی بنیاد پر کرونا وائرس کا نشانہ بن رہے ہیں۔

جو اعدادوشمار ہمارے سامنے مستند سرکاری ذرائع سے لائے گئے ہیں محض انہیں نظر میں رکھیں تو جی پریشان ہوجاتا ہے۔ہمیں مگر ’’گھبرانا نہیں‘‘ کے مشورے دئیے جارہے ہیں۔ایک حوالے سے دیکھیں تو یہ مشورے بے بنیاد نہیں۔ عمران حکومت کا بیانیہ مرتب کرنے والے افراد کی ایک مؤثر تعداد انتہائی پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہے۔ہم جیسے جاہلوں کو یہ نیک طینت افراد خلوص دل سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ٹھوس اعدادوشمار اپنے تئیں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ان سے ٹھوس نتائج اخذ کرنے اور کوئی حکمت عملی اختیار کرنے سے قبل ضروری ہے کہ ان اعدادوشمار کو کسی تناظر میں رکھ کرجائزہ لیا جائے۔انگریزی زبان میں اس رویے کے لئے Contextاور Bench Markوالی اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں۔ان دونوں بنیادوں پر دیگر ممالک سے تقابلی جائزے بھی لئے جاتے ہیں۔پاکستان کے ٹھوس تناظر کو اجاگر کرتے ہوئے اصرار اس امر پر کیا جارہا ہے کہ ہماری آبادی کی بے پناہ اکثریت 20سے 45سال عمر والی بریکٹ میں ہے۔کرونا سے جو ہلاکتیں ہوئی ہیں ان کا تناسب طے کرنے کے لئے بھی ہمیں دس لاکھ یعنی ایک ملین کی تعداد کو Bench Markبنانا چاہیے۔ اس پیمانے کی افادیت تسلیم کرلیں تو ابھی تک پاکستان میں ہر دس لاکھ کے یونٹ میں سے فقط سات افرا د کرونا کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ اعدادوشمار کے حوالے سے عام افراد مگر ’’فی صد‘‘ والے پیمانے کو استعمال کرنے کے عادی ہیں۔دس لاکھ کو یونٹ بناکر اموات کا شماران کے لئے نسبتاََ نئی بات ہے۔اسی باعث فقط 11سواموات کے عدد پر نگاہ رکھتے ہوئے گھبراگئے ہیں۔قومی اسمبلی میں ’’صرف کرونا‘‘ کے موضوع پر جو فروعی بحث ہوئی تھی اسے اسد عمر صاحب نے ایک مفصل تقریر کے ذریعے سمیٹا تھا۔ موصوف بہت پڑھے لکھے آدمی ہیں۔اپنی ذہانت کے بل بوتے پر نسبتاََ جواں سالی ہی میں ایک بہت بڑے کاروباری ادارے کے سربراہ بنادئیے گئے تھے۔اپنی بچت کو Stocksخریدنے میں استعمال کرتے رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ایک ویڈیوکلپ میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ مندی کے موسم میں وہ منافع کی توقع دلاتے Stocksکو پیشہ وارانہ مہارت سے خریدلیا کرتے تھے۔ شاید اسی باعث بالآخر انہیں سیاست اور محض سیاست پرتوجہ دینے کے لئے بے پناہ وقت نصیب ہوچکا ہے۔

کرونا کے موضوع کو زیر بحث لاتے ہوئے اسد عمر صاحب نے ہمارے ان ’’دانشوروں‘‘ کا حقارت سے تمسخر بھی .اڑایا تھا جو ان کی دانست میں ’’مغرب زدہ‘‘ ہیں۔اپنے اذہان کو تخلیقی انداز میں استعمال کرنے کے عادی نہیں۔ یورپ اور امریکہ میں جو رویے نمایاں ہوتے ہیں بلاسوچے سمجھے وطن عزیز میں اختیار کرنے کو بے چین رہتے ہیں۔مغرب کی نقالی میں اسد عمر صاحب کے بقول پاکستان میں کرونا کی وباء پھوٹتے ہی شہروں کو لاک ڈائون کی زد میں لانے کے مطالبے شروع ہوگئے۔حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم کرلیا۔ حاصل مگر کچھ نہیں ہوا۔ لاک ڈائون نے بلکہ دیہاڑی داراور کم آمدنی والوں میں مایوسی پھیلانا شروع کردی۔انہیں فاقہ کشی سے بچانے کے لئے لاک ڈائون کی ضرورت واہمیت پر ازسرنوغور کی ضرورت محسوس ہوئی۔کرونا کی بنیاد پر عوام میں ’’بے پناہ‘‘ خوف پھیلانے کے حوالے سے اسدعمر صاحب نے ہمارے انگریزی اخبارات کو خصوصی طورپر تنقید کا نشانہ بنایا۔ انگریزی میں لکھنے والے ’’مغرب زدہ‘‘ اذہان کا ایمان بھی انہیں کمزور محسوس ہوا۔ کوئی پسند کرے یا نہیں ابلاغیات کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میں یہ حقیقت تسلیم کرنے کو مجبور ہوں کہ اسد عمر صاحب کی تقریر ہر حوالے سے ہمارے ہاں عوام کی اکثریت میں مقبول ترین خیالات کی بھرپور ترجمانی تھی۔کمال انکساری سے مگر اسد عمر صاحب نے خود کو پاکستان کا واحد تخلیقی ذہن قرار نہیں دیا۔ اپنی تقریر کے دوران بارہا یاد دلاتے رہے کہ ان کے قائد-عمران خان صاحب- دنیا کے وہ واحد رہنما تھے جو کرونا کی وباء پھوٹنے کے پہلے دن سے لاک ڈائون کی تجویز پر تواتر سے سوالات اٹھاتے رہے۔ دنیا بھر کے کئی ممالک کے صفِ ا وّل کے رہنما اب ان کی کرونا کے مقابلے کے لئے دی گئی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔عمران خان صاحب کی قیادت میں پاکستان کئی حوالوں سے دنیا کو ’’مغرب زدہ‘‘ سوچ کا تخلیقی متبادل فراہم کرتا نظر آرہا ہے۔اسد عمر صاحب کی ماہ رمضان کے دوران قومی اسمبلی کے اجلاس کے اختتامی روز ہوئی تقریر کا ایک ایک لفظ مجھے آج کے اخبارات دیکھ کر یاد آیا ہے۔اخبارات کے پہلے صفحے پر نمایاں سرخیوں کے ساتھ مئی 2020کے اختتام پر جمع ہوئے اعدادوشمار کو جس انداز میں پیش کیا گیا کہ وہ عمران حکومت کو ایک بار پھر لاک ڈائون کی دہائی مچاتا محسوس ہوگا۔مجھے البتہ نجانے کیوں یقین ہے کہ حکومت تازہ ترین اعدادوشمار سے گھبرائے گی نہیں۔اپنے مؤقف پر ڈٹی رہے گی۔ اس کی جانب سے اصرار ہوتا رہے گا کہ کرونا کی وجہ سے ہوئی ہلاکتوں کو دس لاکھ فی یونٹ کے Bench Markکے تناظر میں دیکھا جائے۔ Herd Immunityکی تلاش جاری رہے گی۔ ہمارے لئے اس کے سوا اور کوئی راہ باقی نظر ہی نہیں آرہی کہ ازخود احتیاط کریں۔ ’’موت کا ایک دن معین ہے‘‘ والی حقیقت کو دل وجان سے تسلیم کرتے ہوئے روزی روٹی روز کمانے کی مشقت میں مصروف ہوجائیں۔

Exit mobile version