راوی کے بارے نہ صرف مجھے بذات خودبلکہ دیگر دوستوں کو بھی کافی کنفیوژن ہے اور کوئی بھی اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ بحیثیت راوی معتبر ہے یا نا معتبر۔ یہ بھی نہیں کہ وہ معتبر نہیں اور اس بارے میں بھی ہر طرف خاموشی ہے کہ وہ خدانخواستہ غیر معتبر ہے۔ بس کبھی ایسا کوئی معاملہ ہی در پیش نہیں آیا۔ اب چونکہ معتبر اور نا معتبر کا فیصلہ نہیں ہو سکا اس لیے اس کی بیان کردہ روایت‘ جو کہ بقول اس کے خود اس کے ساتھ پیش آئی اور انگریزی کے محاورے From the horse’s mouth کے برعکس اس نے یہ بات کسی اور سے نہیں سنی بلکہ خود اس نے اپنے کانوں سنی اور آنکھوں دیکھی ہے۔ اب چونکہ معاملہ راوی کے معتبر اور نا معتبر ہونے کے درمیان پھنس گیا ہے اس لیے نہ تو میں راوی کا نام ہی لکھ رہا ہوں اور نہ ہی روایت سے جڑی ہوئی شخصیت کا نام بیان کر رہا ہوں۔
راوی نے بیان کیا کہ وہ ایک ”حاضر سروس‘‘ وفاقی وزیر کو جو اس کا دوست تو خیر نہیں البتہ مہربان ضرور ہے‘ ملنے گیا اور اسے وفاقی وزارت ملنے کی مبارکباد دی۔ جواباً اس وفاقی وزیر نے اس کی مبارکباد کے جواب میں شکریہ ادا کرنے یا روایتی جملے عرض کرنے کے بجائے کہا کہ آپ بھی خوب کر رہے ہیں۔ بھلا اس حکومت میں وفاقی وزارت ملنے پر مبارکباد کی کیا بات ہے۔ بھلا یہ کون سی عزت افزائی والی بات ہے کہ اس پر آپ مجھے مبارک دیں اور میں مبارک قبول کروں؟ بقول راوی کے‘ وہ یہ بات سن کر ہکا بکا رہ گیا اور اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ آگے سے کیا ری ایکشن دے اور بات کو کس طرح کوئی با عزت موڑ دے۔
یہ ایک واقعہ ہے لیکن اس قسم کے دیگر بے شمار واقعات راویان نے بیان کیے ہیں کہ موجودہ حکومت کے حامی‘ سپورٹرز‘ پارٹی عہدیدار اور حکومتی ٹیم کا حصہ لوگ بھی اب ”آف دی ریکارڈ‘‘ گفتگو میں دل کے پھپھولے پھوڑتے نظر آ رہے ہیں۔ ہاں ان لوگوں کی بات الگ ہے جو سیاسی طور پر ذہنی غلامی کے درجے پر فائز ہیں۔ اور ایسے لوگ صرف کسی ایک پارٹی کا مقدر نہیں۔ ہمارے ہاں اکثر سیاسی پارٹیاں انہی ذہنی غلاموں کے باعث چل رہی ہیں اور ان کی موروثی لیڈر شپ انہی کے دم سے زندہ و پائندہ ہے۔ انہی بے دام کے غلاموں کے طفیل ابھی تک یہ بات بھی طے نہیں پا سکی کہ اس ملک میں کرپشن کون کر رہا ہے؟ مسلم لیگ ن والوں سے پوچھیں تو ساری ن لیگ عمومی طور پر اور شریف خاندان خصوصی طور پر” حاجی ثنا اللہ‘‘ ہے۔ اس حاجی ثنا اللہ سے مراد رانا ثنا اللہ ہرگز نہیں ہے خواہ وہ دس حج کر کے ہی کیوں نہ آ جائیں۔ اسی طرح آپ کسی پیپلز پارٹی والے سے یہ اقرار کروا دیں کہ زرداری اینڈ کمپنی بمعہ فریال تالپور اور اومنی گروپ کرپشن‘ منی لانڈرنگ اور ناجائز کاروباری حربوں کے مرتکب ہو رہے ہیں تو یقین کریں یہ قربِ قیامت کی نشانی کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا۔ رہ گئی بات موجودہ حکومت کی! تو آپ اگر کسی پی ٹی آئی کے ورکر سے یہ منوا لیں کہ موجودہ حکومت نا اہل لوگوں کا مجموعہ ہے تو میں آپ کو اپنی حیثیت کے مطابق انعام بھی دے سکتا ہوں۔ مہنگائی زوروں پر ہے‘ بے روزگاری بڑھ گئی ہے‘ لوگ ضروریاتِ زندگی سے تنگ ہیں‘ کرپشن کم نہیں ہوئی‘ بلکہ اس کا ریٹ بڑھ گیا ہے‘ حکومت لوگوں کی فلاح و بہبود اور آسانی کے بجائے گزشتہ حکومت کی خرابیاں بیان کر کے لوگوں کو خوش کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور معاشی طور پر ملک دن بہ دن برے حالات کی طرف گامزن ہے۔ لیکن تحریک انصاف والوں کے نزدیک ملک کی اقتصادی صورتحال اور لوگوں کی زندگی پہلے سے بدرجہا بہتر ہو چکی ہے۔ حتیٰ کہ صورتحال یہاں تک خراب ہو چکی ہے کہ تحریک انصاف والوں کے نزدیک عثمان بزدار ایک قابلِ فخر وزیراعلیٰ‘ اعلیٰ درجے کے منتظم اور بے مثل حکمران ہیں۔ اب آپ خود کہیں کہ اس ذہنی خیانت کے درجے پر فائز لوگوں کا کیا کیا جا سکتا ہے؟
اللہ جانتا ہے کہ مجھے شہباز شریف سے ٹکے کی محبت نہیں اور ان کے دورِ اقتدار میں بھی میں بیشتر نا معقول قسم کے حکومتی منصوبوں کے خلاف تسلسل سے لکھتا رہا ہوں اور ایک دو مرتبہ میاں شہباز شریف نے اپنی تقاریر میں میری اس مخالفت کا ذکر بھی کیا‘ خصوصاً ملتان میٹرو منصوبے کے بارے میں میرے متعدد کالموں کے حوالے سے میاں شہباز شریف کو مجھ سے خاص ”وٹ‘‘ بھی تھا‘ لیکن یہ بات کہنے میں مجھے رتی برابر تامل نہیں کہ جب میں عثمان بزدار کی کارکردگی کا موازنہ میاں شہباز شریف سے کرتا ہوں تو مجھے اپنی حماقت پر ہنسی آتی ہے۔ مجھے اس کا زیادہ شدت سے خیال اب اس وقت آ رہا ہے جب پورے ملک میں عموماً اور پنجاب میں خصوصاً ساری زراعت ٹڈی دَل کے سامنے برباد ہو رہی ہے۔ میں اپنی حد تک یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر اس وقت شہباز شریف ہوتا تو کم از کم اس ٹڈی دَل کے سدباب کے سلسلے میں کوئی نہ کوئی نتیجہ خیز قدم اٹھایا جا چکا ہوتا۔ صورتحال یہ ہے کہ ابھی تک حکومت کو اس مصیبت بلکہ آفت کا پوری طرح ادراک ہی نہیں ہوا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ ٹڈی دَل اس وقت پنجاب کے دس سے زائد اضلاع میں پھیل چکا ہے۔ اور اس کے کنٹرول کا ابھی دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ وزیرِ زراعت کی کارکردگی بھی صفر بٹا صفر ہے اور وزیراعلیٰ کی تو ماشاء اللہ بالکل ہی زیرو ہے۔ ابھی تک کوئی جامع منصوبہ بھی نہیں بن پایا۔ جہازوں کی خرید کی منصوبہ بندی کا یہ عالم ہے کہ جہازوں کی ڈلیوری اگست کے مہینے سے قبل نا ممکن ہے جبکہ ٹڈی دَل کے حوالے سے اگلے دو ماہ بہت ہی اہم ہیں اور اگست سے پہلے ٹڈی دَل آدھے ملک کی فصلات کا صفایا کر دے گا۔ پری مون سون اور پھر مون سون کے دوران ٹڈی دَل انڈے دے گا اور اسی دوران اس سے بچے نکل آئیں گے۔ ایک ٹڈی اندازاً ڈیڑھ سو سے اڑھائی سو تک انڈے دیتی ہے۔ اس حساب سے اگلے دو ماہ کے دوران ٹڈی دَل کی تعداد میں اتنا اضافہ ہو جائے گا کہ اس کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں۔
ٹڈی دَل کو اس کی Migratory Form میں یعنی اس حالت میں جب وہ اڑنے کے قابل ہو جائے مارنا اور ختم کرنا کسی صورت میں بھی ممکن نہیں کہ وہ ہر روز تقریباً ڈیڑھ دو سو کلو میٹر سفر کرتی ہے اور راستے میں آنے والے سبزے‘ فصل‘ باغ اور ہر کھیت کھلیان کو چٹ کر جاتی ہے۔ اس دوران اس پر سپرے کرنا اور ختم کرنا ممکن ہی نہیں کہ اس دوران اس کی تعداد کا دس فیصد بھی تلف نہیں کیا جا سکتا۔ شہروں‘ دیہاتوں‘ قصبوں‘ کھیتوں‘ باغوں اور درختوں پر ہونے والے اس ”ایریل سپرے‘‘ کے سبب جو ماحول کی آلودگی پیدا ہوگی وہ الگ سے تباہ کن نتائج لے آ کر آئے گی۔ اب اگلے دو ماہ ٹڈی دَل کے Egg Laying اور Hatching کے لیے آئیڈیل ہیں۔ وہ تھل‘ تھر اور چولستان میں انڈے دے گی۔ ریت اور مرطوب موسم اس کے لیے بہترین ہوتے ہیں اور اگلے دو ماہ کے دوران بارشیں یہ سارا بندوبست کر دیں گی۔ یہ مصیبت اگلے کئی سال تک اس ملک کی جان چھوڑتی نظر نہیں آ رہیں کہ اس کی تلفی کے لیے اول تو کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی اور نہ ہی مناسب منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اگر اس آفت سے واقعتاً جان چھڑوانے کی کوئی منطقی کوشش کی جاتی تو اس سے مناسب وقت پر اور درست طریقے سے نمٹا جا سکتا تھا۔ طریقہ یہ کہ جہازوں کا تین ماہ تک انتظار کرنے کے بجائے سپرے والے ڈرون خریدے جا سکتے تھے۔ صرف تین سو ڈرون جن کی قیمت ایک ڈیڑھ جہاز کے برابر بنتی ہے یہ کام بخوبی سر انجام دے سکتے تھے۔ دس لاکھ روپے کا ایک ڈرون پندرہ لیٹر مائع زہر سپرے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک گھنٹے میں ایک ڈرون پندرہ ایکڑ تک سپرے کر سکتا ہے اور جہاں تک مناسب وقت کی بات ہے تو ٹڈی دَل کی تلفی کا سب سے مناسب وقت وہ ہے جب وہ انڈے سے نکلتی ہے اور اگلے اٹھائیس دن تک وہ صرف رینگ سکتی ہے‘ پر نہ ہونے کے باعث اڑ نہیں سکتی۔ جب وہ اڑنے کے قابل ہو جائے تو پھر وہ آپ کے بس سے باہر ہو جاتی ہے۔ موجودہ حکمرانوں سے عام تام چیزیں کنٹرول نہیں ہو رہیں۔ ٹڈی دَل تو ان کو لے دے جائے گا۔