مطالعہ کا شوق زوال پذیر کیوں ……!
کتاب قوم کو تہذیب و ثقافت، دینی و معاشی اور سائنسی علوم سے روشناس کروانے کے ساتھ ساتھ انسان کی بہترین دوست بھی ہے، اورکتابوں سے دوستی رکھنے والا شخص کبھی تنہا نہیں ہوتا۔ کتاب اس وقت بھی ساتھ رہتی ہے جب تمام دوست اور پیار کرنے والے ساتھ چھوڑ دیں۔ اگرچہ آج ٹی وی، انٹرنیٹ، موبائل اور سوشل میڈیا نے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کر لیا ہے لیکن کتاب کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ آج نئی نسل میں کتب بینی کا رجحان خاصا کم ہورہا ہے، بچوں کو مطالعے کی طرف راغب کرنا کٹھن کام بن چکا ہے، حالانکہ موجودہ دور میں بڑھتے نفسیاتی مسائل سے بچنے کے لئے ماہرین نفسیات بچوں کے لئے مطالعے کو لازمی قرار دیتے ہیں، کیونکہ اچھی کتابیں شعور کو جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بہت سے فضول مشغلوں سے بھی بچاتی ہیں۔ آج جو نوجوان مطالعے سے گریز کر رہے ہیں، وہ ماضی سے بے خبر اور مستقبل کے لئے لایعنی ہوتے جارہے ہیں۔ کتابیں انسان کی بہترین دوست اور ساتھی ہی نہیں بلکہ معلومات کا خزانہ بھی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 19 فیصد عوام کتب بینی کے شوقین ہیں، جبکہ 73 فیصد عوام نے کتب بینی سے دوری کا اعتراف کیا ہے، تاہم دانشور طبقے کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کی یلغار کے باوجود کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوئی، مطالعے میں کمی کی بڑی وجہ کتاب کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں مطالعے کا اشتیاق تو ہے، مگر کتاب اب عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو گئی ہے۔
کہتے ہیں کہ کتاب کا انسان سے تعلق بہت پرانا ہے اور یہ انسان کے علم و ہنر اور ذہنی استعداد میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے اور خود آگاہی اور اپنے ارد گرد کے حالات و واقعات کا ادراک پیدا کرتی ہیں۔ کتاب سے دوستی شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کراتی ہے، جس طرح ہوا اور پانی کے بغیر جینا ممکن نہیں، اسی طرح کتاب کے بغیر انسانی بقا اور ارتقاء محال ہے۔ کتاب نے علم کے فروغ اور سوچ کی وسعت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ دنیا جب تحریر کے فن سے روشناس ہوئی تو انسان نے چٹانوں، درختوں کی چھالوں، جانوروں کی ہڈیوں اور کھالوں، کھجور کے پتوں، ہاتھی دانت، کاغذ غرض ہر وہ شے لکھنے کے لئے استعمال کیا، جس سے وہ اپنے دل کی بات دوسروں تک پہنچا سکے۔ کتابوں کی داستان بھی عجب ہے۔ کبھی انہیں آگ لگائی گئی تو کبھی دریا برد کیاگیا، کبھی چرا لیا تو کبھی دفنا دیا گیا۔ کبھی یہ شاہی دربار کی زینت بنیں تو کبھی فٹ پاتھ پر کوڑیوں کے دام فروخت ہوئیں۔ لیکن کتاب اور علم دوستی معاشی خوشحالی اور معاشرتی امن کی ضامن ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جس قوم نے علم و تحقیق کا دامن چھوڑ دیا، وہ پستی میں گر گئی۔ مسلم امہ کا زوال اس کی واضح مثال ہے، ساتویں صدی سے تیرہویں صدی تک بغداد علم و ادب کاگہوارہ رہا۔ سقوطِ بغداد ہوا تو مسلمانوں کے عظیم کتب خانے فرات میں بہا دیئے گئے۔ یہ اس قدر ضخیم ذخیرہ تھا کہ دریا کا پانی اس کی سیاہی سے سیاہ ہو گیا۔ جب اندلس میں پندرہویں صدی عیسوی کے آخر میں اسلامی حکومت ختم ہوئی تو غرناطہ کی بڑی لائبریری کو بھی ملکہ ازابیلا نے جلوا دیا۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمان کتابیں پڑھتے اور جمع کرتے تھے، مگر رفتہ رفتہ علم سے دوری مسلمانوں کو رسوائی کی طرف لے گئی۔ آج دنیا کے 28 ممالک ایسے ہیں، جہاں سب سے زیادہ کتابیں فروخت ہوتی ہیں، مگر ان 28ممالک میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں۔ افسوس مسلمان اپنی علمی شان بھلا بیٹھے اور اہل یورپ نے مسلمانوں کے علمی مراکز، بالخصوص ہسپانوی مراکز سے استفادہ کر کے تحقیق کی دنیا میں قدم رکھا۔ ہمارے آباؤ اجداد کی محنت آج بھی لندن کی ”انڈیا آفس لائبریری“ میں موجود ہے۔ ان کتب کی تعداد 6لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں عربی، فارسی، ترکی اور اردو میں قلمی کتابوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ لندن کے بعد پیرس لائبریری میں مشرقی زبانوں میں لکھی کتابوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ بلاشبہ کتابیں انسانی زندگی پر بہت اچھے اثرات مرتب کرتی ہیں، اور ادب انسانی مزاج میں نرمی پیدا کرتا ہے۔ آج بچوں اور نوجوان نسل میں مطالعہ کا شوق پیدا کرکے اور کتابوں کو فروغ دے کر معاشرے کے شدت پسندی کے جذبات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔