پاکستان کے نامور ادیب اور کراچی لٹریچر فیسٹیول کے بانی ڈاکٹر آصف فرخی انتقال کر گئے ہیں۔
ان کی عمر 61 سال تھی۔ اہل خانہ کے مطابق انھیں دل کا دورہ پڑا اور وہ ہسپتال میں طبی امداد ملنے سے قبل ہی انتقال کر گئے۔
ڈاکٹر آصف فرخی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے اور افسانہ نگاری و تنقید کے علاوہ تراجم کے میدان میں بھی انھوں نے گراں قدر ادبی خدمات سر انجام دیں۔
انھوں نے 1959 میں کراچی میں نامور ادیب ڈاکٹر اسلم فرخی کے گھر میں آنکھ کھولی، چنانچہ ادب سے لگاؤ انھیں گھر سے ہی ملا۔
ابتدائی تعلیم کراچی کے سینٹ پیٹرک سکول سے حاصل کرنے کے بعد ڈی جے سائنس کالج سے انٹرمیڈیٹ کیا اور طب کے شعبے کی طرف راغب ہوگئے۔ انھوں نے ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔
مزید تعلیم کا شوق انھیں امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی لے گیا جہاں سے انھوں نے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز کیا۔ اس کے بعد لندن سے انھوں نے ہیلتھ اکنامکس میں شارٹ کورس کیا اور اس کے بعد آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی میں بطور انسٹرکٹر بھی خدمات سر انجام دیں۔
ان دنوں وہ کراچی کی حبیب یونیورسٹی میں درس و تدریس سے منسلک تھے۔
وہ انگریزی اخباروں میں کالم نویسی کے علاوہ انٹرویوز بھی کرتے تھے۔ مختلف شخصیات کے انٹرویوز پر مبنی ان کی کتاب ’حرف من و تو‘ کے عنوان سے شائع ہوچکی ہے، اس کے علاوہ آتش فشاں پر کھلے گلاب، عالم ایجاد، چیزیں اور لوگ، چیزوں کی کہانیاں، اسم اعظم کی تلاش، میرے دن گذر رہے ہیں، شہر بیتی، شہر ماجرا اور میں شاخ سے کیوں ٹوٹا سمیت متعدد کتابیں تحریر کیں۔
انھوں نے 60 سے زائد کتابیں لکھیں جن میں افسانے، تراجم وغیرہ شامل ہیں تاہم کوئی ناول نہیں لکھا۔ البتہ انھوں نے ناولز کا ترجمہ ضرور کیا۔
ڈاکٹر آصف فرخی کے دوست ادیب و صحافی انور سن رائے کہتے ہیں کہ وہ ’بہت ہی زبردست اور پرجوش‘ ادیب تھے۔
انور سن رائے کے مطابق ڈاکٹر فرخی بہت اچھے نقاد اور ’اپ ڈیٹ‘ ادیب تھے جو عالمی ادب کے علاوہ سندھی، بلوچی اور پشتو زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب سے بخوبی آگاہ رہتے تھے۔
’وہ ادب میں ایک غیر معمولی شخصیت تھے۔ میں انہیں کہتا کہ ’آصف آپ کتنے آدمی ہو اتنا لکھتے ہو اتنا پڑھتے ہو یہ سب کیسے کرلیتے ہو؟‘
نامور شاعر اور صحافی فاضل جمیلی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر آصف فرخی نے اپنے ادبی کیریئر کی ابتدا ترجموں سے کی۔ ابتدا میں دنیا کے معروف مصنفین کے تراجم کیے اس کے بعد خود بھی افسانے لکھے، خاص طور پر کراچی کی زندگی اور یہاں ہونے والے آپریشن پر بھی انھوں نے لکھا۔
’انھوں نے کراچی میں ادبی میلے کی شروعات کی جس نے ان کی عالمی شہرت اور ادبی قد کاٹھ میں بھی اضافہ کیا، کراچی میں گھروں میں اور کچھ دیگر مقامات پر ادبی محفلیں ہوتی تھیں لیکن اس کو ایک میلے جیسا رنگ دینا ان کی زندگی کا بہت کام تھا۔
کراچی لٹریچر فیسٹیول اور ادب فیسٹیول کی بانی اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی سابق ڈائریکٹر امینہ سید بتاتی ہیں کہ آصف فرخی سے ان کا تعلق اور دوستی تقریباً 25 سال پرانی تھی۔ وہ آکسفورڈ پریس کے لیے ایڈیٹنگ اور تراجم کیا کرتے تھے، اس کے علاوہ وہ رہنمائی کیا کرتے تھے کہ کون کون سی کتابیں شائع کرنی چاہییں۔
’کراچی لٹریچر فیسٹیول کے بارے میں ہم نے 2009 سے سوچنا شروع کیا اور اگلے سال 2010 میں اس کا آغاز ہوا، اس کے بعد 2013 میں ہم نے اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول منعقد کیا اور 10 سال تک ہم یہ فسیٹیول کرتے رہے اس کے بعد دو سال ہم نے ادبی فیسٹیول کیا۔‘
امینہ سید کے مطابق ڈاکٹرآصف فرخی کی خواہش تھی کہ پاکستان میں جو ادیب اور ادب ہے اس کو فروغ دیا جائے، کسی طرح ادیبوں کو پلیٹ فارم اور شہرت ملے اور وہ اپنے قارئین سے ملاقات کریں۔ ’ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ابھرتے ہوئے لکھاریوں کو سامنے لائیں۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ فیسٹیول میں سب کو بلا لیں۔‘
’آج کل ہم اگلے ادب میلے کی تیاریاں کر رہے تھے اور اس سلسلے میں زہرہ نگاہ سے ملاقات کرنے گئے تھے لیکن سب رہ گیا اور وہ اچانک چلا گیا۔ اس کے جانے سے ادبی دنیا میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔‘
ڈاکٹر آصف فرخی نے ایک بیوہ، دو بیٹیاں اور ہزاروں لکھاریوں اور ادب کے شائقین کو سوگواروں میں چھوڑا ہے۔