Site icon DUNYA PAKISTAN

جنرل ضیا الرحمن اور بنگلہ دیش میں طاقت کی کشمکش کی خون ریز تاریخ

Share

25 مئی سنہ 1981 کو بنگلہ دیش کے صدر جنرل ضیا الرحمن نے اپنے فوجی سیکریٹری سے کہا کہ وہ 29 مئی کو چٹاگانگ کا دورہ کریں گے۔

اس فیصلے سے سکیورٹی ایجنسیوں میں تشویش پیدا ہو گئی کیونکہ جب ضیا نے چٹاگانگ جانے کا فیصلہ کیا تو انھوں نے چٹاگانگ کے جی او سی میجر جنرل محمد ابوالمنظور کا تبادلہ ڈھاکہ کرنے کے حکم پر بھی دستخط کردیے۔

جنرل منظور کو یہ تبادلہ پسند نہیں آیا۔ حالانکہ انھیں اس عہدے پر فائز ہوئے ساڑھے تین سال ہوچکے تھے۔ ان کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے جنرل ضیاء نے انھیں یہ بھی کہلوا دیا تھا کہ 29 مئی کو جب وہ پاٹینگا ہوائی اڈے پر پہنچیں تو انھیں وہاں موجود رہنے کی ضرورت نہیں۔

اس کے لیے یہ عذر پیش کیا گیا کہ صدر سیاسی دورے پر جارہے ہیں لہذا جی او سی کا ہوائی اڈے پر ہونا ضروری نہیں ہے۔

منظور نے جنرل ضیا کے اس حکم کو اپنی ذاتی بے عزتی کے طور پر لیا۔ اس کے پیچھے کچھ وجوہات تھیں۔

ایک تو بنگلہ دیش کی بحری فوج کے سربراہ ریئر ایڈمرل ایم اے خان جنرل ضیاء کے جہاز میں آ رہے تھے۔ دوسرے ایر وائس مارشل صدرالدین محمد حسین پاٹینگا ہوائی اڈے پر جنرل ضیاء کا استقبال کرنے والے تھے۔

جنرل منظور اور ان کے ماتحت افسران نے کئی بار ڈھاکہ میں جنرل ضیاء کے فوجی سیکریٹری کو فون کرکے پوچھا کہ انھیں ہوائی اڈے کی استقبالیہ کمیٹی سے الگ کیوں کیا جارہا ہے حالانکہ وہ اس علاقے میں فوج کے سب سے بڑے افسر ہیں۔

آخر کار ضیاء کےفوجی سیکریٹری میجر جنرل صادق الرحمن چودھری کو کہنا پڑا ‘آپ کیوں نہیں سمجھتے؟ اگر ضیا آپ کو وہاں نہیں چاہتے تو آپ وہاں جانے کی ضد کیوں کررہے ہیں۔’

خفیہ محکمے نے نظر انداز کیا

فورسز انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل محبت جان چودھری نے بار بار جنرل ضیاء کو مشورہ دیا تھا کہ آپ اپنا چٹاگانگ دورہ یکم جون تک ملتوی کردیں۔

اُسی دن جنرل منظور کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی نئی پوسٹنگ پر ڈھاکہ رپورٹ کریں۔ نہ صرف یہ بلکہ جب ضیاء چٹاگانگ جارہے تھے تو چودھری نے ان سے درخواست کی کہ وہ رات چٹاگانگ میں نہ گزاریں اور اسی شام ڈھاکہ واپس چلے جائیں لیکن ضیا نے ان کی یہ بات بھی نہیں مانی۔

جب 25 مئی کو ایک انٹرویو کے سلسلے میں منظور کے نزدیکی دوست لیفٹیننٹ کرنل مطیع الرحمان ڈھاکہ گئے تو ان کے پرانے دوست لیفٹیننٹ کرنل محفوظ الرحمان نے (جو اس وقت جنرل ضیا کے ذاتی عملے کے افسر تھے) انھیں میجر جنرل منظور کے تبادلے کے بارے میں بتایا۔

مطیع الرحمان اس خبر سے بہت ناراض ہوئے اور جب انھیں بتایا گیا کہ ضیا 29 مئی کو چٹاگانگ جارہے ہیں۔ اسی کے بعد جنرل ضیاء کے قتل کی سازش شروع ہوئی۔

25 مئی کی جنرل ضیا کا مصروفیت

اس دنیا میں جنرل ضیاء کے آخری دن کی شروعات آسان تھی۔ صبح نو بجے وہ بنگلہ دیش بیمان کی خصوصی پرواز سے چٹاگانگ کے لیے روانہ ہوئے۔ اس کے بعد وہ چٹاگانگ کے سرکٹ ہاؤس پہنچنے جہاں انھوں نے ہلکا پھلکا ناشتہ کیا۔ چائے اور بسکٹ کھانے سے پہلے ان کے ذاتی معالج لیفٹیننٹ کرنل مہتاب الاسلام نے اس کھانے کو چکھا، صدر کے ڈاکٹر ان کے فوڈ ٹیسٹر کا کردار بھی ادا کررہے تھے۔

اپنی کتاب ‘بنگلہ دیش اے لیگسیسی آف بلڈ’ میں ، مشہور صحافی اینتھونی میسکرینہاس نے جنرل ضیا کی اس دن کی تفصیل میں لکھا ہے کہ ‘ہلکے ناشتے کے بعد سرکٹ ہاؤس کی پہلی منزل کے برآمدے میں ضیا نے اپنے پارٹی ورکرز کے ساتھ دو گھنٹے میٹنگ کی۔ اس کے بعد جمعہ کی نماز کے لیے میٹنگ کو روک دیا گیا۔ جب جنرل ضیاء سفید کرتا پاجاما پہن کر چاک بازار کی چندن پورہ مسجد گئے تو وہاں موجود لوگوں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔

نماز کے بعد وہ اپنی پارٹی کے ساتھیوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانے سرکٹ ہاؤس واپس آئے۔ ضیا کو تیل اور مصالحے والا کھانا پسند نہیں تھا لہذا ن کے لیے ہلکا کھانا تیار کیا گیا اور سرکٹ ہاؤس کے برامدے میں ہی کھانے کا انتظام کیا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے ڈیڑھ گھنٹہ آرام کیا۔ وہ شام پانچ بجے چائے کے لیے اٹھے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے گراؤنڈ فلور پر کانفرنس روم میں شہر کے نامور لوگوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔

صبح نو سے گیارہ بجے کے درمیان انھوں نے اپنی پارٹی کے نو اراکان سے بات کی۔ اسی دوران چٹاگانگ کمشنر سیف الدین احمد اور پولیس کمشنر اے بی ایم بدرالزمان بھی کچھ منٹ کے لیے ان سے ملنے آئے۔ رات کے تقریباً گیارہ بجے انھیں رات کا کھانا دیا گیا۔ کھانے سے پہلے ان کے ڈاکٹر نے ایک بار پھر ان کا کھانا چکھا۔ آدھی رات کو انھوں نے ڈھاکہ فون کر کے اپنی اہلیہ خالدہ ضیا سے 15 منٹ بات کی۔ یہ ان کی آخری گفتگو تھی۔ جب تقریباً ساڑھے بارہ بجے ضیا نے اپنے کمرے کی بتی بجھائی تو چٹاگانگ کے آسمان میں ایک شدید طوفان نے دستک دی اور موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔

قاتلوں کی میٹنگ

ضیا نے اپنے عملے سے کہا کہ صبح 6.45 پرانھیں بیڈ ٹی کے لیے جگا دیں۔ فیصلہ کیا گیا کہ اگر تب تک طوفان تھم گیا توایک گھنٹے بعد ڈھاکہ کے لیے روانہ ہوجائیں گے۔

اسی دوران شہر کے باہر چھاونی میں ان کے قاتل انھیں مارنے کی تیاری کر رہے تھے۔ ہر شخص کو الگ الگ ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

112 سگنل کے میجر معروف رشید کی ذمہ داری تھی کہ وہ صبح سویرے ڈھاکہ سے تمام مواصلاتی رابطوں کو توڑ ڈالیں۔

جنرل ضیاء الرحمن کے قتل کے بعد جاری کردہ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ‘کرنل مطیع نے اس رات صدر کے پرنسپل سٹاف آفیسر اور اپنے پرانے دوست لیفٹیننٹ کرنل محفوظ الرحمان سے ٹیلی فون پر بات کر کے بتا دیا تھا کہ اس رات جنرل ضیا کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کی جائے گی اور کرنل محفوظ نے ضیا کے کمرے کے باہر تعینات دو مسلح پولیس محافظوں کو ہٹا دیا تھا۔

قرآن مجید پر حلف

کرنل مطیع الرحمان نے 11 اور 28 مشرقی بنگال کے تمام افسران کی ایک میٹنگ شام 11:30 بجے طلب کی۔

اس میٹنگ میں میجر مومن، میجر غیاث الدین احمد، کیپٹن مُنیر، کیپٹن جمیل حق، کیپٹن معین الاسلام اور کیپٹن غیاث الدین احمد سمیت کل چھ افسران شریک ہوئے۔ کرنل مطیع نے اندر سے کمرہ بند کیا اور قرآن شریف لے کر آئے۔

انھوں نے کمرے میں موجود لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ‘دوستو ہم جو کچھ بھی کرنے جا رہے ہیں وہ اپنے ملک اور اس کے عوام کے مفاد اور انصاف کے لیے کر رہے ہیں اگر آپ ہمارے ساتھ ہیں تو قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ جو بھی ضروری ہوگا ہم وہ کریں گے۔ اگر آپ میں سے کوئی یہ نہیں کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کمرے سے باہر جاسکتا ہے۔ لیکن میری صرف ایک گزارش ہے کہ وہ اس کے بارے میں کسی کو کچھ نہ بتائے۔’

کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا۔ سب نے باری باری قرآن پر ہاتھ رکھ کر یہ حلف اٹھایا۔ اس کے بعد سب نے فوجی وردی پہنی اور ایک ایک مشین گن اٹھا لی۔

تین جماعتیں تشکیل دیں

جب ان آفسران کی ٹیم کلورگھاٹ پہنچی تو موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ سب سے پہلے وہاں پہنچنے والے لیفٹیننٹ کرنل محبوب تھے جو اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ اپنی سفید ٹویوٹا کار میں وہاں پہنچے تھے ۔

ایک گھنٹے میں 18 آفسران اور دو جے سی او بھی وہاں پہنچ گئے۔ لیفٹیننٹ کرنل مطیع الرحمان ان سب کی قیادت کر رہے تھے۔ ان سب کے پاس 11 سب مشین گنیں، تین دستی راکٹ لانچر اور تین دستی بموں سے چلنے والی رائفلیں تھیں۔ وہ سب مکمل طور پر بھری ہوئی تھیں اور وہ کارروائی کے لیے تیار تھے۔

اس حملے کے لیے تین ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں، پہلی دو جماعتوں کی ذمہ داری سرکٹ ہاؤس کے اندر جانا تھا۔ تیسری پارٹی سرکٹ ہاؤس کے پیچھے الماس سنیما کے نزدیک تعینات تھی۔ کہا یہ گیا تھا کہ اگر کوئی سرکٹ ہاؤس سے فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اسے فوراً گولی مار دی جائے۔

ضیا پر حملہ کرنے کے لیے مطیع الرحمان نے چھ لوگوں کا انتخاب کیا، محبوب، لیفٹیننٹ کرنل فضل حسین، خالد اور کیپٹن جمیل حق، کیپٹن محمد عبدالستار اور لیفٹیننٹ رفیق الحسن خان۔

کمرہ نمبر نو میں جہاں جنرل ضیاء الرحمان تھے وہاں حملے کی ذمہ داری فضل حسین اور کیپٹن ستار کو سونپی گئی تھی۔

دوسری ٹیم میں مطیع کے ہمراہ میجر قاضی مومن الحق، مظفر حسین، کیپٹن الیاس اور صلاح الدین احمد اور لیفٹیننٹ مصلح الدین بھی تھے۔ یہ بیک اپ ٹیم تھی اور ان کا کام باہر سے کسی مداخلت کو روکنا تھا۔

ہینڈ راکٹ لانچر سے حملے کی شروعات

یہ تینوں ٹیمیں صبح 3:30 بجے کلورگھاٹ سے دھیمی رفتار سے موسلا دھار بارش کے دوران سرکٹ ہاؤس کی طرف روانہ ہوگئیں۔

بعد میں شائع ہونے والے دستاویز کے مطابق سب سے آگے چلنے والی جیپ میں سوار لیفٹیننٹ رفیق الحسن خان نے لیفٹیننٹ کرنل فاضلی سے پوچھا ‘کیا آپ صدر کو مارنے جا رہے ہیں؟ جس پر لیفٹیننٹ کرنل فضیلی نے کہا نہیں ہم انہیں صرف پکڑیں گے۔’

حملہ آور دونوں ٹیمیں بغیر کسی روک ٹوک کے سرکٹ ہاؤس میں داخل ہوگئیں۔ اس عمارت کا مرکزی دروازہ جان بوجھ کر کھلا چھوڑ دیا گیا تھا۔

وہاں تعینات چار فوجیوں نے حملہ آوروں کو اندر آنے کی اجازت دے دی۔ جب وہ سرکٹ ہاؤس کے سامنے پہنچے تو لیفٹیننٹ کرنل فضل حسین نے ایک کے بعد دو راکٹ لانچر فائر کیے۔ اس کی وجہ سے ضیا کے کمرے کے نیچے والے کمرے کی دیوار میں ایک بڑا سا سوراخ ہوگیا۔ اس فائرنگ کا مقصد سرکٹ ہاؤس میں رہنے والے لوگوں کو خوفزدہ کرنا اور اپنی پارٹی کے لوگوں کو یہ اشارہ دینا تھا کہ آپریشن شروع ہوچکا ہے۔

اس کے بعد دستی بم، راکٹ اور مشین گن سے فائرنگ شروع ہوگئی۔ سب سے پہلے مرنے والے پہلے پولیس کانسٹیبل لال میاں تھے جو وہاں ڈیوٹی کر رہے تھے۔

ان کے سر میں گولی لگی تھی۔ اس کے بعد وہاں ڈیوٹی پر موجود مسلح پولیس اہلکاروں نے احتجاج نہیں کیا۔ کچھ لوگ بھاگ گئے اور کچھ چھپ گئے۔

قتل کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے مطابق لال میاں کے علاوہ صرف تین پولیس اہلکار گولیوں سے زخمی ہوئے تھے۔

سرکٹ ہاؤس میں تعینات صدر گارڈ رجمنٹ کے سپاہی بھی کچھ نہیں کرسکے۔ دو محافظ جنھیں صدر کے بیڈروم کے سامنے کھڑے ہونا چاہیے تھا وہ بھی نیچے ملے۔

سول انکوائری کمیشن کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ایک دوسری ٹیم نے صبح چار بجے ان لوگوں کی جگہ لے لی تھی لیکن یہ لوگ ان کی آمد سے پہلے ہی نیچے چلے گئے تھے۔

جب فائرنگ شروع ہوئی تو ضیا کی حفاظت کرنے والے کچھ فوجیوں نے ان کے کمرے کی طرف جانے کی کوشش کی۔ لیکن وہ زیادہ آگے نہیں بڑھ سکے۔

حملے کے ابتدائی لمحات میں ہی ان میں سے چار ہلاک ہوگئے اور دو بُری طرح زخمی ہوئے۔ جنرل ضیا کے بیڈ روم کی حفاظت کے لیے پہلی منزل پر ایک بھی سکیورٹی گارڈ نہیں تھا۔

اس ساری کارروائی میں حملہ آوروں میں سے کوئی بھی سرکٹ ہاؤس کے سکیورٹی گارڈز کے ہاتھوں ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔ زخمی ہونے والے دو افراد کو اپنے ہی ساتھیوں کی گولی لگی۔

لیفٹیننٹ کرنل فضل حسین بیک اپ ٹیم کی فائرنگ سے بری طرح زخمی ہو گئے۔ اسی طرح کیپٹن جمیل حق کو بھی اپنے ہی ساتھیوں کی گولی لگی۔

زخمی ہونے کے باوجود، جمیل پہلی منزل کے برآمدے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئےجہاں انھوں نے صدر کے ذاتی محافظ نائک رفیق الدین کو گولی مار کر زخمی کردیا۔

صدر کے چیف سکیورٹی آفسر لیفٹیننٹ کرنل معین الاحسن اور صدر گارڈ رجمنٹ کے کیپٹن اشرفی خان پہلی منزل کے پیچھے کے کمروں میں سو رہے تھے اور دھماکے کی آواز سن کر جاگ اٹھے وہ اپنی بندوق لےکر صدر کی حفاظت کے لیے بھاگے لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنی بندوقیں استعمال کرپاتے حملہ آوروں نے راہداری میں ہی انھیں مار گرایا۔

جنرل ضیا کمرہ نمبر چار میں تھے

اینتھونی میسکرینہاس اپنی کتاب ‘بنگلہ دیش اے لیگسی آف بلڈ’ میں لکھتے ہیں: ‘اس وقت تک جب کرنل مطیع سمیت بیک اپ ٹیم صدر ضیا کی تلاش میں پہلی منزل پر پہنچ گئی تھی انھیں خبر ملی تھی کہ صدر کمرہ نمبر نو میں ہیں۔ جب کیپٹن عبد الستار اس کمرے کے دروازے کو ٹھوکر مار کر کھولا تو انھوں نے وہاں بی این پی کی رہنما ڈاکٹر آمنہ رحمان کو پایا۔ اس کے بعد حملہ آوروں نے ہر دروازہ کھولنا شروع کردیا۔’

‘کیپٹن صلاح الدین کو اونچی آواز میں یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ‘صدر کہاں ہے؟ صدر کہاں ہیں؟’

انھیں جلد ہی پتہ چل گیا کہ ضیا کمرے نمبر چار میں سو رہے ہیں۔ یہ کمرہ سیڑھیوں کے بالکل قریب تھا اور اس کے دو دروازے تھے۔ ایک سیڑھیوں کے سامنے اور دوسرا برآمدے میں کھلتا تھا اور یہ دروازہ باہر سے بند تھا۔

بعد میں لیفٹیننٹ رفیق الحسن خان نے انکوائری کمیشن کے سامنے گواہی میں کہا ‘اچانک شور مچا کہ صدر باہر آ رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد کسی نے چیخ کر کہا: ‘یہ ہیں وہ ‘سفید پاجامہ پہنے ضیا نیند سے اٹھ کر آئے تھے۔ انھوں ہاتھ اٹھایا اوردلیری سے کہا آپ کیا چاہتے ہیں؟’

مشین گن سے ضیا پر حملہ

بعد میں لیفٹیننٹ مصلح الدین نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ ‘ضیا کے سب سے قریب میں تھا اور میجر مظفر تھے جو کانپ رہے تھے۔ میں ضیا کو یقین دلانا چاہتا تھا کہ’پریشان نہ ہوں۔ ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہم دونوں کو اب تک یہ محسوس ہو رہا تھا کہ ضیاء کو صرف گرفتار کرنا ہے انھیں قتل نہیں کرنا ہے لیکن کرنل مطیع جو قریب کھڑے تھے ان کے دل میں کوئی رحم نہیں تھا۔

انھوں نے موقع دیے بغیر ہی ضیا کے جسم کے دائیں جانب سے مشین گن سے فائر کردیا۔ ضیا منھ کے بل گر پڑے ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔

مطیع الرحمان نے اپنی مشین گن کے بیرل سے ضیاء کو پلٹا اور پوری میگزین ضیا کے چہرے اور جسم کے اوپری حصے پر خالی کر دی۔

ضیاء کی موت کے فوراً بعد تمام قاتل سرکٹ ہاؤس سے چلے گئے۔ وہ اپنے دو زخمی ساتھیوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ اس پورے واقعہ میں صرف 20 منٹ لگے۔

ضیا کی آنکھوں سینے اور پیٹ میں گولیاں لگیں۔

لیفٹننٹ مصلح الدین نے اپنی شہادت میں مزید کہا ‘میجر مظفر، جو کنٹونمنٹ میں واپس آتے ہوئے بھی کانپ رہے تھے انھوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہم صدر کو مار ڈالیں گے۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہمیں انھیں گرفتار کرنا ہے’۔

ضیا کے ذاتی معالج لیفٹیننٹ کرنل مہتاب الاسلام نے اپنی گواہی میں کہا ‘فائرنگ بند ہونے کے بعد میں اپنے کمرے سے باہر آیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ گولیوں سے چھلنی صدر کا جسم دروازے کے باہر پڑا تھا’۔

ان کی کی ایک آنکھ مکمل طور پر تباہ ہوگئی تھی اور ان کے گلے میں گہرا زخم تھا اور سینے، پیٹ اور ٹانگوں میں گولیوں کے بہت سارے نشانات تھے۔ ان کا خون ان کے جسم کے چاروں طرف پھیلا ہوا تھا اور ان کا چشمہ سیڑھیوں پر ٹوٹا پڑا تھا۔

اے ڈی سی کے کردار پر سوال؟

سول انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘ضیاء کے سٹاف آفیسر لیفٹیننٹ کرنل محفوظ اور اس کے اے ڈی سی کیپٹن مظہر اُس وقت تک اپنی پہلی منزل کے کمرے سے باہر نہیں نکلے جب تک کہ وائرلیس آپریٹر نائک عبدالبشر نے ان کا دروازہ کھٹکھٹا کر انھیں نہیں بلایا۔ اُس وقت تک حملہ آوروں کو گئے ہوئے کافی وقت ہو چکا تھا۔

ضیاء کی موت کے بعد جاری ہونے والے دستاویز میں کہا گیا کہ ‘ضیا کے اے ڈی سی کیپٹن مظہر ضیا کے ساتھ والے کمرے میں تھے۔ انھوں نے صدر تک پہنچنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ تاہم ، انھوں نے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش ضرور کی جس میں انھیں کامیابی نہیں ملی۔

ان کے کام پر تبصرہ کرتے ہوئے سول انکوائری کمیشن نے کہا ‘صدر اور ان کے اے ڈی سی کے کمروں کو ملانے والا ایک دروازہ تھا۔ صدر کے پاس پہنچنا ان کے لیے بہت آسان تھا۔ جب حملہ آور صدر کے کمرے کے دروازوں کو پیٹ رہے تھے تو وہ اے ڈی سی کے کمرے میں جاکر بچ سکتے تھے۔

اے ڈی سی سے توقع تھی کہ خطرے کو دیکھ کر وہ صدر کو اس دروازے سے اپنے کمرے میں لے جاتے یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ اے ڈی سی نے کہا کہ وہ جانتے ہی نہیں تھے کہ ان کے اور صدر کے کمرے کے درمیان ایک دروازہ تھا۔

جنرل ضیا کی لاشزمین پر پڑی رہی

صدر ضیاء کی لاش بہت دیر تک اسی جگہ پڑی رہی جہاں انھیں قتل کیا گیا تھا۔

سرکٹ ہاؤس پہنچنے والے بی این پی قائدین چٹگانگ کمشنر، سینیئر پولیس افسران اور بحریہ کے سربراہ کسی نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ جنرل ضیا کی لاش کو زمین سے اٹھا کر بستر پر رکھ دیا جائے۔

بی این پی کے صرف ایک رہنما میزان الرحمٰن چودھری اپنے بستر سے ایک سفید چادر لا کر اسے صدر کی لاش پر ڈال دیا۔

بحریہ کے چیف ایڈمرل محمود عالم خان جو ضیا کے جہاز پر ڈھاکہ سے چٹاگانگ آئے تھے ، ساڑھے پانچ بجے سرکٹ ہاؤس پہنچے۔ انھوں نے پورچ ہی میں کچھ عہدیداروں سے بات کی۔ کچھ لوگوں کے اصرار کے باوجود بھی وہ ضیاء کی لاش دیکھنے پہلی منزل پر نہیں گئے۔

ساڑھے سات بجے تک بی این پی کے تمام رہنما اور اعلی عہدیداروں نے سرکٹ ہاؤس چھوڑ دیا تھا۔ ضیا کے جسم کی نگرانی کے لیے صرف دو جونیئر افسر رہ گئے تھے اور ان کی لاش ابھی بھی زمین پر پڑی ہوئی تھی۔

چٹاگانگ کے کمشنر سیف الدین احمد نے بعد کے انٹرویو میں اینتھونی میسکرینہاس کو بتایا: ‘اس کے بعد میں نے لیفٹیننٹ کرنل محفوظ اور مہتاب اور اے ڈی سی کیپٹن مظہر کو اپنے گھر ناشتے کے لیے لے گیا اور میری اہلیہ نے ان سب کے لیے ناشتہ تیار کیا۔’

جنرل ضیا کی تدفین

ایک گھنٹہ کے بعد تین باغی میجر مظفر شوکت علی اور رضا ایک درجن فوجیوں کے ساتھ دو جیپوں اور ایک فوجی وین کے قافلے میں سرکٹ ہاؤس پہنچے۔

انھوں نے صدر کے بیڈ روم کی تلاشی لی وہ جنرل ضیاء کی ذاتی ڈائری کی تلاش میں تھے جس میں صدر اپنے خیالات لکھتے تھے۔

ان لوگوں نے ضیا کے سامان کو ایک پرانی اٹیچی میں بھر دیا اور ضیا کے جسم کو سفید کپڑے میں لپیٹا۔ دو مقتول سکیورٹی آفیسرز لیفٹیننٹ کرنل احسن اور کیپٹن حفیظ کی لاشیں بھی سفید کپڑے میں لپیٹ دی گئیں۔ ساڑھے نو بجے تینوں لاشوں کو بھری ہوئی اور ایک وین میں دفنانے کے لیے لے جایا گیا۔

Exit mobile version