کورونا وائرس: لاک ڈاؤن کے دوران سیاحت کی صنعت کھولنے کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کی بریفنگ پر سوشل میڈیا صارفین کا ردِعمل
‘ہم غریب ہیں۔
وائرس مزید پھیلے گا۔
ہمیں سیاحت کے شعبے کو کھول دینا چاہیے۔’
لکھاری اور کالم نویس ندیم فاروق پراچہ نے گذشتہ روز ملک میں کورونا کی صورتحال اور اس کے پسِ منظر میں لیے جانے والے تازہ حکومتی فیصلوں کے بارے میں قوم کو وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے دی گئی بریفنگ کا خلاصہ ان تین جملوں میں بیان کیا ہے۔
اپنی بریفنگ میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘دیکھیں وائرس نے پھیلنا ہے، وائرس پھیلے گی۔ میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں، اموات کی تعداد بھی مزید بڑھے گی۔ اس صورتحال کے ساتھ کامیابی سے گزارہ کرنے کی ذمہ داری عوام کی ہے۔۔۔ ہمارے خیال میں ٹورازم کو اس لیے کھولنا چاہیے کیونکہ جن علاقوں میں سیاحت ہوتی ہے وہاں یہی گرمیوں کے تین، چار مہینے ہوتے ہیں کاروبار کرنے کے۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اگر یہ تین، چار مہینے لاک ڈاؤن میں گزر گئے تو ان (سیاحتی) علاقوں میں غربت ہو جائے گی۔۔۔ میری التجا ہے، آپ (عوام) کو ذمہ داری لینی پڑے گی، ذمہ دار قوم بننا پڑے گا اور ایس او پیز پر عمل کرنا ہو گا۔’
شاید وزیر اعظم کے یہی وہ اقوال تھے جس کا لبِ لباب ندیم پراچہ نے اس انداز میں بیان کیا:
یاد رہے کہ یکم جون کو جب وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں سیاحت کا شعبہ کھولنے کا عندیہ دیا، اسی روز پاکستان میں کورونا متاثرین کی ریکارڈ تعداد یعنی ایک دن میں 3938 نئے مریض سامنے آئی ہے۔
26 فروری کو پاکستان میں رپورٹ ہونے والے پہلے کورونا کیس کے بعد یہ گذشتہ تین ماہ سے زائد عرصے کے دوران ایک دن میں مریضوں کی تعداد میں ہونا والا سب سے بڑا اضافہ تھا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ملک میں 12سے 15 کروڑ افراد ایسے ہیں جہاں اگر گھرانے کا سربراہ روزانہ کی بنیاد پر نہ کمائے تو گھر میں بھوک کا خدشہ ہوتا ہے۔ ‘امیر لوگ شور مچا رہے تھے کہ لاک ڈاؤن کرو، لاک ڈاؤن کرو جبکہ دیہاڑی دار لوگوں کا اور رویہ تھا۔ میں بطور وزیر اعظم دونوں سائیڈز کو دیکھ رہا تھا۔’
انھوں نے کہا کہ ایک چیز واضح نظر آ رہی ہے کہ ‘جو لوگ امیر ہیں، بڑے بڑے گھروں میں رہ رہیں ہیں وہ کورونا سے بچاؤ اور احتیاط کے ایس او پیز پر عمل کر رہے ہیں، مگر عام آدمی کا رویہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ میں ٹائیگر فورس کو کہوں گا کہ وہ لوگوں کے پاس جائیں اور انھیں شعور دیں گے اب کیسے ہم نے اس (کورونا) کے ساتھ گزارا کرنا ہے۔’
کورونا کے پاکستان میں پھیلاؤ کی سنگین صورتحال اور وزیر اعظم کی جانب سے سیاحت کے شعبے کو کھولنے کا اعلان شاید سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر چند صارفین کو ہضم نہیں ہو سکا۔
بہت سے صارفین نے وزیر اعظم کی تقریر پر تنقید کی، کئی نے اعدادوشمار سامنے رکھتے ہوئے اس فیصلے کو ‘احمقانہ’ قرار دیا جبکہ بہت سے ایسے تھے جنھوں نے تنقید کے لیے طنز و مزاح کا سہارا لیا۔
عمران خان کی اس بریفنگ کے بعد صحافی سِرل المیڈا نے ٹویٹ کی کہ ‘عمران خان آپ کی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔’
ایک اور ٹوئٹر صارف صبا حیدر نے دیگر صارفین سے پوچھا کہ آپ کو یاد ہے کہ ہم (بچپن میں) کہتے تھے کہ ‘مرنے سے پہلے پورا پاکستان دیکھنا ہے؟ عمران خان نے اس بات کو سنجیدگی سے لے لیا ہے۔’
سعد سہیل نامی ٹوئٹر صارف کا کہنا تھا کہ 250 کیسز پر حکومت نے لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا مگر 72 ہزار سے زائد کیسز پر عمران خان کہہ رہے ہیں ‘بوائز تھوڑی سیاحت ہو جائے؟’
صحافی اور اینکر منصور علی خان نے حکومتی بیانیے کی وضاحت کچھ اس طرح کی:
وزیر اعظم نے قوم کو دی گئی اپنی بریفنگ کا اختتام ان الفاظ پر کیا: ‘وائرس نے بڑھنا ہے۔ اور لوگوں کو وائرس ہو گی، یہ پھیلے گی۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری اموات بھی بڑھیں گی۔ مستقبل میں ہم اس کے ساتھ کیسے گزارہ کریں گے اس کی ذمہ داری آپ پر ہے۔ جتنا آپ ایس او پیز پر عمل کریں گے، جتنی آپ احتیاط کریں گے۔۔۔ اتنا بہتر ہو گا۔‘