چار ماہ کے طویل مشاہدے کے بعد ہمارے پالیسی سازوں نے بالآخر یہ دریافت کرلیا ہے کہ پاکستان میں کرونا تقریباََ نہ ہونے کے برابر ہے۔اس مرض کی وجہ سے جو ہلاکتیں ہوئی ہیں ان کا شمار دس لاکھ افراد کا یونٹ بناکر کیا جائے تو فقط سات کی اوسط سامنے آتی ہے۔وباء کے وسیع پیمانے پر پھوٹنے کے امکانات نظر نہیں آرہے۔ کرونا سے لہذا گھبرانا نہیں بلکہ اس سے گزارہ کرنا ہے۔
وباء پھوٹنے کے امکانات معدوم نظر آئے تو کاروبار حیات بھرپور انداز میں بحال ہونا شروع ہوگیا۔ بحالی کی رونق سیاسی محاذ پر نظر آنا بھی ضروری تھی۔ ویسے بھی عمران خان صاحب 22برس تک کرپشن کے خلاف تواتر سے آواز بلند کرنے کی بدولت اگست 2018میں برسرِ اقتدار آئے تھے۔ وباء کے خوف نے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو احتساب کی زد سے چند ماہ تک بچائے رکھا۔ یہ خوف دور ہوگیا تو ’’ٹارزن کی واپسی‘‘ ضروری تھی۔
منگل کے دن ’’ٹارزن‘‘ پاکستان مسلم لیگ (نون) کے صدر شہباز شریف صاحب کو اپنی گرفت میں لانے کی جدوجہد میں مصروف رہا۔وہ مگر جاتی امراء اور ماڈل ٹائون والے گھروں سے غائب ہوکر کسی ’’نامعلوم‘‘ مقام پر پناہ گزین ہوگئے۔ ماضی کے کئی ’’انقلابی‘‘ رہنمائوں کی طرح زیرزمین جانے سے قبل شہباز صاحب مگر یہ حقیقت نظرانداز کرتے ہوئے محسوس ہوئے کہ دورِ حاضر میں Tracingکا نظام متعارف ہوچکا ہے۔ کرونا کے دنوں میں اس نظام کی بدولت اس مرض کی زد میں آئے افراد کا سراغ لگایا گیا۔ان سے رابطے میں آئے افراد کی نشاندہی بھی ہوگئی۔ سمارٹ فون استعمال کئے بغیر شہباز صاحب رہ نہیں سکتے۔کسی بھی لمحے ان کی Locationاحتساب والوں کو دریافت ہوسکتی ہے۔لاہورکو انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں Safe Cityبنایا تھا۔ جدید ترین کیمروں کی بدولت کسی گاڑی میں موجود افراد کی شناخت فی الفور ہوجاتی ہے۔اس گاڑی کا نمبر بھی معلوم ہوجاتاہے۔کسی ایک مقام سے دوسرے مقام پر گئی گاڑی کی Travel Historyبآسانی دریافت ہوجاتی ہے۔ زیرزمین رہنے کی کاوش Digitalزمانے میں کاربے سودنظر آتی ہے۔
مجھے کامل یقین ہے کہ ہمارے اداروں کی Capacityکو شہباز صاحب بخوبی جانتے ہیں۔ منگل کے روز ’’غائب‘‘ ہونے کا فیصلہ کرتے وقت انہوں نے غالباََ یہ امید باندھی ہوگی کہ دو یا تین روز میں انہیں لاہور ہائیکورٹ گرفتاری سے ضمانت کے ذریعے بچالے گی۔
وہ اگر گرفتار ہوبھی گئے تو جمعہ کے روز سے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہو جانا ہے۔وہ اس ایوان کے قائدِ حزب اختلاف ہیں۔اس عہدے کی بدولت سپیکر اسد قیصر صاحب انہیں ایوان کی کارروائی میں حصہ لینے کے لئے پروڈکشن آرڈر کے ذریعے طلب کرسکتے ہیں۔انہوں نے یہ آرڈر جاری کرنے میں دیر لگائی تو قومی اسمبلی میں مسلم لیگ نون کے اراکین ہنگامہ برپا کردیں گے۔ یہ ہنگامہ اگرچہ عمران حکومت کو یہ دعویٰ کرنے کی سہولت پہنچاتا ہے کہ پاکستان کے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ نے سیاست دانوں کا روپ دھاررکھا ہے۔ عوام ان میں سے چند افراد کو ووٹ دے کر قومی اسمبلی بھیجتے ہیں۔وہاں پہنچنے کے بعد ’’ہمارے نمائندوں‘‘ کو عوام کو درپیش مسائل کی بابت آواز بلند کرنا چاہیے۔وہ مگر احتساب والوں کی پکڑ میں آئے اپنے ساتھیوں کے ’’استحقاق‘‘ کی دہائی مچانا شروع کردیتے ہیں۔
گرفتار ہوجانے کے بعد شہبازصاحب قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے بہانے اسلام آباد آبھی گئے تو زیادہ سے زیادہ جون کے آخری ہفتے تک احتساب والوں کی جانب سے اٹھائے سوالوں کے جوابات فراہم کرنے کا مرحلہ ٹال سکیں گے۔بالآخر انہیں نیب کی حراست میں کچھ وقت گزارنا ہی پڑے گا۔
وہ نیب کی حراست میں ہوں گے تو ’’ذرائع‘‘ کی بدولت خلقِ خدا کو مسلسل یہ علم ہوتا رہے گا کہ ٹھوس سوالات اٹھائے جانے کے بعد وہ مبینہ طورپر ’’آئیں بائیں شائیں‘‘ میں مصروف ہوجاتے ہیں۔وقتا فوقتاََ عمران حکومت کے نگہبانِ احتساب جناب شہزاد اکبر صاحب طویل پریس کانفرنسوں سے خطاب کا سلسلہ بھی جاری رکھیں گے۔ٹی وی پروگراموں میں نمودار ہوتے رہیں گے۔ان کے پاس وہ تمام ’’شواہد‘‘ دستاویز کی صورت موجود ہیں جو بقول ان کے یہ ثابت کرتے ہیں کہ شہباز صاحب اور ان کے فرزند ’’منی لانڈرنگ‘‘ کے عادی مجرم ہیں۔پاکستان میں جو دولت کماتے ہیں اسے ظاہر کرنے کے بجائے مختلف ہتھکنڈوں سے بیرون ملک بھجوادیتے ہیں۔باہر بھیجی رقوم میں سے بھاری بھر کم تعداد TTsکی صورت وطن واپس آجاتی ہے۔شہباز صاحب کے فرزندوں کا کاروبار اس کی بدولت پھیلتا چلاجاتا ہے۔
راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر ’’اصل خبر‘‘ سے ہمیشہ آگاہ رہتے ہیں۔کئی دنوں سے وہ مسلسل یہ دعویٰ کئے چلے جارہے ہیں کہ ’’ٹھوس ثبوتوں‘‘ کے باعث شریف خاندان کی کہانی اب ختم ہوئی۔ احتساب کی جکڑ سے اب کسی صورت یہ خاندان بچ نہیں پائے گا۔ گرفتاری،جیل اور طویل مقدمات اس خاندان کے سرکردہ افراد کا مقدربن چکے ہیں۔ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ میں موجود سیاست دانوں کو اب متبادل کی تلاش شروع کردینا چاہیے۔ متبادل قیادت اگرچہ دور دور تک مہیا ہوتی نظر نہیں آرہی۔ بہتر یہی ہے کہ سرجھکا کر عمران خان صاحب کو اپنا ایجنڈا مکمل کرنے دیا جائے۔
نون کے لاحقے والی پاکستان مسلم لیگ پر ان دنوں جو آفت برپاہوئی نظر آرہی ہے اسے ذہن میں رکھیںتوگز شتہ ستمبر-اکتوبر کے مہینے یاد آجاتے ہیں۔ان دنوں شہباز صاحب کی فراست سے رجوع کرنے والے بہت ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘ افراد پارلیمان کی غلام گردشوں میں اِتراتے پھررہے ہوتے تھے۔ان کی توجہ حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔مروت میں کوئی صاحب ایوان کی جانب بڑھتے یا وہاں سے نکلتے ہوئے سلام دُعاکے لئے چند لمحے کو رک جاتے تو مجھ جسے ہمہ وقت متجسس رپورٹر ان سے سوالات پوچھنا شروع کردیتے۔انہیں اپنی جند چھڑانے کی جلدی ہوتی تھی۔رخصت ہوتے ہوئے سرگوشیوں میں البتہ وہ یہ امید دلادیتے کہ ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ ہونے والی ہے۔میرا ضرورت سے زیادہ منطقی ذہن مذکورہ تبدیلی کے امکانات کبھی دیکھ نہیں پایا۔اپنی کوتاہ فہمی کی وجہ سے ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘ سیاست دانوں کے طعنے برداشت کئے۔ اب احساس ہورہا ہے کہ میں بھولا تو ہوں مگر اتنا بھی نہیں۔
اقتدار کے کھیل کے تناظر میں شہباز صاحب 90کی دہائی کے آغازہی سے بہت ’’کائیاں‘‘ مشہور ہونا شروع ہوگئے تھے۔ان کے بار ے میں یہ تصور اجاگرہوا کہ وہ ’’مقتدر حلقوں‘‘ کے مزاج شناس ہیں۔ان سے بناکر رکھنے کے تمام ہنر جانتے ہیں۔اسی باعث افواہیں پھیلا کرتی تھیں کہ غلام اسحاق خان سمیت ہمارے ہاں اقتدار کی بساط پر حتمی کمانڈ اینڈ کنٹرول کا حامل ہر بااختیار شخص مبینہ طورپر اس خواہش کا اظہار کرتا رہا کہ شہباز صاحب اپنے بڑے بھائی کی جگہ وزارتِ عظمیٰ یا پاکستان مسلم لیگ (نون) کی صدارت کا منصب سنبھال لیں۔ہمارے ایک سنجیدہ اور معتبر صحافی جناب سہیل وڑائچ کو حال ہی میں شہباز صاحب نے ایک انٹرویو دیا تھا۔اس کے ذریعے بھی بنیادی پیغام یہ ملا کہ مذکورہ خواہش کا اظہار 2018کے عام انتخابات کے انعقاد سے قبل تک بھی ہوتا رہا۔ فارسی کا ایک محاورہ مگر اصرار کرتا ہے کہ ہر روز روز عید نہیں ہوتا۔ غالباََ شہباز صاحب کے ’’عیداں تے شب راتاں‘‘والے دن گزرچکے ہیں۔عمران حکومت نے ان کے کس بل نکال دئیے ہیں۔’’مقتدر حلقوں‘‘ تک ان کی رسائی برقرار نظرنہیں آرہی۔شہزاد اکبر اور شہباز گل ہی ان کا ’’مکوٹھپنے‘‘ کے لئے کافی نظر نہیں آرہے ہیں۔جس ’’ٹارزن‘‘ کا انتظار تھا وباء کے امکانات معدوم ہوجانے کے بعدمنظرِ عام پر لوٹ آیا ہے۔احتساب کا عمل اب کم از کم ٹی وی سکرینوں پر دھواں دھار انداز میں بحال ہوتا نظر آئے گا۔