برطانوی عام انتخابات میں بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی کو واضح اکثریت مل گئی
گذشتہ پانچ برس سے بھی کم عرصے میں ہونے والے تیسرے برطانوی عام انتخابات میں موجودہ وزیر اعظم بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی کو واضح اکثریت مل گئی ہے۔
ووٹنگ کا عمل ختم ہونے کے بعد برطانوی عام انتخابات کے نتائج کے مطابق ٹوری پارٹی نے کم از کم 326 سیٹیں جیت لی ہیں جبکہ ابھی کچھ سیٹوں پر نتائج آنا باقی ہیں۔
اپنی جماعت کی جیت پر وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ ان نتائج سے انھیں ’بریگزٹ کے لیے مینڈیٹ مل گیا ہے۔‘ بورس جانسن کا کہنا تھا کہ وہ اگلے ماہ تک برطانیہ کو یورپی یونین سے نکال لیں گے۔
ایک بیان میں لیبر پارٹی کے سربراہ جیرمی کوربن نے کہا ہے کہ ’یہ رات لیبر پارٹی کے لیے مایوس کن رہی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ غور و فکر کے اس عرصے کے دوران اپنی جماعت کا ساتھ دیں گے لیکن اگلے انتخابات میں لیبر پارٹی کی سربراہی نہیں کریں گے۔
سکاٹ لینڈ میں نیکولا سٹرجیون کی جیت
ابتدائی نتائج کے مطابق سکاٹش نیشنل پارٹی (ایس این پی) نے سکاٹ لینڈ میں کنزرویٹو پارٹی اور لیبر پارٹی کو کئی سیٹوں پر شکست دے کر اکثریت حاصل کر لی ہے۔
سکاٹش نیشنل پارٹی کی سربراہ نیکولا سٹرجیون کا کہنا ہے کہ ان کی جیت ’دوسرے ریفرنڈم کا واضح پیغام ہے۔‘ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اِن نتائج نے اُن کی توقعات مزید بڑھا دی ہیں۔
انتخابات کے نتائج کے مطابق سکاٹ لینڈ کی 56 سیٹوں میں سے ابھی تک ایس این پی نے 45، ٹوری نے چھ، لیب ڈیمز نے تین اور لیبر نے ایک سیٹ جیتی ہے۔
بی بی سی کی جانب سے کیے گئے اس ایگزٹ پول میں ظاہر ہوا ہے کہ کنزرویٹو پارٹی نے اپنی حریف لیبر پارٹی کی سابق سیٹیں جیت لی ہیں۔
حالیہ ایگزٹ پول میں کنزرویٹو پارٹی کو برطانوی عام انتخابات میں 363 سیٹیں، لیبر پارٹی کو 203، سکاٹش نیشنل پارٹی کو 49 اور لیب ڈیمز کو 12 سیٹیں ملنے کا امکان ظاہر ہوا ہے۔
ایگزٹ پول کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی برطانوی پونڈ کی قدر میں 2.7 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک پونڈ کی موجودہ قدر 1.35 ڈالر ہوگئی ہے۔ یورو کے مقابلے میں پونڈ کی قدر ساڑھے تین سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
ایگزٹ پول کیسے ہوا؟
ایگزٹ پول کے تحت جب بھی کوئی ووٹر اپنا ووٹ ڈال کر پولنگ سٹیشن سے باہر نکلتا تو اسے ایک فرضی بیلٹ پیپر دے کر اپنی رائے کے اظہار کی درخواست کی جاتی۔
ایگزٹ پول کے تحت 144 پولنگ سٹیشنز پر 22790 ووٹرز سے ان کی رائے جانی گئی جس کی بنیاد پر اوپر دیے گئے نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔
حالیہ چند برسوں میں ایگزٹ پول سے حاصل ہونے والے نتائج عمومی طور پر اصل نتائج سے انتہائی قریب تر دیکھے گئے ہیں۔ برطانیہ میں سنہ 2017 میں ہوئے عام انتخابات کے بعد ایگزٹ پول کے ذریعے معلق پارلیمان وجود میں آنے کی خبر دی گئی تھی۔ اس پول میں بتایا گیا تھا کہ کسی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہو گی اور بعد ازاں ایسا ہی ہوا۔
اسی طرح سنہ 2015 میں ہوئے عام انتخابات میں جاری کیے گئے ایگزٹ پول میں بتایا گیا تھا کہ کنزرویٹو پارٹی ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی جو کہ بعد میں سچ ثابت ہوا۔
ان عام انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ اور وزیر اعظم بورس جانسن نے بریگزٹ کو اپنی الیکشن مہم کا مرکز و محور قرار دیا تھا۔ انھوں نے اعلان کیا تھا کہ اگر ان کی پارٹی اور سنہ 2019 کے عام انتخابات میں ایک اور موقع دیا گیا تو وہ 31 جنوری 2020 تک برطانیہ کو یورپی یونین سے باہر نکال لیں گے۔
جبکہ ان کے سیاسی حریف اور لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن نے انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ اگر ان کی جماعت نے حکومت بنائی تو وہ بریگزٹ کے معاملے پر ایک اور عوامی ریفرنڈم منعقد کریں گے۔
قبل از وقت انتخابات کیوں؟
ویسے تو برطانیہ میں عام انتخابات کا انعقاد سنہ 2022 میں ہونا تھا تاہم برطانیہ کی پارلیمان نے بریگزٹ کے معاملے سے نمٹنے کے لیے قبل از وقت انتخابات پر اتفاقِ رائے کرتے ہوئے پارلیمان تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
سنہ 1974 کے بعد یہ پہلے ایسے انتخابات ہیں جن کا انعقاد موسمِ سرما میں کیا گیا ہے جبکہ آخری مرتبہ دسمبر کے مہینے میں عام انتخابات کا انعقاد سنہ 1923 میں ہوا تھا۔
انگلینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ میں کل 650 حلقوں میں مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے ووٹنگ کا آغاز ہوا تھا جو رات دس بجے اختتام پذیر ہوا۔ اس کے فوراً بعد گنتی کا آغاز ہو چکا ہے اور جمعے کے صبح تک زیادہ تر حلقوں کے نتائج سامنے آنے کی امید ہے۔
ان انتخابات کے نتیجے میں 650 ممبران پارلیمان کا چناؤ ’فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ‘ کے طریقہ کار کے تحت کیا جائے گا۔ اس طریقہ کار کے تحت ہر حلقہ میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والا امیدوار کامیاب قرار دیا جاتا ہے۔
برطانیہ میں گذشتہ عام انتخابات سنہ 2017 میں ہوئے تھے جس میں سب سے پہلا نتیجہ نیوکیسل سینٹرل کے ایک حلقے کا سامنے آیا تھا۔ اس نتیجے کا اعلان ووٹنگ کا ٹائم ختم ہونے کے فقط ایک گھنٹے بعد کر دیا گیا تھا۔
پولنگ سٹیشن میں سیلفی لے سکتے ہیں؟
الیکشن کمیشن کا مشورہ ہے کہ پولنگ سٹیشن کے اندر ایسا نہ کیا جائے کیوں کہ اس سے اس بات کا خدشہ ہو سکتا ہے کہ کسی دوسرے کے بارے میں یہ عیاں ہو جائے کہ انھوں نے کس کو ووٹ دیا ہے جو کہ قانون کے خلاف ہے۔
تاہم الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ پولنگ سٹیشن کے باہر سیلفی لے سکتے ہیں تاکہ’دوستوں اور خاندان والوں کی ووٹ ڈالنے کے لیے حوصلہ افزائی ہو سکے۔‘
آپ نے کسے ووٹ دیا؟
جی ہاں آپ بتا سکتے ہیں لیکن صرف اپنے ووٹ کے بارے میں۔ کسی اور کے ووٹ کے بارے میں بتانے سے پھر چاہے وہ غلطی سے ہی کیوں نہ ہو، آپ کو پانچ ہزار پاؤنڈ جرمانہ یا چھ ماہ کی قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔