وہ ایک صحافی تھا جو سیاستدان بن گیا لیکن پھر صحافت اور سیاست کے درمیان پھنس کر رہ گیا۔ سٹروب ٹالبوٹ معروف امریکی جریدے ’’ٹائم‘‘ سے وابستہ تھا لیکن جب بل کلنٹن امریکا کے صدر بنے تو اپنے زمانہ طالبعلمی کے دوست سٹروب ٹالبوٹ کو سیاست میں لے آئے اور اُنہیں امریکا کا ڈپٹی سیکرٹری آف اسٹیٹ مقرر کر دیا۔
مئی 1998میں بھارت اور پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو ٹالبوٹ کا کافی وقت جنوبی ایشیا میں گزرا۔ اُنہوں نے پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔
ٹالبوٹ نے Engaging Indiaکے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب میں اُنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اُنہیں بار بار کہا کہ میں بھارت کی طرح پاگل پن کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہتا اور دھماکے کے بجائے امریکا کی مدد سے مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہوں لیکن آخر کار نواز شریف عوامی دبائو کے سامنے جھک گئے اور اُنہوں نے 28؍مئی 1998کو دھماکے کر دیے۔ یہ کتاب 2004میں شائع ہوئی تھی۔
2009میں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ گوہر ایوب خان کی کتاب ٹیسٹنگ ٹائمز Testing Timesشائع ہوئی۔ گوہر ایوب 1998میں وزیر خارجہ تھے۔ اُنہوں نے اپنی کتاب میں سٹروب ٹالبوٹ کے موقف کی تائید کرتے ہوئے لکھا کہ ابتدا میں نواز شریف ایٹمی دھماکوں کے حامی نہیں تھے۔
وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ نواز شریف قازقستان کے دورے سے واپس آئے تو اُنہوں نے کابینہ کا اجلاس بلایا جس میں چوہدری نثار علی خان، سرتاج عزیز، مشاہد حسین اور عابدہ حسین نے دھماکوں کی مخالفت کی۔
کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کے اجلاس میں گوہر ایوب نے دھماکوں کی بھرپور حمایت کی اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نواز شریف بھی دھماکوں کے حامی بن گئے تاہم مشاہد حسین کا موقف ہے کہ وہ پہلے دن سے دھماکوں کے حامی تھے۔ خواجہ آصف اُس وقت پرائیویٹائزیشن کمیشن کے سربراہ تھے۔
اُنہوں نے بتایا کہ ایک دن وہ کسی سرکاری اجلاس میں شرکت کے لئے کراچی آئے تو وزیراعظم نے اُنہیں فون کیا اور پوچھا کہ ہمیں دھماکے کرنے چاہئیں یا نہیں؟ خواجہ صاحب نے کہا ضرور کرنے چاہئیں تو وزیراعظم نے جواب میں کہا ’’زندہ باد‘‘۔ اس خاکسار کے پچھلے کالم پر جناب عرفان صدیقی صاحب کا ایک محبت نامہ موصول ہوا ہے جو ایک عینی شاہد کی گواہی ہے، یہ خط پیش ہے۔
برادر عزیز حامد میر صاحب!
یکم جون کو، آپ کا کالم ’’ایٹمی دھماکا کس نے کیا؟‘‘ توجہ سے پڑھا۔ سوچتا رہا کہ شاید فلاں پہلو نظر انداز ہو گیا ہو لیکن آپ نے ذاتی اور واقعاتی حوالے سے تمام تفصیلات بیان کر دی ہیں اور ماشاء اللہ کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا۔ یقیناً یہ تاریخ کی عدالت میں ایک مستند گواہی ہے۔ ہم برسوں سے اس انگریزی محاورے کی تماشگاہ بنے ہوئے ہیں کہ کامیابی کے بیسیوں باپ ہوتے ہیں اور ناکامی یتیم رہتی ہے۔
ایسے میں اگر کارگل کی خاک کسی کے سر اور ایٹمی دھماکوں کا سہرا اپنے سر پر سجا لیا جائے تو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ یہ رسم قدیم ہے یہاں کی۔ جیسا کہ آپ نے لکھا جس دن بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے وزیراعظم نواز شریف قازقستان کے دورے پر تھے۔ انہوں نے وہیں سے آرمی چیف کو جوابی ایٹمی دھماکوں کی تیاری کا حکم دے دیا۔
جنرل کرامت نے ابتدائی ہچکچاہٹ کے بعد یہ فرمان تمام متعلقہ افراد کو پہنچا دیا جس کی گواہی لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے اپنی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک‘‘ میں دی ہے۔
میں اُن دنوں صدر محمد رفیق تارڑ کے ساتھ بطور پریس سیکرٹری کام کر رہا تھا۔ وزیراعظم نواز شریف الماتے سے واپسی کے اگلے دن صدر تارڑ صاحب سے ملنے ایوانِ صدر آئے۔ گرائونڈ فلور پر پورچ کے قریب پرنسپل سیکرٹری مہر جیون خان (مرحوم) بریگیڈیئر اکرم ساہی (ملٹری سیکرٹری) اور میں نے وزیراعظم کا استقبال کیا۔ انہوں نے ہم سے ہاتھ ملایا اور لفٹ کی طرف چلتے ہوئے کہنے لگے ’’تہاڈا کی خیال اے فیر دھماکا کریے کہ ناں؟‘‘ حفظِ مراتب کے خیال سے ہم نے ہاں یا ناں میں دو ٹوک جواب دینے کے بجائے رسمی جملے کہہ دیے۔
لفٹ میں سوار ہو کر چوتھے فلور کو جانے لگے تو میاں صاحب بولے آپ لوگ تو اس طرح گو مگو میں ہیں جیسے ہمارے سامنے دو آپشنز ہیں، یہ صرف دفاع کا نہیں عزت سے زندہ رہنے کا معاملہ ہے، ہمارے سامنے تو کوئی دوسرا آپشن ہے ہی نہیں؟ کیوں مہر جیون صاحب؟ مہر جیون نے ایک جہاندیدہ بیورو کریٹ کے انداز میں کہا ’’یقیناً سر‘‘ لفٹ کا دروازہ کھلا، سامنے صدر تارڑ کھڑے تھے، وہ وزیراعظم کو لے کر اپنے دفتر چلے گئے۔ کوئی پون گھنٹہ بعد یہ ملاقات ختم ہوئی تو میں اپنے دفتر سے اُٹھ کر صدر صاحب کے پاس چلا گیا۔
اُن کی خصوصی شفقت کے باعث میری صدر تارڑ سے کسی قدر بےتکلفی تھی۔ میں نے پوچھا ’’سر کیا فیصلہ ہوا دھماکوں کے بارے میں؟‘‘ اُنہوں نے کوئی واضح جواب دینے کے بجائے موضوع بدل دیا کہ کس طرح کا پریس ریلیز جاری کیا جائے۔ میں نے اصرار نہ کیا۔ شام کو میں صدارتی کالونی میں اپنے گھر میں تھا کہ اے ڈی سی کا فون آیا۔ ’’سر صدر صاحب یاد کر رہے ہیں‘‘۔ میں پہنچا تو مئی کی گرم شام ڈھل رہی تھی۔
صدر صاحب شاداب سبزہ زار میں دو کرسیاں اور ایک میز ڈالے بیٹھے تھے۔ اِدھر اُدھر کی دو چار باتوں کے بعد کہنے لگے آپ نے دفتر میں پوچھا تھا لیکن یہاں دیواروں کے کان بہت تیز ہیں اور شاید آنکھیں بھی ہیں۔ میں نے وہاں جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ میاں صاحب نے کامل راز داری کا کہا تھا۔ وزیراعظم نے پہلے میری رائے لی جسے آپ جانتے ہیں۔
پھر کہنے لگے الحمدللہ میری بھی یہی رائے ہے۔ ان شاء اللہ دھماکوں کا فیصلہ اٹل ہے۔ انہوں نے مجھ سے دعا کی درخواست کی اور کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے اسی ماہ کے آخر تک پاکستان ایٹمی قوت بن جائے گا‘‘۔ میں نے تارڑ صاحب کی یہ گفتگو سن کر اُنہیں مبارکباد دی۔ میں نے دیکھا کہ مردِ بزرگ کی آنکھوں میں شبنم تیرنے لگی تھی۔
آپ میاں نواز شریف کی اس عادت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ انگریزی محاورے کے مطابق اپنے پتے آخری وقت تک اپنے سینے سے لگائے رکھتے ہیں اور ہر ملنے والے سے کہتے رہتے ہیں‘‘ تہاڈا کی خیال اے (آپ کا کیا خیال ہے) ایک زمانے میں مشہور تھا کہ ان کا فوٹو گرافر ذوالفقار بلتی (مرحوم) ان کا مشیرِ اعلیٰ ہے۔
اُن کا مخاطب سنجیدگی سے سمجھتا ہے کہ میاں صاحب تذبذب کا شکار اور اس کے دانشمندانہ مشورے کے طلبگار ہیں۔ ایسا ہوتا نہیں۔ وہ ایک فیصلہ کر چکے ہوتے ہیں جس میں شاذ و نادر ہی کوئی تبدیلی آتی ہے اور جب فیصلہ سامنے آتا ہے تو کئی ’’مشیران‘‘ یہی سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب نے اُن کی دانش سے کسبِ فیض کیا ہے۔
آپ نے بالکل درست لکھا۔ مجھے ایک سے زیادہ بار سابق وزیراعظم نے بتایا کہ جنرل جہانگیر کرامت نے دھماکوں کی حمایت نہیں کی۔ وہ ایک پروفیسر کی طرح نشیب و فراز سمجھاتے، عالمی ردِعمل سے ڈراتے اور مصلحت کی راہ اختیار کرنے کی وکالت کرتے رہے۔ اُن کی دانش کا تمام تر جھکائو ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی طرف تھا۔
اب تو کہنہ مشق سینئر صحافی محمد ضیاء الدین نے بھی کہا ہے کہ انہوں نے خود بعض دوسرے صحافیوں کے ساتھ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو کہتے سنا تھا کہ دھماکوں کی قیمت بہت ہی زیادہ اور قوم کے لئے ناقابلِ برداشت ہوگی۔ بحریہ کے سربراہ ایڈمرل فصیح بخاری زیادہ واضح تھے اور پوری شد و مد کے ساتھ ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کرتے رہے۔
مسلح افواج کے تین سربراہوں میں سے صرف فضائیہ کے چیف، ایئر مارشل پرویز مہدی قریشی ڈٹ کر وزیراعظم کے ساتھ کھڑے، دھماکوں کی حمایت کر رہے تھے۔ جنرل جہانگیر کرامت دھماکوں کے چار پانچ ماہ بعد فارغ ہوئے تو ایک امریکی یونیورسٹی کے پروفیسر ہوئے۔ 2004میں وہ امریکہ میں پاکستانی سفیر بن گئے۔
آج اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اس نے راجہ ظفر الحق اور گوہر ایوب کے ساتھ مل کر ایٹمی دھماکے کئے تو ممکن ہے دنیا بھر کے رہنمائوں کے فون اُسی کو آئے ہوں۔ ممکن ہے کلنٹن نے بھی اُسے پانچ مرتبہ ترغیبات اور دھمکیاں دی ہوں اور اُس نے جوانمردی سے انکار کر دیا ہو۔
ممکن ہے صدر، وزیراعظم، موثر وفاقی وزرا، آرمی چیف اور نیول چیف کو ایک طرف دھکیلتے ہوئے، یہ مرد جری راجہ ظفر الحق اور گوہر ایوب کو ہمراہ لئے چاغی جا پہنچا ہو اور دھماکے کر ڈالے ہوں۔ بےبال و پر لوگوں کی ایسی باتوں کو، کورونا کے سنجیدہ اور رنجیدہ ماحول میں بازار کی کسی سطحی چوپال کا بےذوق لطیفہ سمجھ کے نظر انداز کر دینا چاہئے اور میر صاحب! ایک آخری بات۔
آج کارگل یتیم بچے کی طرح رُل رہا ہے جسے کوئی گود لینے کو تیار نہیں اور 28؍مئی کو ہر کوئی اپنی اولاد نرینہ ثابت کرنے کے جتن کر رہا ہے کیا تاریخ کی یہ گواہی نہیں بتا رہی کہ سطحی، کھوکھلے اور بے مغز تماشے، ٹھوس، نتیجہ خیز اور موثر فیصلوں کے مقابلے میں کس طرح رزق خس و خاشاک ہو جاتے ہیں۔
والسلام
آپ کا مخلص
عرفان صدیقی
بشکریہ روزنامہ جنگ