ان دنوں ہر کوئی ایک بات اخلاقی طور پر یا شکایت کے طور پر ضرور کہتا ہے کہ آپ ’آن لائن‘ تھے یا آپ ’آن لائن‘نہیں تھے۔اب آپ تو سمجھ ہی گئے ہوں گیں کہ میرا اشارہ کدھر ہے۔ جی! ہاں میرا اشارہ آج کے دور میں انٹر نیٹ کی مقبولیت اور اس کی ضرورت کی طرف ہے۔
آج دنیا بھر میں تقریباً لوگوں کے ہاتھ میں اسمارٹ موبائل فون کا ہونا محض ایک فیشن ہی نہیں بلکہ ایک ضرورت بھی بن گیا ہے۔ جس کے ذریعہ ہم اپنوں سے ایک پل کے لیے بھی جدا نہیں ہوتے ہیں تو وہیں اسمارٹ فون کے ذریعہ شاپنگ سے لے کر خبریں، گھر کی رکھوالی اور آفس کے کام و کاج سے بھی جڑے رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ویڈیو کی سہولت کی وجہ سے ہم ویزیول میٹنگ کے ساتھ ساتھ ہولی ڈے کے مناظر کو بھی اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے بھی شئیر کرتے رہتے ہیں۔
اگر میں اپنی بات کروں تو آپ کو حیرانی نہیں ہوگی کہ میں اپنے اسمارٹ فون کے ذریعہ کال، واٹس اپ، انسٹاگرام، فیس بک،ای میل جس میں ذاتی اور دفتر کے ای میل کے ساتھ ساتھ اور بھی دیگر اپلیکیشن کو استعمال کرتا رہتا ہوں۔ ظاہر سی بات ہے اتنے اپلیکیشن کو بیک وقت استعمال کرنا اور پھر گھر والوں کے ساتھ وقت بتانا اور دفتر کے کام و کاج پر دھیان دینا واقع ایک معمہ لگتا ہے۔ اور یہ بات سچ بھی ہے کہ ان تمام ذمہ داریوں کے باوجود کیوں کر میں سبھی کے سلام کاجواب دینا، ضروری اطلاعات فراہم کرنا، دفتر کی اہم میٹنگ میں شرکت کرنا اور
سوشل میڈیا پر فعال رہتا ہوں؟دراصل میرا ماننا ہے کہ اگر انسان چاہے تو وہ اپنے شوق اور اپنی مصروفیات سے ان تمام باتوں کے لیے اپنے کام کو ترجیح دے تو وہ روزمرہ کی زندگی میں اسمارٹ فون پر فعال رہ سکتا ہے۔لیکن اس کے لیے جدید تکنیک سے آگاہ رہنا ہوگا اور آئے دن نئے چیزوں کو جاننا ضروری ہوگا۔
میں نے اس بات کو محسوس کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں جو لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوا تھا اس میں اسمارٹ فون اور انٹر نیٹ نے کافی اہم رول نبھایا ہے۔ ہمیں اس سہولت کی وجہ سے اپنوں سے رابطہ رہا اور دوستوں کی بھی حالاحوال ملتا رہا۔ خبروں پر بھی مسلسل نظر رہی اور کورونا وائرس کے متعلق تمام اہم باتوں سے بھی جانکاری ملتی رہی۔ بلکہ برطانیہ میں جی پی(جنرل پریکٹس) ڈاکٹروں کی سرجری کے اپلیکیشن کے ذریعہ کورونا وائرس کے متعلق اہم معلومات سے آگاہ ہوتے رہے۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر دنیا بھر کے حالات اور پریشانیوں کابھی پتہ چلتا رہا۔
1918میں ’اسپینش فلو‘ ایک ایسی وبا تھی جس سے لاکھوں لوگوں نے اپنی جان گنوا دی تھی۔چونکہ یہ وبا اسپین سے شروع ہوئی تھی اس لیے اس کا نام ’اسپینش فلو‘ پڑ گیا۔ اس وبا کے پہلے شکار اسپین کے بادشاہ تھے۔ اُن دنوں پہلی جنگ عظیم جا ری تھا اور ترقی یافتہ ممالک جنگ میں زور آزمائی کر رہے تھے۔ جرمنی، امریکہ، فرانس اور برطانیہ میں اخبارات پر پابندی لگا دی گئی تھی۔کہا جاتا ہے کہ برطانوی سپاہی جو شمالی فرانس سے جنگ کے بعد برطانیہ واپس لوٹے ان کے ذریعہ ہی اسپینش فلو کا پھیلاؤ ہوا تھا۔ ان سپاہیوں میں حلق میں درد، سر درد اور بھوک نہ لگنے کی عام وجہ پائی گئی تھی۔اس کے علاوہ ڈاکٹر نے مسلسل تین دن بخار رہنے پر بھی اسپینش فلو کے آثار بتا ئے تھے۔ہسپتال مریضوں سے بھرا پڑا تھا اور اسپینش فلو لاعلاج تھا۔ اسپینش فلو سے دنیا بھر میں 5 کروڑ لوگوں نے اپنی جان گنو ا دی تھی۔برطانیہ میں 228,000
لوگ اس وبا سے مارے گئے تھے۔اب ذرا سوچے کہ 1918میں جب اسپینش فلو نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا تو کیا صورتِ حال ہوگی۔ کس طرح لوگوں کو اطلاع فراہم کیا جاتی ہوگی؟ مٹھی بھر ممالک کو چھوڑ کر زیادہ تر ممالک میں لوگوں نے کس طرح اس وبا سے محفوظ رکھا ہوگا؟اس لاعلاج بیماری سے مرتے ہوئے دیکھ کر ان رشتہ داروں پر کیا بیتی ہوگی؟ اور اُس وقت کیسا لاک ڈاؤن ہوا ہوگا؟
اس کے بر عکس اگر ہم آج کا جائزہ لے تو صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔میں انٹر نیٹ اور اسمارٹ فون کی سہولت کو خدا کا ایک خوبصورت تحفہ سمجھتا ہوں۔جس کی وجہ سے ہم اور آپ روز مرہ کی زندگی لاک ڈاؤن کے باوجود کسی حد تک گزار پا رہے ہیں۔ چاہے غریبوں کی مدد کرنی ہو، بینک کے ذریعہ پیسہ بھیجنا ہو یا اپنوں کا حال چال جاننا ہو، گویا لاک ڈاؤن کے باوجود ہمارا نظام پورے طور پر ٹھپ نہیں ہوا۔تاہم انٹر نیٹ اور اسمارٹ فون کی سہولیت کے باوجود ہم کورونا وائرس کے خوف سے نجات نہیں پا سکے۔
لاک ڈاؤن کے دوران ایک بات اور دیکھنے کو ملی،وہ ہے ویڈیو میٹنگ کا خوب انعقاد ہونا۔ اس دوران ایک نئے اپلیکشن ’زوم‘ کو لوگوں نے خوب استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ اس اپلیکشن کے ذریعہ دفاتر میں ویڈیو میٹنگ ہورہی ہے وہیں اردو ادب کے دیوانوں نے بھی زوم اپلیکشن کو استعمال کر کے اردو زبان و ادب سے محبت کی عمدہ مثال پیش کی ہے۔یہ ایک امید افزا بات ہے اور اردو زبان سے محبت کی بہترین مثال ہے۔ اس سلسلے میں مجھے سب سے پہلے مسقط میں مقیم جناب طفیل احمد کا ادارہ پی ایل جی(پوئیٹری اینڈ لیٹیریری گروپ)کا دعوت نامہ بطور شاعر اور مہمان خصوصی ملا۔ جس میں دنیا بھر کے شعرا نے شرکت کی اور اپنے کلام سے محظوظ کیا۔یہ میرا آن لائن مشاعرے کا پہلا تجربہ تھا جو کافی کامیاب رہا۔اس محفل میں مصر کی پہلی اردو شاعرہ (جن کی مادری زبان عربی ہے)ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی نے بھی اپنی نظم اور غزل پیش کی۔
اس کے بعد دنیا بھر میں آن لائن ادبی محافل اور مشاعروں کا سلسلہ شروع ہوااور زوم اور اسکائپ کے ذریعہ پروگرام ہونے لگے۔ جرمنی میں مقیم عالمی شہرت یافتہ ادیب، افسانہ نگار اور شاعر جناب سرور غزالی نے بھی آن لائن مشاعرہ اور افسانہ نویسی کا سلسلہ شروع کیا۔انہوں نے اپنی انجمن’بزمِ ادب برلن‘کے بینر تلے شام ِ افسانہ اور مشاعرے کا انعقاد کیا جس میں ناچیز کو آن لائن افسانہ نویسی اور مشاعرے میں شرکت کا شرف حاصل ہوا۔جس میں دنیا بھر کے نامور ادیبوں اورشعرا نے شرکت کی۔ یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کے بزم ِ ادب برلن کے صدر جناب علی حیدر عابدی کا تعلق ایک عرصے تک کلکتہ سے رہا اور انہوں نے اسکول کی تعلیم محمد جان ہائی اسکول سے مکمل کی تھی جس اسکول سے میں نے بھی تعلیم مکمل کی۔
جرمنی کا ہی ایک اور فعال ادارہ ’اردو انجمن برلن‘ بھی آن لائن اردو محافل سجانے میں پیچھے نہ رہا۔ اردو انجمن برلن کے صدر اور روحِ رواں معروف ادیب، صحافی، افسانہ نگار اور شاعر جناب عارف نقوی کو کون نہیں جانتا ہے۔ آپ ایک عرصے سے برلن میں مقیم ہیں اور اردو زبان و ادب کی بیش بہا خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اردو انجمن برلن کے نائب صدر جناب انور ظہیر اس کامیاب محافل کے ذمہ دار ہیں۔ انور ظہیر رہبر افسانہ نگار، کالم نویس اور شاعر ہونے کے علاوہ سائنسی معلومات میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ پچھلے ہفتے اردو انجمن برلن نے ایک اہم پروگرام کا انعقاد کیا جس میں ہندوستان کے شہر ممبئی سے تعلق رکھنے والے امتیاز گورکھپوری کی ترتیب کی ہوئی کتاب ’لفظ بولیں گے میری تحریر کے‘ جس میں انور ظہیر رہبر کے فن و شخصیت پر لکھے گئے مضامین پر دنیا بھر کے مبصرین نے اپنی تعارفی اور تفہیمی باتیں پیش کیں۔اس کے علاوہ تقریباً ہر ہفتے دنیا بھر میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے محفلوں کا انعقاد ہورہا ہے جس سے اردو زبان و ادب کے لکھاری اپنے فن کا بہترین نمونہ پیش کر رہے ہیں۔
کورونا وائرس کے خوف، لاک ڈاؤن کی اذیت اور دنیا کی مایوس صورت ِ حال سے جس طرح پوری دنیا کے لوگ بے بس اورو پریشان حال ہیں تو وہیں انٹر نیٹ اور اسمارٹ فون کی سہولت نے کچھ پل کے لیے ہمارے درمیان آن لائن محافل سے زندگی کو جینے کا حوصلہ بھی دیا ہے۔ میں اردو زبان و ادب کے اُن تمام لوگوں کو مبار ک باد دینا چاہتا ہوں جو تمام تر دشواریوں اور پریشانیوں کے باوجود اردو زبان و ادب کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں۔