میرا یہ کالم چھپنے کے عین ایک ہفتے بعد وزیر اعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے قومی اسمبلی میں آئندہ مالیاتی سال کا بجٹ پیش کرنا ہے۔ ’’نیا پاکستان‘‘ نمودار ہونے سے قبل ہمارے ہاں جو صحافت ہوا کرتی تھی ہر برس مئی کے دوسرے ہفتے سے اپنی توجہ معاشی سوالات کی جانب مبذول کرنا شروع کردیتی۔ معیشت پر نگاہ رکھنے والے ہمہ وقتی رپورٹر اپنے تمام تعلقات یہ جاننے کے لئے بھرپور انداز میں بروئے کار لاتے کہ گزشتہ برس محاصل کے حوالے سے جو اہداف طے ہوئے تھے ان کی وصولی میں کس حد تک کامیابی نصیب ہوئی ہے۔طے شدہ اہداف کے حصول میں شاذہی سو فیصد کامیابی دیکھنے کو ملتی۔ ہماری سرکار کے اخراجات میں لیکن ہر برس اضافہ ہوجاتا۔ یہ اضافہ ہر وزیر خزانہ کو خسارے کا بجٹ تیار کرنے کو مجبور کرتا رہا۔ توقع تھی کہ IMFکی مہربانی سے جو مشیر خزانہ عمران حکومت کو میسر ہوئے ہیں وہ وطنِ عزیز کو خود کفالت کی راہ پر ڈال دیں گے۔ہم ملکی اور غیر ملکی بینکوں یا اداروں سے قرض حاصل کئے بغیر مقامی طورپر اتنی رقوم جمع کرنا شروع ہوجائیں گے جو ہمارے اخراجات کے لئے کافی ہوں گی۔
ہمیں اس راہ پر چلانے کے لئے IMFنے ایک تین سالہ منصوبہ بھی تیار کیا۔اس پر کامل عملدرآمد کے لئے مشیر خزانہ کے علاوہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر بھی آئی ایم ایف ہی نے فراہم کئے۔ معیشت سے جڑے ہر کاروبار کو ’’دستاویزی‘‘ بنانے کا عہد ہوا۔ Digitalنگرانی سے مالامال سرکار نے امیددلائی کہ وہ 2019-20کے مالیاتی سال کے اختتام تک پاکستان کی تاریخ کے ’’ریکارڈ‘‘ ٹیکس جمع کرلے گی۔سیٹھوں کے لئے اپنی دولت چھپاناممکن ہی نہیں رہے گا۔
جو نسخہ تشخیص ہوا تھا اس کے اطلاق کے ابتدائی ایام میں لیکن کسادبازاری شدید تر ہونا شرو ع ہوگئی۔ کئی چھوٹے کاروبار مسلسل مندی کی وجہ سے بلکہ ٹھپ ہوتے نظر آئے۔ IMFکے علاوہ FATFنے بھی ہمیں چند ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کیا جن کی وجہ سے نقدرقوم یعنی Cashمارکیٹ سے غائب ہوتا نظر آیا۔ زمین خریدنے اور بیچنے کا دھندا تقریباََ ٹھپ ہوگیا۔ڈالر اور سونے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے تاثر یہ پھیلایا کہ سرکار سے چھپائی دولت ان دونوں کی خریداری میں صرف ہورہی ہے۔سیٹھوں نے نئے کاروبار متعارف کروانا چھوڑ دئیے۔پہلے سے موجود کاروبار میں بھی مزید پھیلائو کو وہ آمادہ نظر نہیں آئے۔ممکنہ سرمایہ کاروں کا اصرار یہ رہا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بینکوں سے قرض کی شرح سود ناقابل برداشت حد تک بڑھادی ہے۔اس میں نمایاں کمی لائے بغیر نئی سرمایہ کاری ہو نہیں سکتی۔
سٹیٹ بینک کے گورنر مگر اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔ ان کے فیصلے نے غیر ملکی سٹہ بازوں کو ہمارے ہاں Hot Moneyبھیجنے پر اُکسایا۔ تین ارب ڈالر سے زیادہ رقم جو اس ضمن میں آئی مقصد اس کا بھاری بھر کم شرح سود سے منافع کمانا تھا۔ سرکار کو مذکورہ رقوم سے مگر نام نہاد Financial Spaceمل گئی۔ وقتی طورپر وہ مطمئن ہوگئی۔دریں اثناء بجلی اور گیس کے نرخوں میں گرانقدر اضافے کے ذریعے Cost Recoveryکا عمل بھی شروع ہوگیا۔اس عمل نے متوسط طبقے کی اکثریت کو حواس باختہ کردیا۔
کساد بازاری کا موسم ابھی ختم ہی نہیں ہوا تھا اور کرونا کی وباء نازل ہوگئی۔ اس وباء نے لاک ڈائون کی راہ اختیار کرنے کو مجبور کیا۔ بازار کی رونق اس کی وجہ سے معدوم تر ہونا شروع ہوگئی۔اب لاک ڈائون ’’نرم‘‘ ہوگیا ہے۔متعدد کاروبار بتدریج بحال ہورہے ہیں۔آئندہ مالیاتی سال کا بجٹ تیار کرتے ہوئے حکومت نے مگر ابھی تک ہمیں سادہ ترین الفا ظ میں یہ بتانے کا تردد ہی نہیں کیا کہ ٹھوس اعدادوشمار کے تناظر میں ہماری معیشت کس حال میں ہے۔
ٹھوس حقائق بیان کرنے کے بجائے ہمیں تسلی دیتی Feel Goodکہانیوں کا انبارہے۔ڈھول بجائے جارہے ہیں کہ تمام تر مشکلات کے باوجود نیک دل حکومت نے کرونا سے بدحال ہوئے دیہاڑی داروں اور کم آمدنی والے ایک کروڑ سے زیادہ گھرانوں کو12ہزار روپے فی کس کی بنیاد پر امدادی رقوم سرعت سے فراہم کردی ہیں۔ہماری معیشت کے کلیدی شعبوں کو زندہ رکھنے کے لئے مختلف النوع Packageبھی تیار ہوئے ہیں۔یہ اس امر کو یقینی بنایا جارہا ہے کہ ملک میں کسادبازاری کا خاتمہ ہو۔ بے روزگاری کا سیلاب رونما نہ ہوپائے۔
ہمیں مطمئن رکھنے کو بارہا یہ کہانی بھی دہرائی جاتی ہے کہ عمران خان صاحب کی گفتگو سے متاثر ہوکر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل غریب ممالک کی معاونت کے لئے متحرک ہوگئے۔ان کے ایماء پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ہم جیسے ملکوں کے ذمہ واجب الادا قرضوں اور سالانہ شرح سود کے حصول کے ضمن میں نرمی دکھانے کو آمادہ ہوگئے ہیں۔تاثر یہ بھی پھیلایا گیا آئندہ دوسال تک ہماری حکومت کو اس ضمن میں ’’چھوٹ‘‘ مل گئی ہے۔ ہمیں واجب الادا قرضے یا ان کا سود ادا کرنے کی اس برس ضرورت نہیں۔
خلقِ خدا کو ہمہ وقت باخبر رکھنے کے دعوے دار میڈیا نے کماحقہ توجہ سے اس حکومتی دعوے کا غیر جانب داری سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ ماسوائے چند صحافیوں کے۔ میرے ساتھیوں کی اکثریت بلکہ ’’شوگرمافیا‘‘ کے بے نقاب ہوجانے سے حظ اٹھاتی رہی۔عید گزرنے کے بعد احتساب کا ٹارزن بھی متحرک ہوچکا ہے۔کامل دو روز تک وہ شہباز شریف کے تعاقب میں رہا۔ وہ پولیس سے چھپن چھپائی کھیلتے ہوئے بالآخر 17جون تک گرفتاری سے بچنے کا بندوبست کر پائے۔
دریں اثناء ہمارے ہاں ایک نسبتاََ جواں سال ساتھی شہباز رانا نے اپنی خبر اور ٹی وی پروگرام کے ذریعے یہ دعویٰ کیا کہ آئندہ مالی سال کے اخراجات پورا کرنے کے لئے ہماری سرکار کو 15ارب ڈالر کے قرض درکار ہوں گے۔اس خبر کی واضح الفاظ میں تردید نہیں ہوئی ہے۔ معاشی علم کے اعتبار سے قطعی جاہل مجھ جیسے ریٹائر ہوئے رپورٹرکو بھی لیکن یہ دعویٰ قابلِ اعتبار سنائی دیتا ہے
سوال اب یہ اٹھتا ہے کہ جس رقم کی توقع باندھی گئی ہے اس کا حصول کیسے ممکن ہوگا۔ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے رعایتی بنیادوں پر رقوم کے حصول کے لئے پاکستان سمیت دنیا کے 60سے زیادہ ممالک نے رجوع کررکھا ہے۔ان ممالک کی درخواست کا Case to Caseبنیادوں پر ابھی تک فقط جائزہ ہی لیا جارہا ہے۔کسی ایک ملک کے ساتھ ٹھوس حوالوں سے کوئی وعدہ یا Commitment نہیں ہوئی۔
غیر ملکی قرض کی بات چلے تو ہم سادہ لوح افراد کو یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنا ہوگی کہ اس قرض کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ورلڈ بینک یا IMFاس ضمن میں قطعی اجارہ کے حامل نہیں۔ان دو اداروں کے علاوہ دُنیا کے امیر ترین ممالک ہم جیسے ممالک کو براہِ راست قرضے بھی دیتے ہیں۔ان سب قرضوں سے بھی کام بنتا نظرنہ آئے تو ہم بین الاقوامی منڈی پر چھائے ’’نجی ساہوکاروں‘‘ سے قرض اٹھالیتے ہیں۔اس ضمن میں جو قرض لئے جاتے ہیں انہیں Bondsکا نام بھی دیا جاتا ہے۔
بین الاقوامی منڈی کے نجی ساہوکار گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان جیسے ممالک کو بانڈز وغیرہ کے نام پر قرض مہیا کرنے میں بہت فیاضی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ان کی ’’فیاضی‘‘ کی اصل وجہ یہ تھی کہ دُنیا کے امیر ممالک مثال کے طور جرمنی وغیرہ میں بینکوں سے لئے قرض کی شرح منافع تقریباََ نہ ہونے کے برابر تھی۔ان ممالک کے صنعت کار تقریباََ ’’مفت‘‘ نظر آتے اس قرض کو لینے کے لئے بھی لیکن آمادہ نہیں تھے۔بین الاقوامی منڈی میں Cashکی لہذا فراوانی ہوگئی۔ اسے قرض پر لینے کو مگر کوئی تیار نہیں تھا۔اس حقیقت نے ہم جیسے ممالک کو اس امر پر اُکسایا کہ ہم ’’کھلی منڈی‘‘ سے نسبتاََ مہنگی شرح سود پر قرض لینا شروع کردیں۔
مجھے ہرگز خبر نہیں کہ پاکستان نے اجتماعی طورپر اب تک بیرونی ذرائع سے جو قرض حاصل کیا ہے کہ اس میں سے بین الاقوامی منڈی پر چھائے نجی ساہوکاروں سے لئے قرض کا تناسب کیا ہے۔ اس معاملے پر غور کی ضرورت ہے۔ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے نجی ساہو کاروں سے محض یہ ’’درخواست‘‘ کی ہے کہ وہ اپنے دئیے قرضوں کی وصولی کی بابت ’’انسانی ہمدردی‘‘ سے کام لیتے ہوئے فراخدلی دکھائیں۔آخری خبریں آنے تک نجی ساہوکار مگر اس کے لئے آمادہ نہیں ہورہے تھے۔پاکستان کو نسبتاََ زیادہ شرح منافع کی وجہ سے جو Hot Moneyمیسر ہوئی تھی اس کا بے پناہ حصہ بھی کرونا کے دنوں میں یہاں سے چلا گیا ہے۔محض ورلڈ بینک اور IMFسے ممکنہ طورپر ملی رعایتیں ہمارے کام نہیں آئیں گی۔ ہمارے ہاں بازار میں رونق لگانے کو کچھ ’’نیا‘‘ کرنا ہوگا۔اس کی تلاش مگر ’’نیا پاکستان‘‘ کر نہیں رہا۔محض ’’ٹارزن کی واپسی‘‘ سے ہمارا دل بہلایا جارہا ہے۔