امریکہ کے بعد، کیا اگلی باری بھارت کی ہے؟
عوام جب ٹرمپ جیسے حکمران کا انتخاب کرتے ہیں توملک ایسے ہی المیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ‘پاپولزم‘ کی سیاست امریکہ میں اپنے نتائج دکھارہی ہے۔ اس کے انڈے بچے نکل رہے ہیں۔ فساد گلیوں اور چوراہوں تک پھیل گیا ہے۔ اگر امریکی اداروں میں جان ہو گی توملک اس بحران سے نکل آئے گا لیکن قومی وجودتو گھائل ہو چکا۔ یہ زخم کتنے جلدی بھرتے ہیں، اس کا انحصار پھر عوام پر ہے جنہوں نے اسی سال ایک نئے صدر کا انتخاب کرنا ہے۔
پاپولزم کی سیاست کیا ہے؟ یہ عوامی جذبات سے کھلواڑ کا دوسرا نام ہے۔ پاپولر سیاستدان نفرت کو ابھارتے ہیں۔ تضادات کو نمایاں کرتے ہیں۔ عوام کوسبز باغ دکھاتے ہیں۔ مسائل کو بڑھاچڑھا کرپیش کرتے ہیں اور ان کا انتہائی سادہ حل بتاتے ہیں۔ دائیں بازو کے ہوں گے تو نسلی تفاخر کو بنیاد بنائیں گے۔ بائیں بازو کے ہوں گے تو طبقاتی تقسیم کو نمایاں کریں گے۔ دونوں عوام کو تقسیم کریں گے اور نفرت کو فروغ دیں گے۔
یہ اسلوبِ سیاست وقتی ابال پیدا کرتا ہے۔ ناتراشیدہ ذہنوں کو متاثر کرتا ہے۔ ‘پوسٹ ٹرتھ‘ سے سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بناتا ہے۔ کچھ دیر کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو سلب کر لیتا ہے، فرعون کے درباری جادوگروں کی طرح۔ لوگ رسیوں کو چلتے پھرتے سانپ سمجھ لیتے ہیں۔ بس وہی فیصلے کی گھڑی ہوتی ہے۔ ایک لمحے کی غفلت قوموں کو برسوں پیچھے دھکیل دیتی ہے۔ یہی امریکہ میں ہوا ہے۔ وہاں قدیم معنوں میں کوئی امریکی قوم نہیں پائی جاتی۔ اس سرزمین کو اجنبیوں نے آباد کیا اور اس طرح کہ مقامی آبادی کوبے دخل کردیا۔ آج یہ دنیا بھر کی ذہانتوں کو جمع کرتا اور انہیں اپنی ترقی کیلئے استعمال کرتا ہے۔ ہرنسلی پہچان، مذہبی شناخت، طبقاتی تقسیم کا تصور اس کی وحدت کیلئے زہرِ قاتل ہے، اگر فطری حدود سے تجاوز کر جائے۔ اسے’میلٹنگ پاٹ‘ کہا گیا۔ جو یہاں آتا ہے، اس کا وجود پگھل جاتا ہے۔ وہ ایک نئی شناخت اختیار کر لیتا ہے۔
اس وقت سلیکون ویلی کو بھارت سے آئے لوگوں نے آباد کر رکھا ہے۔ طب کی دنیا میں پاکستانی نمایاں ہیں۔ کاروبارمیں چینی اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ کارکن اور مزدور باہر سے آئے ہے۔ میکسیکو کے لوگ سب سے زیادہ ہیں۔ دنیا کے ہرملک سے ذہین لوگ امریکہ کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں وہ ماحول ہے جو ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے۔ متنوع شناختوں کے ملک میں، جیسا امریکہ ہے، تضادات اور طبقات کی سیاست نہیں کی جا سکتی۔ اس بات کو ابراہم لنکن جیسے لوگوں نے سمجھا‘ جنہوں نے صحیح معنوں میں امریکہ کی بنیاد رکھی۔ اس طرز کی جدید ریاست کو ایک عمرانی معاہدے ہی سے چلایا جا سکتا ہے جس میں کسی کو ممتاز نہ سمجھا جائے الا یہ کہ میرٹ اسکی برتری کا فیصلہ دے۔ امریکہ میں لوگوں نے بڑی حکمت کے ساتھ کالے اور گورے کے تضاد کو کم کیا۔ مذہبی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تمام مذاہب کیلئے یکساں مواقع فراہم کیے۔
تاہم کوئی معاشرہ کبھی مثالی نہیں بن سکتا۔ اس میں تضادات موجود رہتے ہیں۔ کچھ حقیقی اور کچھ وہ جو پیدا کر دیے جاتے ہیں۔ قومی قیادت، وہ سیاسی ہو، مذہبی ہو یا سماجی، ان پر نظر رکھتی ہے اور انہیں حدِ اعتدال سے آگے نہیں جانے دیتی۔ مثال کے طور پر امریکہ میں جب باہر سے با صلاحیت لوگ آئے تومیرٹ کے ذریعے اہم مناسب تک پہنچے۔ اس سے مقامی لوگوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ ان کا استحقاق تھا۔ اس کے ساتھ، وسائل کی فراوانی کا ایک نتیجہ تساہل ہے، جو عربوں میں بھی ہے۔ ملکوں کو چلانے کیلئے متحرک لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں دوسرے ممالک سے آنے والے ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ آج قیادت اگر صاحبانِ بصیرت کے ہاتھ میں ہوتی تو وہ اصل وجوہ کا سراغ لگاتے اورپھر ان کا حل تلاش کرتے۔
لیکن ہر معاشرے میں کچھ ٹرمپ بھی ہوتے ہیں۔ وہ ایسے موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں جب وہ بروئے کار آئیں اور تضادات کو ابھاریں۔ وہ کبھی نسلی تفاخر کا جھنڈا اٹھا لیتے ہیں۔ کبھی طبقاتی تقسیم کوابھارتے ہیں۔ کبھی کرپشن کو سب سے بڑا مسئلہ بناکر پیش کرتے ہیں۔ کبھی مذہبی اختلاف کو نمایاں کرتے ہیں۔ یہ تضادات اور مسائل ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں لیکن ایک تناسب کے ساتھ۔ پاپولسٹ ان کے سائز کو بڑا کرکے دکھاتے ہیں۔ پوسٹ ٹرتھ سے انہیں معاشرے کا اصل مسئلہ بنا دیتے ہیں۔
ٹرمپ نے امریکی معاشرے میں گورے کے احساسِ برتری کو ابھارا۔یہ اُسی وقت ممکن تھا جب آپ غیرگوروں کے خلاف نفرت کو ہوا دیں۔ یہ افریقہ نژاد امریکی ہو ں یا میکسیکو اور دوسرے ممالک سے آنے والے، ٹرمپ نے ان میں ایک احساسِ عدم تحفظ پیدا کر دیا۔ ہدف انتخابات جیتنا تھا۔ اسے اس سے غرض نہیں تھی کہ امریکی معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ اثرات سامنے آنے لگے ہیں۔
آج یہ امریکی اداروں کا امتحان ہے کہ وہ ملک کو ٹرمپ کی سیاست کے اثرات سے کیسے بچاتے ہیں۔ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف، جنرل مارک ملے کی طرف سے ایک خط جاری ہوا ہے جس میں افواج کے سربراہوں کویاد دلایا گیا ہے کہ ان کی اصل وفاداری کسی فرد سے نہیں،آئین اور قانون سے ہے۔ یہ امریکہ کیلئے نیک شگون ہے۔ جس ملک میں افواج اس طرح آئین کی وفادار ہوں، وہاں سیاسی انتشار تادیر قائم نہیں رہتا۔ یہ اب امریکہ کی سیاسی جماعتوں کا بھی امتحان ہے۔ کیا ریپبلکن ایک بار پھر ٹرمپ کو موقع دیں گے کہ وہ نفرت اور تفرقہ بازی کی سیاست کو جاری رکھے؟ کیا ڈیموکریٹس امریکہ کو بہتر متبادل فراہم کر سکتے ہیں جو اس کے تنوع سے ہم آہنگ ہو؟ ان سوالات کے جواب اگلے انتخابات میں ملیں گے۔ امریکی میڈیا البتہ ناکام ہو گیا۔ اس کی فطرت وہی ہے:کاروباری۔
پاپولزم کے تجربات کچھ اور ممالک نے بھی کیے جن میں بھارت اور پاکستان بھی شامل ہیں۔ مودی نے بھی اسی طرح نفرت کی سیاست کی۔ انہوںنے مذہبی اختلافات کو ابھارا۔ اس کے نتائج بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ امریکہ تو شاید سنبھل جائے کہ اس کے اداروں میں جان دکھائی دیتی ہے لیکن بھارت میں اگر مودی سیاست کا چلن باقی رہا تو اس کے لیے سنبھلنا مشکل ہو جائے گا۔ بھارت کے مستقبل کا انحصار دو باتوں پرہے۔ ایک یہ کہ وہاں کی فوجی قیادت کسی ہنگامی صورتِ حال میں آئین کے ساتھ کھڑی رہتی ہے یا نفرت کے ساتھ۔ دوسرا یہ کہ بھارت کے عوام میں اس کی سیکولر بنیاد پر یقین رکھنے والے کتنے ہیں؟ اگر وہ تعداد میں زیادہ ہوئے تومودی سیاست کی پیش قدمی رک جائے گی۔ بصورتِ دیگر بھارت کو متحد رکھنامشکل ہو جائے گا۔ نفرت کی سیاست اس کو ٹکڑوں میں بانٹ دے گی۔
پاکستان میں بھی پاپولزم کا تجربہ کیا گیا۔ 2018ء کے انتخابات اسی بنیاد پر ہوئے۔ یہ سیاست اپنے رنگ رکھا رہی ہے۔ قوم میں انتشار پہلے سے زیادہ ہے۔ نفرت کو مسلسل فروغ دیا جا رہا ہے۔ چن چن کے ایسے لوگوں کوترجمانی کا فریضہ سونپا جا رہا ہے جن کی منہ میں زبان نہیں، زہر بھرے تیر ہیں۔ حکومت کو اس سے رتی برابر دلچسپی نہیں کہ قوم میں وحدت پیدا ہو۔ میرے لیے یہ باور کرنا ممکن نہیں کہ امریکہ اور بھارت میں پاپولزم کے اثرات کچھ اور ہوں اورپاکستان میں کچھ اور۔میں دعا ہی کر سکتا ہوں کہ یہ سلسلہ آگے بڑھنے نہ پائے۔ یہ دعا کرتے وقت لیکن مجھے نواب زادہ نصراللہ خان یاد آرہے ہیں:
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے