بول میاں شہباز، کتنا پانی؟
بقول شخصے شہباز شریف لندن سے لوٹنے کے بعد ایک کونے میں بیٹھے دہی کیساتھ کلچہ کھا رہے تھے، نہ کوئی ہنگامہ، نہ کوئی جلسہ اورنہ جلوس۔ گھر میں بیٹھے لیپ ٹاپ کے ذریعے وہ کورونا کے اعداد و شمار دیکھتے اور کڑھتے تھے۔
نہ وہ پارلیمان کے اجلاس میں گئے، نہ پارٹی کو متحرک کیا، لہجہ دھیما رکھا، دبائو کے دنوں کو خاموشی سے گزارنے کا سوچا مگر اُن کے حریف اُن کی صلح پسندانہ خاموشی پر شک کا اظہار کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ لندن سے شہباز شریف کی واپسی کے پیچھے ضرورکوئی ڈیل ہے، کسی نے اشارہ دیا ہوگا، تبھی تو وہ واپس آئے ہیں۔
غرضیکہ جتنے منہ اُتنی باتیں۔ یہ بھی کہا جانے لگا کہ شہباز کو واپس ہی اِس لئے لایا گیا ہے کہ عمران پر سیاسی دبائو بڑھا یا جائے۔ اِن شکوک کا ثبوت تو کوئی نہیں تھا مگر حریف چاہتے تھے کہ شہباز شریف کا امتحان لیا جائے، دیکھا جائے کہ وہ خالی تالاب میں کھڑے ہیں یا پھر کتنے پانی میں ہیں۔
یوپی کے شاعر رئیس فروغ نے بچوں کیلئے نظم لکھی ’’ہرا سمندر، گوپی چندر؍ بول میری مچھلی کتنا پانی‘‘، یہی بچکانہ سوال شہباز کو گرفتار کرنے میں پنہاں ہے، بول میاں شہباز، کتنا پانی؟
شہباز شریف کو اندازہ تو ہوگا کہ وقت کے تیور بدلے ہوں تو دوستیاں، تعلق اور واسطے کمزور پڑ جاتے ہیں، اِنہیں پہلے بھی تلخ تجربات ہیں، کونسی رعایت ملی ہے، جانشین بیٹا حمزہ مسلسل قید میں ہے، شہباز شریف اپنے ہر انٹرویو میں اہلِ سیاست اور اہلِ طاقت کے مل کر چلنے کی بات کرتے ہیں مگر بدلے حالات میں اُن سے دوستی کون نبھائے؟
تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کی طاقت کا طوطی بول رہا ہے، وہ جسے چاہتی ہے پکڑ لیتی ہے، سب ادارے اُس کی آئینی اور سیاسی برتری کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، کوئی بھی حکومت کے راستے میں رکاوٹ بننے کو تیار نہیں۔ دورکونے میں بیٹھے شہباز شریف کو گرفتار کرنے کا منصوبہ بنایا تو وہ بھی امتحان کیلئے تیار ہو بیٹھے۔
اُن کے حریف چاہتے تھے کہ عدالتی عبوری ضمانت سے پہلے ہی گرفتار کر لیا جائے، شہباز شریف نے وقتی طور پر اپنے کارڈز اچھے کھیلے، 17جون تک عبوری ضمانت لے کے سیاسی ہنگامہ بھی کر لیا اور پہلے امتحان میں حریف کے وار سے بھی بچ نکلے مگر یہ وار آخری نہیں تھا، شہباز شریف کو ابھی اور امتحانوں سے گزرنا ہوگا۔
شہباز شریف کی گرفتاری کے سیاسی مضمرات کا جائزہ لینا ہو تو ہمیں تین امکانات پر غور کرنا ہوگا۔
پہلا امکان یہ ہے کہ شہباز شریف کی ضمانت منسوخ ہو جائے اور نیب اُنہیں گرفتار کر لے۔ دور و نزدیک سے اُنہیں کوئی امداد نہ ملے اور یوںوہ نیب بھگتیں۔ اِس کا سیاسی مطلب یہ ہوگا کہ تحریک انصاف کی حکومت کو مستقبل قریب میں کوئی سیاسی خطرہ لاحق نہیں، یوں شہباز شریف کے پیچھے سرے سے کوئی ہے ہی نہیں والا معاملہ ثابت ہو جائے گا، شہباز شریف کے مفاہمانہ بیانیے سے ہوا نکل جائے گی، ن لیگ میں پھر سے جارحانہ بیانیے کو فروغ ملے گا۔
مریم خاموش ہیں مگر سب کو علم ہے کہ جس دن وہ باہر نکلیں گی بڑے ہجوم اُن کا استقبال کریں گے۔ تحریک انصاف کے حکمت کار چاہیں گے کہ اُن کامقابلہ ن لیگ کے اِس جارحانہ بیانیے سے ہو جسے ریاست پسند نہیں کرتی تاکہ تحریک انصاف کیلئے ریاست کی حمایت جاری رہے۔
شہباز شریف اپنی پارٹی کو مفاہمانہ بیانیے کے ذریعے ریاست کیلئے قابلِ قبول بنوانا چاہتے ہیں،البتہ اپنے بھائی کو بیرونِ ملک لیجانے پر اُنہیں جارحانہ بیانیے والے بھائی سے داد تو ملی ہوگی۔ شہباز شریف کی(ممکنہ) گرفتاری اُن کے اسی مفاہمانہ سیاسی بیانیے کا امتحان ہو گی۔
دوسرا امکان یہ ہے کہ شہباز شریف کا برسوں کا ’’کھٹیا وٹیا‘‘ کام آ جائے، کوئی غیب سے اُن کی مدد کو آ جائے اور وہ گرفتاری سے بچ جائیں۔ اِس صورتحال کا اگرچہ امکان بہت کم ہے مگر اِسے سرے سے رد نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا ہوا تو شہباز شریف کا بول بالا ہو جائے گا اور وہ سینہ تان کر کہہ سکیں گے کہ اب وہ ریاست کیلئے قابلِ قبول ہیں۔
تیسرا امکان یہ ہے کہ شہباز شریف گرفتار ہو جائیں اور اُن کے مہربان فی الحال مصلحت کے تحت خاموش رہیں۔ شہباز شریف کو امتحان سے گزرنے دیں، اُن کی مظلومیت کو پھیلنے دیں تاکہ کچھ عرصے بعد اُن کے اِس اثاثے کیلئے نرم گوشہ پیدا ہو جائے اور یوں یہ قید شہبازکیلئے اگلے اقتدار کا زینہ بن جائے۔
شہباز شریف چاہیں یا نہ چاہیں اُنہیں اِن تینوں میں سے ایک امکان کا سامنا کرنا پڑے گا، اب وہ کونے میں بیٹھ کر دہی کیساتھ کلچہ نہیں کھا سکتے بلکہ اُنہیں چوک میں آ کر اپنی خفیہ یا ظاہری سفارتکاری کو بروئے کار لانا ہی پڑے گا۔اپنے کارڈز دکھانا ہی پڑیں گے۔
تاریخ کے کچھ واقعات عجیب ہوتے ہیں، واقعہ رونما ہونے کے بعد اُس کے اثرات تادیر محسوس کیے جاتے ہیں، شہباز شریف کے وارنٹ گرفتاری سے پہلے سیاست ٹھہرے پانی کی طرح تھی، کسی جوار بھاٹے کا امکان تک نہیں تھا مگر وارنٹ گرفتاری نے سیاست کے ٹھہرے پانی میں پتھر ماردیا ہے، اب لازماً شہباز شریف اور ن لیگی بھی متحرک ہوں گے۔
تحریک انصاف کی حکومت بہت مضبوط ہے، سب ایک صفحے پر ہیں، ملک کے بڑوں نے اِس بار عید بھی اکٹھے نتھیا گلی میں گزاری ہے اسی لئے تحریک انصاف نے سیاست کے ٹھہرے پانی میں پتھر پھینک کر کوشش کی ہے کہ شہباز شریف کا اصلی وزن چیک کر لیں۔
بظاہر تحریک انصاف کی سیاسی چال کارگر ثابت ہو سکتی ہے اور شہباز شریف کے پیچھے کھڑے ہونے والے غائب ہو سکتے ہیں لیکن اگر کم امکان رکھنے والا واقعہ ہو گیا یعنی شہباز شریف کو غیب سے مدد آ گئی تو پھر وہ واقعی متبادل کے طور پر سامنے آ جائیں گے یوں یہ چال مہنگی بھی پڑ سکتی ہے، پھر تاریخ میں یہ کہا جائے گا کہ جب سب ٹھیک چل رہا تھا تو پنگا کیوں لیا تھا؟ شہباز شریف کتنے پانی میں ہیں، یہ چیک کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟
جو بھی سوچیں، جو بھی کہیں، اِس معاملے کا جو بھی نتیجہ نکالیں، اب میدان سج چکا، صفیں بچھ چکیں۔ اب تحریک انصاف، ن لیگ کے مفاہمانہ لیڈر کو چیلنج کر چکی۔ دیکھتے ہیں تحریک انصاف خود کو ریاست کے زیادہ قریب ثابت کر پائے گی یا پھر ن لیگ کا مفاہمانہ لیڈرشہباز شریف…