‘ٹڈی پکڑو، پیسے لو’: اوکاڑہ میں ٹڈی کے خاتمے کے لیے یہ انوکھا طریقہ حکومت نے کیوں استعمال کیا؟
رواں برس جب ٹڈی دل پاکستان میں داخل ہوا تو ضلع اوکاڑہ ان علاقوں میں سے ایک تھا جہاں اس نے سب سے پہلے حملہ کیا۔ پپلی پہاڑ میں جنگل اور اس کے آس پاس کی فصلوں کو اس نے پہلے نشانہ بنایا۔
علی شیر اس روز کھیتوں میں کام کر رہے تھے جب ٹڈی کے حملے کا شور مچا۔
گاؤں والے جمع ہو گئے، کسی کے ہاتھ برتن لگا تو کسی کے ہاتھ پیتل کا ڈبہ اور دیہاتی ٹڈیوں کو بھگانے کے لیے اپنے کھیتوں میں پھیل گئے۔
علی شیر کہتے ہیں ’ہم نے بڑا زور لگایا مگر ٹڈی وہاں سے اڑ کر پھر ادھر ہی بیٹھ گئی‘۔
وہ چھوٹے کاشتکار ہیں ان کے لیے تھوڑا بہت نقصان برداشت کرنا بھی مشکل تھا۔ ‘جب وہ بیٹھ گئی تو پھر اس نے ہماری فصلوں کو تباہ کر دیا۔ میرے پانچ ایکڑ تھے جن میں چار پر گندم کاشت کی ہوئی تھی جو وہ سارے کھا گئی۔’
یہ مارچ کے مہینے کی بات ہے اور اس وقت ٹڈیوں کے لیے یہ علاقہ انتہائی سود مند ثابت ہوا۔ رات کے وقت وہ جنگل میں اتر جاتی تھیں اور دن نکلنے کے بعد آس پاس کے کھیتوں میں گھس کر فصلیں کھا جاتی تھی۔
یہ ریتلا علاقہ ہے تو یہاں اس نے انڈے بھی دینا شروع کر دیے۔
محکمۂ جنگلات کے حکام کے مطابق لگ بھگ تین ہزار سے زائد ایکڑ رقبہ ٹڈی کے حملے کی زد میں آیا۔
گلزار احمد کے تین ایکڑ جو انھوں نے ٹھیکے پر لے رکھے تھے وہ بھی اس میں شامل تھے۔ ان کی تمام تر گندم ختم ہو گئی۔ علی شیر کی طرح انھیں بھی پریشانی یہی تھی کہ اب آمدن کہاں سے ہو گی۔
وہ کہتے ہیں ’ٹڈی دل جب اڑتا تھا تو یوں محسوس ہوتا تھا بادل تیرتا پھر رہا ہے۔‘ ایسی آفت سے وہ کیسے چھٹکارا پا سکتے تھے؟
پھر انھیں معلوم ہوا کہ ٹڈی کو پکڑا بھی جا سکتا ہے اور اس کے عوض انھیں پیسے بھی مل سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی سرکاری ادارے اوکاڑہ آ گئے تھے اور ٹڈی کو ختم کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے تھے۔
ان میں وفاقی وزارت غذائی تحفظ سے منسلک نباتات کے تحفظ کا محکمہ بھی شامل تھا جس نے علی شیر اور علاقے کے کاشتکاروں کو ٹڈی پکڑنے کی ترغیب دی۔
انھیں کہا گیا کہ اگر وہ ٹڈی پکڑ کر لاتے ہیں تو ہر ایک کلو ٹڈی پر انھیں 15 روپے دیے جائیں گے۔
محکمے نے وہاں ایک کیمپ لگایا جہاں وزن کرنے کا کانٹا بھی موجود تھا اور وہیں کاشت کاروں کو پیسوں کی ادائیگی بھی ہونا تھی۔
گلزار احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘انھوں نے کہا کہ آپ زندہ ٹڈی پکڑ کر لائیں ہم آپ کو پیسے دیں گے۔ فصل تو ہماری اس نے پہلے ہی تباہ کر دی تھی اب کہیں سے پیسے تو کمانے تھے۔ تو ہم نے ٹڈیاں پکڑنا شروع کر دیں۔’
ٹڈی پکڑی کیسے گئی؟
علی شیر کی طرح گلزار احمد کے بھی خاندان کے تمام افراد ٹڈیاں پکڑنے کی کوشش میں شامل ہو گئے تاکہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں انھیں پکڑا جا سکے اور انھیں زیادہ پیسے مل سکیں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اسے پکڑا کیسے جائے؟
ٹڈی قریب جانے پر اڑ جاتی تھی اور ایک بار اڑ گئی تو اسے پکڑنا بہت مشکل تھا۔ پھر سرکاری ماہرین نے انھیں اس کا بھی حل بتایا۔
اوکاڑہ کے ضلعی فاریسٹ آفسر گوہر مشتاق نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹڈی پکڑنے کے لیے بہترین وقت عشا کے بعد یا پھر علی الصبح کا تھا جب یہ زمین پر پڑی ہو اور اس وقت وہ انتہائی سست ہوتی ہے۔
‘اس وقت آپ آرام سے جھاڑو وغیرہ کے ساتھ اس کو کسی بوری میں ڈال سکتے ہیں۔ اس کے بعد جوں جوں درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو جاتا ہے تو ٹڈی اڑنا شروع کر دیتی ہے اور اس کے بعد اسے پکڑنا بہت مشکل ہے۔’
‘ٹڈی تو آسان تھی، ساتھ سانپ بھی تو تھے’
پپلی پہاڑ کا علاقہ پاکستان اور انڈیا کی سرحد سے زیادہ دور نہیں۔ یہاں جنگل کافی گھنا اور وسیع رقبے پر پھیلا ہے۔ ٹڈی کو پکڑنے کے لیے زیادہ تر اس کے اندر گھسنا پڑتا تھا۔
گلزار احمد، ان کے بچوں اور چند رشتہ داروں نے مل کر ٹڈی کو پکڑنے کی مہم کا آغاز کیا۔
وہ کہتے ہیں ٹڈی پکڑنا تو آسان ثابت ہوا لیکن جنگل میں صرف ٹڈی تو نہیں تھی۔ ‘جنگل میں تو سانپ اور دوسرے حشرات بھی تھے۔ ہمیں خوف تو محسوس ہوتا تھا لیکن ڈرتے مرتے ہم نے ٹڈی پکڑی اور بیچی۔ غریب لوگ ہیں، اور کیا کرتے۔ فصل وہی تھی جو وہ پہلے ہی کھا گئی تھی۔’
گلزار احمد اور ان کے ساتھی نو سے دس من کے قریب ٹڈی پکڑنے میں کامیاب ہو گئے اور اس کے عوض انھیں تقریباً سات ہزار روپے ملے۔
علی شیر نے بھی پانچ ہزار روپے کمائے۔ فصل تباہ ہونے سے جو ان کا نقصان ہوا یہ اس کے عوض بہت کم تھا۔ ‘پھر بھی کچھ نہ ہونے سے بہتر کچھ تو تھا۔’
حکومت کو کتنی ٹڈی ملی؟
وہ اور بھی پکڑتے لیکن ٹڈی نے اس علاقے میں انڈے دے دیے تھے جن میں بڑی تعداد میں بچے نکلنے شروع ہو گئے اور گلزار احمد کے مطابق ان کو تلف کرنے کے لیے حکومتی اداروں نے وہاں کیڑے مار زہر کا سپرے کر دیا۔ ‘اس کے بعد انہوں نے ٹڈی خریدنا بند کر دی تھی۔’ یعنی وہ ایسی ٹڈی نہیں خرید سکتے تھے۔
ضلعی فاریسٹ آفسر گوہر مشتاق کے مطابق کاشکاروں نے 15 روپے فی کلو کے حساب سے 700 من کے قریب ٹڈی محکمہ تحفظِ بناتات کو چند دنوں میں بیچی تھی۔ یعنی اس حساب سے حکومت نے تقریباً چار لاکھ سے زیادہ روپے ٹڈی خریدنے پر خرچ کیے تھے۔
لیکن حکومت نے کیوں پکڑوائی اور یہ کہاں گئی؟ اس تمام مہم اور اس پر پیسہ خرچ کرنے کا حکومت کو کیا فائدہ ہوا اور پکڑی گئی ٹڈی کا کیا مصرف تلاش کیا گیا؟
‘ٹڈی سے مرغیوں کی خوراک بنائیں گے’
گلزار احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ سرکاری محکمے کو لوگوں نے انھیں بتایا تھا کہ وہ ٹڈی کو مرغیوں کی خوراک بنانے میں استعمال کریں گے۔
نباتات کے تحفظ کے وفاقی ادارے ڈی پی پی کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل محمد طارق خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اوکاڑہ سے پکڑی گئی ٹڈی ان کے محکمے کے پاس موجود تھی اور کوشش کی جا رہی تھی کہ اسے مرغیوں کی خوراک بنانے والے ادارے استعمال کریں۔
‘یہ ایک آزمائشی پراجیکٹ تھا جس کا پہلا مرحلہ اوکاڑہ میں آزمایا گیا۔ ان دنوں ٹڈی پنجاب میں صرف اوکاڑہ میں موجود تھی۔’
طارق خان کے مطابق اس مہم سے دو مقاصد حاصل کیے گئے۔ ایک تو کسی حد تک ٹڈی کو ختم کرنے میں مدد ملی اور دوسرا مقامی آبادی کے لوگوں کو ٹڈی ختم کرنے کی کوششوں میں جصہ دار بنایا گیا۔
‘اس طرح انھیں اس مسئلے کے حوالے سے آگاہی بھی ملی اور وہ خود اس کو تلف کرنے کی کوشش میں شامل ہو گئے۔’
تاہم یاد رہے کہ ٹڈی دل میں لاکھوں نہیں کروڑوں کی تعداد میں ہوتی ہیں۔ ان میں سات سو من پکڑی جانا کچھ زیادہ نہیں تھا۔
طارق خان کے مطابق اس طریقہ کار سے جتنی ٹڈی کو ختم کیا گیا، ٹڈی کے تدارک کی مجموعی مہم میں اس کا حصہ پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہو گا۔
‘ٹڈی میں موجود پروٹین مرغیوں کی خوراک کا اہم جزو ہے’
ڈی پی پی کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل محمد طارق خان کا استدلال تھا کہ اگر مرغیوں کی خوراک بنانے والے ادارے اس میں حصہ دار بن جائیں تو اس طریقہ کار سے نہ صرف ٹڈیوں کو بڑے پیمانے پر ختم کیا جا سکتا ہے بلکہ کاشتکار، حکومت اور مرغیوں کے کاروبار کرنے والوں کو بھی فائدہ ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ ‘ٹڈی کے اندر کافی تعداد میں پروٹین موجود ہوتی ہے جسے نکال کر جانوروں یا مرغیوں کی خوراک میں پروٹین کو اہم جزو کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔’
‘یہ ایسا ہی ہے جیسے آئل سیڈ یعنی روغنی بیج کو نچوڑ کر مواد نکال لیا جاتا ہے جسے ’پروٹین مِیل‘ کہا جاتا ہے۔
پاکستان کی درآمدات میں دوسرا بڑا بل یا خرچہ سیڈ آئل پر ہوتا ہے۔’
اس پروٹین کو جانوروں اور خصوصاً صنعتی بنیادوں پر پالے جانے والے جانوروں کی خوراک میں استعمال کیا جاتا ہے۔
ٹڈی اس کا سستا نعم البدل ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے اس میں سے پروٹین کو علیحدہ کرنا ہو گا اور پھر اسے مرغیوں کی خوراک بنانے کے جزو کے طور پر استعمال کیا جا سکے گا۔
مگر کیا ٹڈی مستقل دستیاب ہو گی؟
مرغیوں کی خوراک بنانے والوں کو سیڈ آئل کے مقابلے میں ٹڈی کے استعمال کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ٹڈی آج ہے کیا پتا کل کو نہ ہو۔ ایسے میں اس میں سے پروٹین کو علیحدہ کرنے کے لیے مشینری وغیرہ لگانے کا خرچ وہ کیوں کریں گے؟
ڈی پی پی کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل محمد طارق خان کے مطابق ٹڈی دل کی حالیہ افزائش اور اس کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ دو تین سال تک وہ شاید یہیں آس پاس موجود رہے گی۔
‘اگر مرغیوں کی خوراک بنانے والے ادارے براہِ راست کاشتکار سے ٹڈی کو خریدنا شروع کریں تو اگلے چند سال تک انہیں پروٹین میل کا سستا ذریعہ میسر ہو سکتا ہے۔ اس طرح سب کا فائدہ بھی ہو گا۔’
ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے کئی اداروں سے ان کی بات چیت جاری ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ طریقہ کار صرف فصلوں والے علاقوں میں سود مند ثابت ہو گا۔ ٹڈی زیادہ تر صحرائی علاقوں میں رہتی ہے اور وہاں اس کو مارنے کے دیگر طریقے استعمال کرنا ہوں گے۔ تاہم فصلوں والے علاقوں سے اسے پکڑنے کے لیے لوگ موجود ہوں گے۔
اوکاڑہ کے محمد طاہر بھی ان میں سے ایک ہیں۔ انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ ٹڈی بک رہی تھی۔ انہوں نے پکڑ کر چھوڑ دی۔ ‘ہم نے تو ٹرالے بھر بھر کر پیچنی تھی۔ ادھر تو اتنی زیادہ آئی تھی، ہر طرف اڑتی پھر رہی تھی۔’