پاکستانی سوشل میڈیا پر اپنے متنازع بیانات سے حال ہی میں دوبارہ خبروں میں آنے والی امریکی شہری سنتھیا رچی کی جانب سے ایک ویڈیو میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں پر ریپ اور تشدد کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
سنتھیا نے جمعے کی شام فیس بک پر اپنے ویڈیو پیغام میں الزام عائد کیا کہ سنہ 2011 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اس وقت کے وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے انھیں ریپ کیا جبکہ اس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کی کابینہ کے رکن مخدوم شہاب الدین نے انھیں جسمانی طور ہر ہراساں کیا۔
رحمان ملک کی جانب سے تو تاحال ان الزامات پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انھیں پیپلز پارٹی کی جانب سے سنتھیا کے خلاف قانونی کارروائی کا ردعمل قرار دیا ہے۔
خیال رہے کہ حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے پاکستانی سوشل میڈیا پر فعال غیر ملکی خاتون سنتھیا رچی کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ میں درخواست جمع کروائی ہوئی ہے۔
یہ درخواست سنتھیا رچی کی جانب سے ملک کی سابق وزیر اعظم اور پاکستانی پیپلز پارٹی کی سابق سربراہ بینظیر بھٹو کے خلاف ’توہین آمیز اور بہتان پر مبنی‘ ٹویٹس کرنے پر دائر کی گئی ہے۔
اس واقعے کے بعد سے سنتھیا رچی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان الفاظ کی جنگ چل رہی ہے۔
سنتھیا رچی نے فیس بک لائیو کے دوران کیا الزامات لگائے ہیں؟
سنتھیا رچی نے جمعہ کو فیس بک لائیو اور پھر ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں دعویٰ کیا کہ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے مبینہ طور پر اپنی سرکاری رہائش گاہ پر ان کا ریپ کیا تھا۔ ان کے مطابق یہ واقعہ سنہ 2011 میں اس وقت پیش آیا جب وہ اہنے ویزے سے متعلق بات چیت کے لیے منسٹرز انکلیو میں وزیر داخلہ کے گھر گئی تھیں۔
’میں سمجھی تھی کہ یہ ملاقات میرے ویزے سے متعلق ہے لیکن مجھے پھول اور نشہ آور مشروب دیا گیا۔ میں چپ رہی، پی پی پی کی حکومت میں پی پی پی کے وزیر داخلہ کے خلاف میری مدد کون کرتا؟‘
سنتھیا رچی کا دعویٰ ہے کہ یہ واقعہ اسی وقت کے آس پاس پیش آیا تھا جب ایبٹ آباد میں القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کی ہلاکت ہوئی تھی اور پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سازگار نہیں تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے سنہ 2011 میں اپنے ساتھ پیش آنے والے مبینہ واقعے سے متعلق امریکی سفارت خانے میں کسی کو بتایا تھا لیکن امریکہ اور پاکستان کے تعلقات اتنے پیچیدہ تھے کہ انھیں ملنے والا ’ردعمل زیادہ مناسب نہیں تھا۔‘
انھوں نے اپنے ویڈیو پیغام کے آغاز میں متنبہ کیا کہ جو معلومات وہ بتانے والی ہیں وہ ایسی ’حساس نوعیت‘ کی ہیں کہ صرف بالغ افراد ہی ان کی نشریات کو دیکھیں۔
سنتھیا رچی کا کہنا تھا کہ گذشتہ کئی روز سے جو کچھ ہو رہا ہے ’درحقیقت اس جنگ کی وجہ وہ ٹویٹ نہیں بلکہ وہ افراد ہیں جو جانتے ہیں کہ میرے پاس اس ملک کے بہت سارے لوگوں کے بارے میں بہت کچھ ہے۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ گذشتہ چند دنوں میں انھوں نے جو کچھ ٹوئٹر پر شیئر کیا ہے اس کے ان کے پاس شواہد موجود ہیں۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ انھیں جان سے مارنے اور ریپ کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔
سنتھیا رچی نے الزام عائد کیا کہا کہ اِن دھمکی آمیز پیغامات میں سے کئی نمبر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت کے ہیں اور وہ بظاہر پیپلز پارٹی کے حمایتی تھے اور ساتھ ہی وہاں کی حکومتوں کا شکریہ ادا کیا کہ وہ ’فوری اور بروقت ان معاملات سے نمٹ رہے ہیں۔‘
فیس بک لائیو کے بعد سنتھیا رچی نے اپنے ٹوئٹر پر کہا کہ ان کے منگیتر نے ان کو یہ سب باتیں کرنے کا حوصلہ دیا ہے۔ سنتھیا رچی کا کہنا ہے کہ ’میری ایک شاندار آدمی سے منگنی ہوئی ہے۔ اس نے مجھے حوصلہ دیا کہ میں بولوں تاکہ ہم ایک جوڑے کے طور پر آگے بڑھ سکیں۔‘
انھوں نے ٹوئٹر پر کہا کہ اور بھی بہت کچھ ہے اور وہ قانون کے مطابق تحقیق کاروں سے ملنے کے لیے تیار ہیں۔ ’اور بھی بہت کچھ ہے۔ لیکن اب مجھے آرام اور اپنے منگیتر کے ساتھ تنہائی میں کچھ دن چاہییں۔ میں تھک گئی ہوں۔‘
انھوں نے پیپلز پارٹی کے لیڈر بلاول بھٹو زرداری کو ٹیگ کر کے اپیل کہ کہ ’اپنے لوگوں سے کہیں کہ میری فیملی کا پیچھا چھوڑ دیں۔‘
فیس بک لائیو کے دوران پیپلز پارٹی کی جانب سے اپنے خلاف دائر کی گئی درخواست پر انھوں نے کہا کہ گذشتہ ہفتے انھوں نے بھی ایف آئی میں ایک درخواست دی ہے اور وہ ڈائریکٹر جنرل کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہیں اور انھوں نے پیپلز پارٹی کی جانب سے اپنے خلاف دائر کی گئی درخواست کے تحقیقاتی افسر کو بدلنے کی درخواست کی ہے۔
اس کی وجہ بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جب میں ایک سفارت کار کے ساتھ ان سے ملنے گئی تو تحقیق کار غیر جانب دار نہیں تھا۔۔۔ اور اس کا رویہ میرے ساتھ جارحانہ تھا۔‘
فیس بک لائیو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ دس برس قبل پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے مدعو کیے جانے پر ہی پاکستان آئی تھیں۔ ان کا مزیید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ان کی کردار کشی کرتی آئی ہے اس لیے وہ خود ہی صحافیوں سے بات کر کے انھیں بتا دیں گی کہ وہ کون ہیں۔
یوسف رضا گیلانی کا موقف
سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اس الزام کی پرزور الفاظ میں تردید کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اصل مسئلہ یہ ہے کہ انھوں (سنتھیا) نے بینظیر بھٹو کے حوالے سے چند روز قبل کچھ کہا تھا۔ انھوں نے بینظیر کے خلاف توہین آمیز گفتگو کی تھی۔ میرے بیٹے نے، جو کہ پنجاب اسمبلی کا ممبر بھی ہے، بینظیر کے خلاف دیے گئے بیان پر ان (سنتھیا) کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ صرف اس کا ردعمل ہے۔‘
یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ حال ہی میں وہ پہلی اور آخری مرتبہ سنتھیا سے ملے تھے اور اس سے قبل وہ انھیں جانتے تک نہیں تھے۔
’زلفی صاحب ایک سفارت کار ہیں، تین چار ماہ قبل ان کے گھر پر ایک فورم کا ریسیپشن منعقد ہوا تھا۔ جلیل عباس جیلانی اور میں وہاں اکھٹے گئے ہوئے تھے۔ درجنوں دیگر افراد بھی وہاں موجود تھے۔ وہاں ان (سنتھیا) سے پہلی اور آخری ملاقات ہوئی تھی۔ اس سے پہلے میں انھیں جانتا تک نہیں تھا۔‘
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا میرے بدترین مخالف بھی میرے کردار کے حوالے سے ایسی بات نہیں کر سکتے جو انھوں (سنتھیا) نے کی ہے۔
بی بی سی نے جب رحمان ملک اور مخدوم شہاب الدین سے ان پر عائد الزامات پر ردعمل لینے کے لیے رابطہ کیا تو ان کی جانب کوئی جواب تاحال نہیں دیا گیا ہے۔