المیہ یہ ہے کہ ہم الیکٹریشن کے کام کی نگرانی پر پلمبر کو بٹھا دیتے ہیں، نتیجتاً پلمبر اُس کے ہر کام میں دخل دینا اپنا فرض سمجھتاہے اور جب کام خراب ہوتا ہے تو پلمبر کے کہنے پر الیکٹریشن کی چھٹی کرا دی جاتی ہے۔ ہنر مندلوگ ترس رہے ہیں کہ انہیں آزادی سے اُن کا کام کرنے دیا جائے لیکن ہر جگہ اُن کے اوپر والی سیٹ پر کوئی ’’پلمبر‘‘ بیٹھا ہے جو اپنے عہدے کا فائدہ اٹھا کر ہرکام میں اپنی ٹانگ اڑاتا ہے اور ہنرمند کو بھی زیرو بنا دیتا ہے۔ ہمارے ہاں right man for the right job والی بات بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔ سافٹ ویئر انجینئر کے اوپر کوئی ٹیکنیشن ’’باس‘‘ لگا ہوا ہے۔ مارکیٹنگ کے رموز سے واقف بندے کے اوپر آڑھتی براجمان ہے۔ قانون نافذ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے کے اوپر قانون شکنی کرنے والا افسر لگا ہوا ہے اور تجربہ کار اکائونٹنٹ ایک تجربہ کار انجینئر کو جوابدہ ہے۔ جنہیں جوتیوں میں ہونا چاہیے تھا وہ سروں پر چڑھے بیٹھے ہیں اور جس چیز کا علم نہیں رکھتے اُس کا علم رکھنے والوں کو اپنی بونگیوں سے مسلسل مسلتے چلے جا رہے ہیں۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیے، کیسے کیسے نایاب لوگ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے مخبوط الحواس لوگوں کے انڈر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اپنے فن میں طاق موسیقار کسی گیت کی شاندار دھن بھی بنا لے تو اُسے سلیکٹ یا رجیکٹ کرنے کا اختیار کسی ایسے کے پاس ہے جسے نہ راگ کا پتا ہے نہ لے کا۔ جہاں جہاں مجبوریوں کی وجہ سے نااہل لوگوں کے زیر سایہ رہ کر کام کرنا پڑتا ہے وہاں ہنر بھی آہستہ آہستہ دم توڑ دیتا ہے۔ عموماً جب کسی کے پاس کوئی سیٹ یا عہدہ آتا ہے تو اس کے اندر کا فرعون بیدار ہو جاتا ہے جو ہر لمحہ اسے احساس دلاتا ہے کہ ’’تم ہی تو ہو‘‘۔ اسی کیفیت کے خمار میں اسے یہ بیماری لگ جاتی ہے کہ اس کے ہاتھ جو بھی چیز آئے وہ اس میں کوئی نہ کوئی کیڑا نکالنے یا ڈالنے کا فریضہ ضرور سر انجام دے۔ ہم میں سے ہر بندہ اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل کے پرزوں کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات ضرور رکھتا ہے لیکن جب ہماری سواری خراب ہوتی ہے تو اُسے مکینک ہی ٹھیک کرتا ہے۔ پتا نہیں کیوں اس وقت ہم خود مکینک کے فرائض سر انجام نہیں دیتے شاید اس لیے کہ ہمیں پتا ہوتا ہے کہ ہم میں یہ صلاحیت نہیں اور ہم اپنی نااہلی کی وجہ سے اپنی چیز کا نقصان کر بیٹھیں گے۔ لیکن جب ہم کسی دوسرے کی سیٹ پر ہوتے ہیں تو چونکہ ہمارا ذاتی نقصان نہیں ہو رہا ہوتا اس لیے ہمیں اپنی ’’مہارت‘‘ آزمانے کے لیے اچھی تجربہ گاہ مل جاتی ہے۔ سات آٹھ سال پہلے میرے پاس ایک صاحب آتے تھے جو گرافک ڈیزائننگ میں بہت ماہر تھے لیکن نوکری نہیں مل رہی تھی۔ پھر ایک دن انہیں ایک ایڈور ٹائزنگ ایجنسی میں نوکری مل گئی۔ ان کے اوپر جو صاحب افسر لگے ہوئے تھے وہ ایک سرکاری محکمے سے اکائونٹنٹ ریٹائر ہوئے تھے اور گرافکس ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے۔ ڈیزائننگ کی الف ب سے بھی ناواقف تھے لیکن چونکہ افسر تھے، اختیار کے نشے میں تھے لہٰذا ہر اچھے ڈیزائن کو بھرپور محنت سے بُرا بنا دیتے۔ جو صاحب میرے پاس آئے تھے اُن سے یہ اذیت ناک صورتحال برداشت نہ ہو سکی اور استعفیٰ دے دیا۔ قسمت نے کرم کیا اور تھوڑے دنوں بعد انہیں دبئی کی ایک کمپنی میں جاب مل گئی۔ انہوں نے کچھ رقم اکٹھی کی اور پاکستان واپس آکر اپنا ڈیزائننگ کا ادارہ کھول لیا۔ چونکہ اب ان کے کام میں دخل دینے والا کوئی نہیں تھا لہٰذا پوری آزادی سے بہترین کام کیا اور آج شاندار زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ڈیزائنر کے اوپر کسی مزید اچھے ڈیزائنر کو ہی افسر لگنا چاہئے۔ اُن کے سابقہ ڈپارٹمنٹ ہیڈ اب انہی کی کمپنی میں اکائونٹنٹ ہیں۔ بڑے بڑے لوگوں کے حالاتِ زندگی پر نظر ڈالیے۔ یہ اپنے کام میں ماہر تھے لیکن اپنے نااہل افسروں کی بےجا مداخلت کی وجہ سے برسوں کچھ کر دکھانے سے قاصر رہے۔ لیکن جونہی اِنہیں اپنا کام کرنے کی آزادی ملی انہوں نے سب کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ افسر کبھی کسی کو آگے نکلتا نہیں دیکھ سکتے۔ یہ ہر اس بندے کے کام میں روڑے اٹکاتے ہیں جس کے بارے میں انہیں شک ہو کہ یہ کسی نہ کسی موڑ پر ان سے آگے نکل جائے گا۔ ایسے لوگ صرف اپنی نوکری بچاتے ہیں کیونکہ انہیں پتا ہوتا ہے اگر انہیں نوکری سے نکال دیا گیا تو اوپن مارکیٹ میں ان کی قیمت دو ٹکے بھی نہیں لگے گی۔ ادارے ہنر مندوں کی وجہ سے چلتے ہیں افسروں کی وجہ سے نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو جتنا ہنر مند ہے اتنا ہی بڑا افسر ہو لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ اگر آپ بہت اچھے کامیڈین ہیں تو یقیناً آپ کے کام کو فائنل کرنے کا اختیار اُس کا ہوگا جو لطیفہ سن کر بھی آنسو بہانے لگتا ہے۔ اگر آپ ٹی وی کے بہت اچھے ڈائریکٹر ہیں تو عین ممکن ہے آپ کا ڈائریکٹر پروگرامز وہ شخص ہو جو بہت اچھا کارپینٹر ہو۔ بڑے ظالم لوگ ہوتے ہیں یہ۔ اپنے ہر کام کو ماسٹر پیس اور دوسرے کے ہرکام کو ناقابل قبول قرار دے دیتے ہیں۔ یہ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ نہیں جانتے کہ ان کے زیر اثر کام کرنے والا ہنرمند کدھر جا رہا ہے اور کب اِنہیں اُس کی نوکری کرنی پڑ جائے۔ عہدوں کے خمار میں مبتلا یہ لوگ چونکہ خود ٹیلنٹ سے محروم ہوتے ہیں لہٰذا انہیں ہر اُس شخص سے خار ہوتی ہے جس میں تھوڑا سا بھی ٹیلنٹ ہو لیکن ٹیلنٹ کو سوئی برابر بھی جگہ مل جائے تو پہاڑ جتنا سوراخ کر دیتا ہے لہٰذا افسروں کو افسری کرنے دیجئے اور اپنا کام جاری رکھئے۔ یہ اپنی عقل کے مطابق آپ کے کام میں ٹھونگے مارتے رہیں گے لیکن خود اُس جیسا کام کبھی نہیں کر پائیں گے۔ میں نے بے شمار لوگوں کا بہترین کام بدترین لوگوں کے ہاتھوں مسترد ہوتے دیکھا ہے لیکن یہ بھی دیکھا ہے کہ جونہی اِن لوگوں کی گرفت کمزور پڑتی ہے، وہی مسترد شدہ کام یوں اچھل کر باہر آتاہے کہ دنیا کو پاگل کر دیتا ہے۔ وقت کی چھلنی میں صرف صاف مال اوپر رہتا ہے، چھان بورا نیچے چلا جاتا ہے۔