منتخب تحریریں

ڈرائیور کا ’’انتخاب‘‘

Share

آج میں نے اپنی کار ورکشاپ بھیجی تو ایک دوست کی کار مستعار لینا پڑی جو معہ ڈرائیور کے تھی، چنانچہ آج میں دن بھر پچھلی سیٹ پر ٹیک لگائے ڈرائیور کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے کہتا رہا اور مجھ پر پہلی دفعہ یہ راز کھلا کہ ڈرائیور کے کتنے فائدے ہیں؟ سب سے بڑا فائدہ مجھے یہ محسوس ہوا کہ انسان اگر شکل سے ڈرائیور لگتا بھی ہو تو پچھلی سیٹ پر ”دھون“ اکڑا کر بیٹھنے سے وہ مالک لگنے لگتا ہے۔ کئی دفعہ ٹریفک کا سپاہی مجھے ڈرائیور سمجھ کر ناگوار قسم کی بےتکلفی کا مظاہرہ کیا کرتا تھا جس پر اسے سمجھانا پڑتا تھا کہ میاں منہ سنبھال کر بات کرو، میں ڈرائیور نہیں کار کا مالک ہوں۔ آج میں کار کا مالک نہیں تھا مگر چوراہے میں کھڑے ٹریفک کانسٹیبل نے مجھے مالک کا پروٹوکول دیا، ڈرائیور کا دوسرا فائدہ مجھے یہ محسوس ہوا کہ کئی دنوں سے دوستوں کی جو کتابیں میرے سرہانے دھری تھیں اور انہیں سونگھنے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ آج میں اس فریضے سے بھی عہدہ برا ہو گیا۔ میں نے تین چار گھنٹوں میں چلتی کار میں دس پندرہ کتابوں کی ورق گردانی کی اور یوں اب اس قابل ہوں کہ ان پر سیر حاصل گفتگو کر سکوں۔ ڈرائیور کا ایک فائدہ مجھے یہ محسوس ہوا کہ چلتی کار میں کتابوں کو سونگھنے کے علاوہ اونگھنے کا بھی خوب موقع ملتا ہے۔ میں کار کی پچھلی سیٹ پر نیم دراز صاحبوں کو دیکھتا تھا تو بہت مرعوب ہوتا تھا کہ شاید وہ غور و فکر یا گیان دھیان میں مشغول ہیں۔ آج پتا چلا کہ قیلولہ فرما رہے ہوتے ہیں۔

تاہم ڈرائیور کے فوائد میں سے سب سے بڑا فائدہ جو میں گنوانے لگا ہوں وہ یہ ہے کہ انسان روزانہ ایک ہی راستے سے گزرنے کی وجہ سے جس اکتاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے ڈرائیور کی موجودگی میں وہ اس اکتاہٹ سے محفوظ ہو سکتا ہے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں روزانہ کسی باغ میں سے بھی گزروں تو اس کی ہریالی سے اکتا جاتا ہوں، چنانچہ میں رستے بدل بدل کر منزل تک پہنچے کی کوشش کرتا رہا مگر یہ راستے تین چار سے زیادہ بہرحال نہیں ہوتے چنانچہ یہ تین چار راستے بھی زبانی یاد ہو جاتے ہیں پھر سمجھ نہیں آتی کہ ان رستوں کی اکتاہٹ سے خود کو کیسے محفوظ رکھا جائے؟ یہ مشکل بھی آج ڈرائیور ہی نے دور کی میں جن راستوں سے دن میں تین چار دفعہ گزرتا تھا ادھر سے گزرتے ہوئے میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ اکتاہٹ سے بچ گیا اور دوسرے یہ کہ سامنے سے آنے والی اندھا دھند ٹریفک کے خوف سے بھی محفوظ ہو گیا۔ ڈرائیور کے کچھ فائدے اور بھی ہیں مگر یہ فوائد خود ڈرائیور نے مجھے بتائے ہیں مثلاً یہ کہ ڈرائیور کی موجودگی میں گاڑی صاف ستھری نظر آتی ہے کہ وہ جہاں صاحب کے انتظار میں گاڑی کھڑی کرتا ہے، گاڑی سے اتر کر اسے کپڑا مارنے لگتا ہے۔ سروس کرانے کے لئے خود سروس اسٹیشن نہیں جانا پڑتا، گاڑی ورکشاپ میں بھیجنا پڑے تو مکینک کے سرہانے بھی وہ خود ہی کھڑا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ تاہم آج ڈرائیور کو ساتھ رکھنے کی وجہ سے جہاں ڈرائیور کے فوائد کا علم ہوا وہاں اس کے کچھ نقصانات بھی سامنے آئے مثلاً ایک نقصان آنکھیں بند کرنے کی وجہ سے ہوا۔ ڈرائیور گانوں کی کیسٹ سننے میں مگن رہا اور میں آنکھیں بند کرکے بیٹھا رہا کہ شاید وہ تمام راستوں سے واقف ہے لیکن پتا چلا کہ کچھ رستے اس کے لئے نئے بھی تھے چنانچہ دو تین بار ایسا ہوا کہ جب میں نے آنکھیں کھولیں تو پتا چلا کہ ہم متضاد راستے کی طرف سفر کر رہے تھے چنانچہ گاڑی کو کئی میل واپس لانا پڑا۔ وہ سفر جو بالکل رائیگاں جائے اس کا بہت افسوس ہوتا ہے!

دوسرا نقصان جو سامنے آیا وہ بھی آنکھیں بند کرنے ہی کی وجہ سے تھا۔ آنکھیں بند رکھنے سے میں رستوں کی تکرار سے پیدا ہونے والی اکتاہٹ سے تو محفوظ ہو گیا لیکن یہ راستے پرانے ہونے کے باوجود روزانہ آنکھوں میں نئے منظر بھی جگاتے تھے۔ نیز بعض اوقات یوں بھی ہوا کہ اس اکتاہٹ اور نئے رستے کی جستجو کے نتیجے میں مجھے منزل کی طرف لے جانے والا کوئی ایسا نیا راستہ مل گیا جس نے میری بہت سی مشکلیں آسان کردیں۔ ڈرائیور کے نقصانات ایک کار کے مالک نے بھی مجھے بتائے اس کا کہنا تھا کہ ڈرائیور کو کھلی چھٹی کبھی نہیں دینا چاہئے۔ اسے مسلسل یہ احساس رہنا چاہئے کہ اسے کوئی چیک کرنے والا بھی ہے، اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو امانت میں خیانت کا امکان بہرحال موجود رہے گا، یعنی یہ ممکن ہے کہ ڈرائیور نے آپ کو ورکشاپ کا جو بل دیا ہے اس کا آدھا بھی خرچ نہ ہوا ہو، بعض ڈرائیور تو محض اپنی کمائی کی خاطر کار کا انجر پنجر ہلا دیتے ہیں اور مالک کو پتا اس وقت چلتا ہے جب پتہ چلنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ پس ثابت ہوا کہ انسان ڈرائیور کی موجودگی میں ریلیکس ضرور کرے مگر اتنا بھی نہیں کہ اس کی وجہ سے ڈرائیور ریلیکس ہو جائے اور ایسے رستوں پر چل پڑے جو منزل سے دور لے جانے والے ہوں۔ اس طرح کا سفر خود فریبی کے سوا کچھ نہیں، خواہ یہ سفر کوئی فرد کرے یا کوئی قوم یہ دائروں کا سفر ہے اور اس کا خمیازہ ہم نے پہلے ہی بہت بھگتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ ہم لوگ اپنے ”ڈرائیور“ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کریں۔