عمران حکومت ’’اشرافیہ‘‘ اور ’’مافیا‘‘ کا مقابلہ کرنے کو صف آرا ہوچکی ہے۔ گزشتہ برس چینی کا جو بحران پیدا ہوا تھا اس کے ذمہ دار افراد کی نشان دہی ہوچکی۔ اتوار کی صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔حکومت کے لئے عموماََ یہ چھٹی کا دن ہوتا ہے۔اخبارات میں لیکن خبر یہ دیکھی ہے کہ آج کسی وقت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوگا۔وہاں چینی بحران کے ذمہ دار ٹھہرائے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی حکمت عملی مرتب کی جائے گی۔شاید اس کی وجہ سے ابھی تک ’’معتبر ومعزز‘‘ تصور کئے شوگر مافیا کے چند ’’سرغنہ‘‘ احتساب بیورو یا ایف آئی اے کی حراست میں اپنے ’’جرائم‘‘ کا حساب دیتے پائے جائیں گے۔
ابھی تک ’’دیگ کا ایک دانہ‘‘ چیک کرنے والی جو تفتیش ہوئی ہے اس نے بہت عرصے تک عمران خان صاحب کے قریب ترین شمار ہوتے جہانگیر ترین کو ’’شوگر مافیا‘‘ کا سب سے بڑا ’’ڈان‘‘ دکھاکر پیش کیا ہے۔وہ مگر اپنے فرزند کے ہمراہ گزشتہ ہفتے لندن چلے گئے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں ایک بار پھر شریف خاندان ہی فوری گرفتاریوں کے لئے میسر ہوگا۔ شنید ہے کہ اس کی چلائی شوگر فیکٹریوں پر چھاپے کے دوران ’’ریموٹ کنٹرول‘‘ کا ایسا نظام بھی دریافت ہواتھا جس کے ذریعے اس خاندان کے لندن میں مقیم ’’سرغنہ‘‘ کو دھندے کی لمحہ بہ لمحہ تفصیلات فراہم کی جاتی تھیں۔
یہ داستان سنی تو جیمز بانڈ کی کئی فلمیں یاد آگئی۔ اکثران فلموں کے ویلن کسی غار یا دوردراز جزیرے میں پناہ گزین ہوکر اپنے کارندوں سے مواصلاتی رابطہ برقرارر کھتے تھے۔ ’’ریموٹ کنٹرول‘‘ کے جس نظام کو شریف خاندان کی شوگر فیکٹریوں سے بازیاب کرنے کا دعویٰ ہوا ہے وہ ہمارے سامنے آگیا تو ثابت ہوجائے گا کہ فلموں میں دکھائے مناظر محض کسی تخلیقی ذہن ہی میں نمودار نہیں ہوتے۔ فن یعنی Artواقعتا حقائق کا آئینہ بردار ہوتا ہے۔
عمران حکومت کے دل جلے ناقدوں کو مگر یہ خدشہ لاحق ہے کہ بالآخر ہونا کچھ بھی نہیں۔قانون کو ’’سب کے لئے برابر‘‘ دکھانے کو بلکہ بات اب یہ چلائی جارہی ہے کہ ’’شوگرمافیا‘‘ کے بے لاگ احتساب کے لئے ضروری ہے کہ اس دھندے سے متعلق ہر سیٹھ کا 1985سے حساب لیا جائے۔ ہمارے ہاں چینی پیدا کرنے والے کارخانے غالباََ سو کے قریب ہیں۔ان کے کھاتوں کا 1985سے حساب شروع ہوا تو حتمی نتائج تک پہنچنے کو طویل عرصہ درکار ہوگا۔ان نتائج کی روشنی میں ایسے مقدمات بھی تیار کرنا ہوں گے جن کا دفاع مہنگے سے مہنگے وکیل کو بھی ناممکن دکھائی دے۔سوال اٹھتا ہے کہ ’’زلف کے سرہونے تک‘‘ میری عمر والے اس دنیا میں ہوں گے بھی یا نہیں۔زندگی کے جن بقیہ برسوں کی امید لگائی ہوئی تھی کرونا کی وجہ سے ویسے بھی معدوم ہوئے نظر آرہے ہیں۔اپنے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے بھی خوف محسوس ہوتا ہے۔دل خوش فہم مگر مطمئن ہے کہ ’’بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور…‘‘ ۔
شوگر مافیا کے خلاف برپا معرکہ کے اس موسم میں لیکن گزشتہ دو دنوں سے بے تحاشہ لوگوں نے ٹیلی فون اور سوشل میڈیا کے ذریعے مجھے مسلسل یہ اطلاع پہنچائی کہ گزشتہ کئی روز سے ہم ’’پیٹرول کے بحران‘‘ کی زد میں ہیں۔میرے کئی ذاتی دوستوں نے ایسی تصاویر بھی مہیا کیں جہاں چکوال اورفیصل آباد جیسے شہروں کے پیٹرول پمپوں کے باہر گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی طویل قطاریں لگی تھیں۔جو پیٹرول پمپ مجھے دکھائے گئے ان کے باہر اوسطاََ ڈیڑھ سے دو سو افراد کی قطار تھی۔ مستند اطلاعات یہ بھی تھیں کہ ہر گاڑی والے کی ٹینکی فل نہیں کی جارہی تھی۔آپ صرف ایک ہزار روپے کا پیٹرول خرید سکتے تھے۔وہ لوگ جنہیں ہنگامی ضرورت کے تحت ایک شہر سے دوسرے شہر نسبتاََ طویل سفر کو جانا تھا اپنی گاڑی کی ٹینکی فل کروانے کے لئے سفارشیں ڈھونڈ رہے تھے۔
پیٹرول کی نایابی کی کہانی سن کر میں بہت حیران ہوا۔چند ہفتے قبل تک دُنیا بھرسے خبریں آرہی تھیں کہ تیل کمپنیاں ذخیرہ کرنے کی سکت سے محروم ہوجانے کے باعث اس دھندے سے جڑے ہول سیلروں کو ’’جتنا اُٹھاسکتے ہو اُٹھالو‘‘ کی بنیاد پر تیل مفت فراہم کرنے کو بے چین ہیں۔بازار میں لیکن گاہک موجود نہیں۔اسی باعث عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں ریکارڈ کمی دیکھنے کو ملی۔عمران حکومت نے فراوانی کے اس سیزن میں اپنی رعایا کے لئے بھی فیاضی برتی۔ تیل وپیٹرول کی قیمت میں گرانقدر کمی کا اعلان ہوا۔ حکومتی ترجمانوں نے بہت فخر سے ہمیں یہ بھی یاد دلانا شروع کردیا کہ جنوبی ایشیاء کے تمام ممالک کے مقابلے میں پاکستان سستا ترین تیل بیچ رہا ہے۔امید یہ بھی دلائی گئی کہ اعلان کردہ قیمت کی بدولت اشیائے صرف کی قیمتیں بھی کم ہوجائیں گی۔ دوکاندار پیٹرول مہنگا ہونے کا بہانہ تراش نہیں پائے گا۔کرونا کی اداسی میں مبتلا ہوئے دلوں کو تھوڑا خوش کرنے کا بندوبست ہوگیا۔
جو Feel Goodکہانیاں حکومتی ترجمانوں نے ڈھول تاشے بجاتے ہوئے ٹی وی سکرینوں پر سنائیں عملی زندگی میں البتہ نظر نہیں آئیں۔پیٹرول پمپوں کے باہر بلکہ لمبی قطاریں لگ گئیں۔کئی مقامات پر لوگ پیٹرول سے خالی ہوئی موٹرسائیکلوں کے ساتھ پیدل چلتے ہوئے بھی نظر آئے۔گاڑیوں کی ٹینکیاں ایک دن کو بھی فل نہ ہوسکیں۔’’عیاشی‘‘ کے دو دن بھی نصیب نہیں ہوئے۔
سوال اٹھتا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل اگر تقریباََ مفت ملنا شروع ہوگیا تھا تو پاکستان کے عوام کی اکثریت اس سے فائدہ محض کچھ دنوں کے لئے بھی کیوں اٹھانہیں پائی۔ شاید اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے ایک اور JITبنانے کی ضرورت ہوگی۔اس کے بغیر ہی مگر لاکھوں پاکستانی اپنے روزمرہّ تجربے سے یہ جان چکے ہیں کہ پیٹرول کی ترسیل اور فروخت کے حوالے سے بھی ایک مافیا موجود ہے۔اس نے پاکستان کے لاچار وبے بس عوام کو پیٹرول کی قیمت میں کمی کے فیصلے سے چند روز بھی لطف اٹھانے نہیں دیا۔
تیل کی ترسیل اور فروخت کے مافیا کا ذکر چلا ہے تو آپ کو یاد دلانا ہوگا کہ اس دھندے کے ضمن میں اجارہ داری کی کہانی بہت پرانی ہے۔بہت تحقیق کے بعد کئی کتابیں لکھی گئی ہیں جو آسان ترین انداز میں ہمیں سمجھاتی ہیں کہ دُنیا بھر میں جو تیل پیدا ہوتا ہے اسے بازارمیں لاکر عام صارف تک پہنچانے کے وسیع تر کاروبار پر صرف سات ملٹی نیشنل کمپنیوں کا اجارہ ہے۔ان کمپنیوں کو حسد سے Seven Sistersپکارا جاتا ہے۔یہ ’’سات بہنیں‘‘ امریکہ اور یورپ جیسے ممالک میں ریاستی فیصلہ سازی کے عمل پر بھی کامل انداز میں اثرانداز ہوتی ہیں۔ان ممالک کی پارلیمان کے تگڑے ترین اراکین ان ’’بہنوں‘‘ کے تنخواہ دار ہیں۔ان بہنوں میں سے کم از کم ایک جس کا نام لینے کی مجھ میں ہمت نہیں پاکستان میں بھی پیٹرول کے حوالے سے بڑی قوت کی حامل ہے۔
ایک بہت ہی ذمہ دار فرد نے جس کی بتائی بات پر میں آنکھ بند کرتے ہوئے اعتبار کرنے کو مجبور ہوں مجھے بتایا ہے کہ حال ہی میں پیٹرول کی قیمتوں میں کمی لانے کے لئے جو اجلاس ہوئے تھے ان کے دوران Oil Marketingسے وابستہ نمائندے اصرار کرتے رہے کہ تیل کی قیمت میں کمی کا فیصلہ نہ ہو۔وہ بضد تھے کہ عالمی منڈی میں جو کمی نظر آرہی ہے وہ قطعاََ عارضی ہے۔طویل المدتی بنیادوں پر سوچا جائے اور یہ حقیقت بھی نگاہ میں رکھنا ہوگی کہ پاکستان میں تیل ذخیرہ کرنے کی ٹھوس Capacityکیا ہے۔تیل کی خرید کے لئے جو آرڈر ہوتے ہیں وہ بحری جہازوں کے ذریعے فراہم ہوتے ہیں۔ تیل کو ہماری بندرگاہوں تک پہنچنے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔اس کے بعد بندرگاہوں تک پہنچے تیل کو ملک کے دور دراز علاقوں تک پہنچانے میں مزید دن لگ جاتے ہیں۔
حکومت مگر تیل کی قیمت میں نمایاں کمی لاکر کرونا سے گھبرائے دلوں کو خوش کرنا چاہ رہی تھی۔اس نے اعلان کردیا۔ پیٹرول پمپوں سے مگر تیل غائب ہوگیا۔عالمی منڈی میں اب تیل کی قیمت بڑھناشروع ہوگئی ہے۔کئی سٹہ باز یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اس ماہ کے اختتام تک یہ شاید 37سے 40ڈالر فی بیرل ہوجائے گی۔ عالمی منڈی میں جب تیل اس نرخ کو چھولے گا تو ہماری حکومت پیٹرول کی قیمت میں فی لیٹر کم از کم 15روپے کا ضافہ کرنے کو مجبور ہوجائے گی۔قیمت کی جس کمی کا اعلان ہوا تھا اس سے ہم بدنصیب بھرپور فائدہ نہیں اٹھاپائے۔ جس اضافے کا امکان ہے اس کا اعلان ہوگیا تو ہم ’’آنے والی تھاں‘‘ پر واپس آکر اپنی موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کی ٹینکیاں فل کروانا شروع ہوجائیں گے۔ٹی وی سکرینوں پر ’’مافیا‘‘ کے خلاف جنگ البتہ جاری رہے گی۔