Site icon DUNYA PAKISTAN

کورونا وائرس: وٹامن ڈی کا استعمال کتنا ضروری ہے، مضروضے کیا ہیں اور حقائق کیا؟

Share

وٹامن ڈی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس سے تھکان دور ہوتی ہے، پژمردگی پر قابو پایا جا سکتا ہے اور یہاں تک کہ کینسر کا علاج بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن چند طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت مند افراد کو اس قسم کے اضافی وٹامنز سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔

اب جب کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کا کہا جا رہا ہے تو ہم میں سے کئی لوگ اس دوران اپنی غذا میں شامل اجزا کی جانب کافی توجہ دے رہے ہیں اور یہ جاننا چاہ رہے ہیں کہ وہ کس طرح اپنی صحت کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھ سکتے ہیں۔

یہ جاننے کے لیے کہ حقیقت کیا ہے اور کیا محض ٹوٹکہ ہے، بی بی سی فیوچر اپنی آرکائیو میں سے ایسی رپورٹس کو اضافی معلومات کے ساتھ دوبارہ پیش کر رہا ہے۔

بی بی سی گُڈ فوڈ میں ہمارے ساتھی غذاؤں کے اجزا کی ترتیب میں رد و بدل، باورچی خانوں کے سٹورز میں مزے دار کھانے بنانے کی ترکیبوں اور لاک ڈاؤن میں کھانوں کے بارے میں مختلف پہلوؤں پر تحقیق کر رہے ہیں۔

ہم میں سے بہت سے لوگ اب لاک ڈاؤن کے دوران سماجی فاصلے کے سلسلے میں اٹھائے گئے اقدامات کی وجہ سے اپنے اپنے گھروں میں قید ہیں، اس لیے سورج کی روشنی کی کمی کے بارے میں ان میں تشویش بڑھ رہی ہے۔ اور اس کی وجہ سے وٹامن ڈی کی ممکنہ کمی کا بھی خدشہ بڑھ رہا ہے۔ ایسے کئی لوگوں کے لیے اس کا آسان حل یہ ہے کہ وہ سپلیمنٹس (اضافی وٹامنز) کھانا شروع کر دیں۔

آخر ان سپلیمینٹس کی تشہیر بھی تو غیر قدرتی خوراک کے طور پر بہت زیادہ کی جاتی رہی ہے۔ وٹامن ڈی 2 اور ڈی 3 والے سپلیمینٹس ادویات کی ہر دکان سے ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر بآسانی دستیاب ہو جاتے ہیں اور پھر جسم میں ان کی کمی کا تعلق قوتِ مدافعت، تھکان، پٹھوں اور ہڈیوں کے کمزور ہونے سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان وٹامنز سے کینسر کا علاج کیا جا سکتا ہے اور بڑھاپے کے اثرات کو بھی روکا جا سکتا ہے۔

لیکن اس موضوع پر بحث بہت متنازع ہے کہ آیا تمام بالغ افراد کو کو وٹامن ڈی کی ضرورت بھی ہے یا نہیں؟

اس بات پر شاید ہی کسی کو شک ہو کہ وٹامن ڈی کیلشیم اور فاسفیٹ کو مربوط اور منظم کر کے ہماری ہڈیوں کی نشو و نما اور ان کی صحت میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، کیونکہ اس کے کمی سے ہونے والے نقصانات کی وجہ سے ہمیشہ اس کمی کو دور کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

اور اس وجہ سے اس کا استعمال آپ کی سوچ سے بھی زیادہ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں 20 فیصد آبادی میں وٹامن ڈی کی بہت زیادہ کمی ہے۔

تاہم کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت مند افراد کو وٹامن ڈی کے سپلیمینٹس کی ضرورت نہیں ہوتی ہے یعنی دوسرے الفاظ میں یہ ماہرین کہتے ہی کہ صحت مند لوگوں میں وٹامن ڈی کسی آنے والی بیماری سے نہیں بچاتا ہے، جیسا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے۔

تو پھر حقیقت کیا ہے؟

بنیادی بات

باوجود اس کے کہ وٹامن ڈی کا نام وٹامن ہی ہے تاہم یہ وٹامن نہیں ہے۔

اصل میں یہ ایک ہارمون ہے جو انسانی جسم میں کیلشیم کو ہضم ہونے میں مدد دیتا ہے۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ مچھلی جیسی خوراک کے سوا، وٹامن ڈی اوسط درجے کی خوراک میں موجود نہیں ہوتا ہے۔ لیکن سورج کی روشنی میں موجود ’الٹرا وائیلٹ بی‘ شعائیں انسانی جسم میں موجود کولیسٹرول سے وٹامن ڈی حاصل کر سکتی ہیں۔

وٹامن ڈی مچھلی کے تیل جیسی غدا میں پایا جاتا ہے۔

وٹامن ڈی دو اقسام کے ہوتے ہیں۔ پہلا وٹامن ڈی 3 ہوتا ہے جو کہ مچھلی سمیت چند ایک اور جانوروں سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور انسانی جسم سے جب وہ شورج کی شعاعوں کے سامنے ہو۔

وٹامن ڈی کی دوسری قسم ڈی 2 کہلاتی ہے جو کھمبیوں (مشروم) جیسی سبزیوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ ڈی 3 زیادہ موثر ہوتا ہے اور سنہ 2012 کے ایک بڑے تجزیے کے مطابق سپلیمینٹس کے طور پر وٹامن ڈی 3 کے استعمال کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔

موجودہ دور میں برطانیہ کے صحت کا ادارہ لوگوں کے لیے تجویز کرتا ہے کہ 10 مائیکرو گرام وٹامن ڈی سردیوں اور موسمِ خزاں میں استعمال کریں کیونکہ ان موسموں میں سورج کی کرنوں کا اس خطہِ ارض پر ایسا زاویہ بنتا ہے جس کی وجہ سے ان شعاعوں میں ’یو وی بی‘ زمین کے ماحول میں داخل نہیں ہو پاتی ہیں۔

حکومتی محکمہ بھی یہ مشورہ دیتا ہے کہ سیاہ فام باشندوں سمیت جن لوگوں میں وٹامن ڈی کی کمی ہے وہ سال بھر سپلیمینٹس کھاتے رہیں۔

دوسرے ممالک میں بھی اسی طرح کی ہدایات دی جاتی ہیں۔

کینیڈا میں بالغ افراد کے لیے مشورہ ہے کہ وہ 15 مائیکرو گرام وٹامن ڈی اور وٹامن ڈی سے بھرپور دودھ کے دو گلاس یا اس کا متبادل سویا دودھ کے دو گلاس، اپنی روزانہ کی خوراک کا حصہ بنائیں۔ اس کےعلاوہ وہاں قانون ہے کہ پنیر بنانے والے اس میں وٹامن ڈی ضرور ملائیں۔

امریکہ میں بالغ افراد کے لیے مشورہ ہے کہ وہ 15 مائیکرو گرام وٹامن ڈی اپنی خوراک کا حصہ ضرور بنائیں جبکہ امریکہ میں صنعتی سطح پر دودھ، ناشتے کے لیے استعمال ہونے والا دلیا، پنیر، دہی اور سنگترے کے جوس میں وٹامن ڈی کو ملایا جانا بھی ضروری ہے۔

ایسی ہدایات اور غذا میں سپلیمینٹس کا اضافہ 20ویں صدی کے وسط میں بچوں میں ہڈیوں میں سوکھے کی بیماری (رِکِٹس) سے بچاؤ کے لیے کیا گیا تھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی سے خاص کر بچوں کے جسم میں، کیلشیم کی کمی پیدا ہوتی ہے جس سے ہڈیوں کی نشوونما متاثر ہوتی ہے اور سوکھے کی بیماری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

تاہم موجودہ وبا کے دوران سیلف آئسولیشن کی وجہ سے اب کم از کم ایسوسی ایشن آف یو کے ڈائٹیشینز نے ان ہدایات کو زیادہ پھیلا دیا ہے۔ رواں برس مارچ میں جاری کی گئی ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ ’اگر آپ کو خود سے الگ تھلگ ہونا پڑتا ہے یا آپ باہر نہیں جا سکتے ہیں تو آپ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ آپ کو وٹامن ڈی کی مناسب مقدار ملے، آپ کو 10 مائیکرو گرام سپلیمینٹس استعمال کرنے پر غور کرنا چاہیے۔‘

ہم جانتے ہیں کہ وٹامن ڈی کی مقدار میں کمی سے پٹھوں میں کمزوری اور جسم میں تھکان پیدا ہوتی ہے۔ ایک تحقیق کے ذریعے معلوم ہوا کہ جن لوگوں میں تھکان زیادہ دیکھی گئی ان میں وٹامن ڈی کی کمی بھی تھی اور جب انھیں پانچ ہفتوں تک وٹامن ڈی کے سپلیمینٹس دیے گئے تو ان میں یہ تھکان دور ہو گئی۔

جبکہ نیو کاسل یونیورسٹی کی ایک چھوٹی سی تحقیق کے مطابق وٹامن ڈی کی کمی تھکان اس لیے پیدا کرتی ہے کیونکہ اس کمی سے میٹوکونڈریا پیدا ہوتا ہے یعنی تولیدی خلیوں میں پایا جانے والا جسیمہ جس میں تنفس اور توانائی کی پیدائش کے لیے جو خامرے موجود ہوتے ہیں ان کی صلاحیت منفی طور پر متاثر ہوتی ہے۔

کینسر کے مریضوں کے مطالعے سے اسی قسم کے اثرات دیکھنے کو ملے ہیں۔ وٹامن ڈی سے جسم کا دفاعی نظام بھی بیکٹریا کو ختم کرنے سے بہتر ہوتا ہے۔

ہڈیوں کا ٹوٹنا

لیکن وٹامن ڈی کی اہمیت کا مطلب یہ نہیں کہ صحت مند افراد کو وٹامن ڈی کے سپلیمینٹس کی ہر حال میں ضرورت ہوتی ہے۔ اس بات پر غور کیجیے کہ ان سپلیمینٹس کی ضرورت کی وجہ کیا ہے: ہڈیوں کی نشوونما اور ان کو صحت مند رکھنا۔

وٹامن کے استعمال کی تازہ ہدایات ان تحقیقات کی بنیاد پر تیار کی گئی تھیں جو کہ بوڑھوں کی دیکھ بھال کرنے والے مراکز میں رہنے والوں پر کی گئی تھیں جنھیں سورج کی روشنی میں بیٹھنے کے مواقع کم ہی ملتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ہڈیوں ٹوٹنے کے حادثات ہوتے ہیں اور وہ آسٹیوپوروسس (کمزور اور بھربھری ہڈیوں کی بیماری) میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ تاہم کنگز کالج لندن کے جینیاتی وبائیت کے پروفیسر، ٹِم سپیکٹر کہتے ہیں کہ ان تحقیقات میں غالباً نقائص تھے۔

سپلیمینٹس لینے کی بنیادی وجہ ہڈیوں کو مضبوط بنانا ہے لیکن اس خیال کے پیچھے واضح شواہد نہیں ہیں۔

سنہ 2018 میں شائع ہونے والے ایک تجزیے کےمطابق صحت مند افراد میں وٹامن ڈی کی مقدار بڑھانے سے اُن کی ہڈیوں کے ٹوٹنے کے خطرات کے امکانات کم نہیں ہوئے ہیں اور 81 تحقیقاتی رپورٹوں کے مجموعی تجزیے سے پتہ چلا کہ وٹامن ڈی کے سپلیمینٹس کے استعمال کے بڑھا دینے سے نہ ہڈیوں کے ٹوٹنے کے واقعات میں کمی آتی ہے نہ ہی ہڈیوں کے دیگر اجزا میں بہتری آتی ہے۔

محققین کی تجویز ہے کہ ان ہدایات پر نئی تحقیقات کی روشنی میں نظرثانی کی ضرورت ہے۔

لیکن نیشنل آسٹیوپوروسس سوسائٹی سے وابستہ سینیئر نرس سارا لی لینڈ کہتی ہیں کہ ایسے افراد جو سورج کی روشنی حاصل نہیں کر پاتے ہیں ان کے لیے وٹامن ڈی سُود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ برطانیہ کے قومی صحت کے ادارے، این ایچ ایس کے مطابق لوگوں کو وٹامن ڈی کی مناسب مقدار کے حصول کے لیے اپنے کھلے بازوؤں اور بغیر کسی سکرین کے تھوڑے وقت کے لیے مارچ اور اکتوبر میں سورج میں بیٹھنا کافی ہے۔

سارا لی لینڈ کہتی ہی ’ہم جانتے ہیں کہ معاشرے میں رہنے والے افراد وٹامن ڈی کے سپلیمینٹس اور کیلشیم لینے سے ہڈیوں کے ٹوٹنے کے امکانات کو دور نہیں کر سکتے ہیں۔ تاہم وہ لوگ جنھیں مناسب مقدار میں یہ نہیں ملتی ہیں، یعنی ایسے لوگ جو گھروں سے باہر نہیں نکلتے ہیں یا جو بوڑھوں کی دیکھ بھال والے مراکز میں رہتے ہیں، وہ سپلیمینٹس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔‘

ابھی تک محققین ان دونوں کے بارے میں واضح شواہد حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ نرسنگ ہوم اور ہسپتال میں آنے والے مریضوں کی کمیونیٹیز میں ہڈیوں کے ٹوٹنے کی روک تھام کے جائزے کے ایک تجزیے کا نتیجہ ہے کہ صرف وٹامن ڈی کی خوراک سے بوڑھے افراد کی ہڈیوں کو ٹوٹنے سے نہیں روکا جا سکتا ہے۔

اور کچھ شواہد یہ بھی بتاتے ہیں کہ وٹامن ڈی کی زیادہ مقدار کی خوراک سے دراصل ہڈیوں کے ٹوٹنے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ایک بے ترتیب تحقیق کے مطابق وٹامن کی زیادہ مقدار کی سپلیمینٹس کی خوراک نے بوڑھے افراد میں گر جانے اور ہڈیوں کے ٹوٹ جانے کے خطرات کو وٹامن ڈی کے سپلیمینٹس لینے والوں کی نسبت 20 فیصد سے 30 فیصد تک بڑھا دیا۔

بیماری

وٹامن ڈی کے بڑھاپے کے اثرات کے روکنے اور دیگر بیماریوں سے تعلق کے بارے میں بھی متضاد تحقیقی رپورٹیں ہیں۔

ایک بڑا دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ وٹامن ڈی جسمانی مدافعاتی نظام کو بہتر کرتا ہے۔ لندن کی کوئین میری یونیورسٹی میں واقع لندن سکلول آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری میں اِمیونیٹی اور ریسپیریٹری انفیکشن کے پروفیسر ایڈرین مارٹینیو جو وٹامن ڈی کے انسانی صحت پر اثرات کا مطالعہ کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ وٹامن ڈی سے نظام تنفس میں انفیکشن پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق وٹامن ڈی نظام تنفس میں انفیکشن کو روکنے میں مدد دیتا ہے۔

جب ان کی تحقیقاتی ٹیم نے 14 ممالک کے 25 کلینکس کے گیارہ ہزار مریضوں کی معلومات کا مطالعہ کیا تو انھیں معلوم ہوا کہ وٹامن ڈی سپلیمینٹس کی روزانہ یا ہفتہ وار خوراک لینے سے انھیں نظام تنفس، دمہ یا برونکائٹس میں انفیکشن کے خطرات کو کم کرنے میں کچھ فائدہ ہوا تھا۔

اگرچہ اس تحقیق پر کافی زیادہ تنقید بھی ہوئی تاہم پروفیسر مارٹینیو کہتے ہیں کہ خطرات میں کمی، چاہے معمولی نوعیت ہی کی سہی، بہت اہم ہے اور اس کا بیماریوں کی روک تھام کے دیگر طریقوں سے تقابلی جائزہ کیا جاسکتا ہے۔ نظام تنفس میں ایک شخص کے انفیکشن کے امکان کو روکنے کے لیے 33 افراد کو وٹامن ڈی کے سپلیمینٹس دیے جاتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں ایک شخص میں فلو کو روکنے کے لیے 40 افراد کو فلو ویکسینیشن دی جاتی ہے۔

اور اب بڑھاپے ہی کو لے لیں۔ ایک تحقیق جس میں وٹامن ڈی اور متوقع لمبی زندگی کے تعلق کا مطالعہ کیا گیا ہے، میں بتایا گیا ہے کہ وٹامن ڈی 3 پروٹین کے خود کار حیاتیاتی نظام (ہومیوسٹیسِس) میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس نظام کے تحت ایک سیل کے اندر موجود پروٹین اپنی صلاحیت کو خود بخود منظم کرتی ہے جس کی بدولت اُس سیل کی صحت اچھی رہتی ہے۔

محققین کا کہنا ہے ’ہمارا مشاہدہ ہے کہ وٹامن ڈی 3 کے سیرم میں مناسب مقدار برقرار رکھنے سے ڈی 3 پروٹین ہومیوسٹیسِس کو بہتر بناتی ہے اور بڑھاپے کے آثار کے پیدا ہونے کے عمل کو سست کر دیتی ہے۔‘

لیکن چند دیگر تحقیقات اس معاملے میں کوئی حتمی رائے نہیں دے سکی ہیں۔

ایک اور تجزیاتی تحقیق اس نتجے پر پہنچی کہ وٹامن ڈی کے اموات پر اثرات کو جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ امراضِ قلب اور وٹامن ڈی کے درمیان کسی نوعیت کے تعلق کو کافی حد تک ثابت کر لیا گیا ہے۔ اس تعلق کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ امراضِ قلب کی وجہ سے وٹامن ڈی کی مقدار کم ہوتی ہے نہ کہ وٹامن ڈی کے کم ہونے سے امراضِ قلب پیدا ہوتے ہیں۔

باہمی تعلق؟

یہ معاملہ کم وٹامن ڈی کے بارے میں تقریباً تمام تحقیقات سے جڑا ہوا ہے۔

نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی آف آکلینڈ میں میڈیسن کے پروفیسر ایان ریڈ کا خیال ہے کہ امراض وٹامن ڈی کی مقدار کو کم کرنے کا سبب بنتے ہیں کیونکہ بیمار ہونے کی وجہ سے آپ باہر دھوپ میں کم نکلتے ہیں، نہ کہ دھوپ کے نہ لگنے سے بیمار ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ کسی بیماری کے مریضوں کے گروپ کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو ان میں وٹامن ڈی کی مقدار صحت مند افراد کے نسبت کم مقدار میں ملے گی۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا گیا کہ وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے بیماریاں پیدا ہوئیں لیکن اسے ثابت کرنے کے لیے شواہد موجود نہیں ہیں۔‘

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ بیمار ہوتے ہیں ان میں وٹامن ڈی کی مقدار کم ہوتی ہے کیونکہ وہ بیماری کی وجہ سے باہر دھوپ میں نہیں بیٹھتے ہیں، نہ کہ وہ اس وجہ سے بیمار ہوتے ہیں اور ان میں وٹامن ڈی کم ہوتا ہے۔

محققین نے یہ بھی دریافت کیا ہے کہ وٹامن ڈی کی زیادہ مقدار کا آنتوں کے کینسر کے کم امکانات سے جُڑتا ہے۔ یہ خون کی نئی رگوں کی تشکیل کو روک دیتا ہے جس کے وجہ سے خلیوں (سیلز) کے درمیان ابلاغ برقرا رہتا ہے۔ وٹامن ڈی بڑی آنت میں کیلشیم کی معمول کی مقدار کو برقرار رکھنے بھی مددگار ثابت ہوتا ہے جو کینسر نہ پیدا کرنے والے لیکن بہت ہی خطرناک خلیوں کی نشوونما کو سست کر دیتا ہے۔

دیگر تحقیقات جو وٹامن ڈی کے جگر کے کینسر، چھاتی کے کینسر اور بڑے غدود (پروسٹیٹ) کے کینسر سے تعلق پر کی گئی ہیں، ان میں کہا گیا ہے کہ اس بات کے تسلیم کیے جانے کے لیے کافی شواہد ہیں کہ وٹامن ڈی کی کم مقدار کینسر کے خلیوں کو پھیلنے میں مدد دیتی ہے۔

ایسی حالت میں وٹامن ڈی کے سپلیمینٹس لینے سے کینسر کے پھیلاؤ کو روکنے میں یقیناً فائدہ ہو گا لیکن حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سپلیمینٹس کا استعمال کینسر کو روکنے میں ناکام رہا۔

’امکان اس بات کا ہے کہ یہ شاید دو طرفہ ٹریفک ہے، کینسر پیدا کرنے والی وٹامن ڈی کی کمی جو وٹامن ڈی کے میٹابولزم کو متاثر کرتی ہے، غذا کی نوعیت اور سورج کی شعاعوں سے استفادہ اور پھر انھی باتوں کا الٹ اثر جو کہ وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔‘ پروفریسر مارٹینیو کہتے ہیں کہ ’یہ دو مفروضے ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں۔‘

ذہنی دباؤ

ایک اور کیفیت جس پر کافی بحث ہوتی ہے وہ ہے موسمی تبدیلی سے موڈ میں اتار چڑھاؤ کی ذہنی بیماری جو مختلف موسموں میں سورج کی روشنی کی کمی و بیشی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ سورج کی روشنی اور اس ذہنی بیماری کے درمیان تعلق ایک کافی پرانی ثابت شدہ بات ہے لیکن اس کا بھی وٹامن ڈی کی کمی بیشی سے تعلق ثابت کرنا بہت مشکل ہو گا۔

شواہد یہ بتاتے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی تعلق ہو سکتا ہے کیونکہ وٹامن ڈی کا سیروٹینِن اور میلاٹونِن سے تعلق جوڑا جاتا ہے۔ اول الذکر موڈ کو کنٹرول کرتا ہے جبکہ آخرالذکر نیند کو کنٹرول کرتا ہے۔

ان دونوں ہارمونز میں کمی سے موڈ میں تبدیلی کی ذہنی بیماری پیدا ہو سکتی ہے۔ محققین کو بہرحال ابھی تک اس پر بے ترتیب قسم کے تجربات کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ موڈ کو کیسے کنٹرول کرتے ہیں، اور یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ کیا میکانزم ہے جس میں وٹامن ڈی موڈ کو بہتر کرتا ہے۔

ایک نظریہ یہ ہے کہ وٹامن ڈی ریسیپٹرز جو کے دماغ میں پائے جاتے ہیں اور زیرِ اندرونِ حرم (ہائیپوتھیلامس) میں جمع ہوتے ہیں، ہارمونز کے اخراج کے عمل کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق، وٹامن ڈی ہماری ذہنی صحت، ذہنی دباؤ سے لے کر شیزوفرینیا اور دماغ کی نشو و نما تک، ایک بڑا کردار ادا کرتا ہے، لیکن یہ کردار کس طرح ادا کرتا ہے اس بارے میں معلومات غیر واضح ہیں۔ رواں برس شائع ہونے والی ایک تجزیاتی رپورٹ سے پتا چلا کہ وٹامن ڈی کی مقدار میں کمی اور ذہنی دباؤ کا باہمی ربط ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ذہنی دباؤ کے پیدا ہونے کی وجہ وٹامن ڈی ہے۔

یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ذہنی دباؤ کا شکار لوگ باہر کم نکلتے ہیں اور انھیں سورج کی روشنی کم ملتی ہے۔

سورج کی شعاؤں کی سیرم

اگرچہ تحقیقات کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پائی ہیں لیکن یہ وٹامن ڈی کی اہمیت میں تو کوئی کمی بیشی نہیں کرتی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر تحقیقات سپلیمینٹس کے فروغ کے لیے کی گئی ہیں نہ کہ سورج کی شعاعوں کے بارے میں۔

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ وٹامن ڈی سورج کی شعاعوں سے ملے تو بہترین ہوتی ہے نہ کہ سپلیمینٹس سے، کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سپلیمینٹس سے حاصل ہونے والی وٹامن ڈی سورج کی شعاعوں سے براہ راست ملنے والی وٹامن ڈی سے بہتر نہیں ہوتی کیونکہ سورج کی روشنی کے سامنے جسم میں جو وٹامن ڈی بنتی ہے اس کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ اس بارے میں حتمی نتیجے تک پہنچنے والی تحقیقات جاری ہیں۔

اس کے باوجود بھی کئی ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ سپلیمینٹس ان افراد کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں جن میں وٹامن ڈی کی مقدار کم ہوتی ہے۔ پروفیسر مارٹینیو کہتے ہیں کہ ان کی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ وٹامن ڈی کی کم مقدار والے افراد کو پھیپھڑوں میں انفیکشن کی روک تھام کے لیے سپلیمینٹس سے کافی فائدہ ہوا ہے جبکہ اس کے اثرات معتدل رہے ہیں جب مقدار کو معتدل رکھا گیا۔

پروفیسر ریڈ کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق سے بھی وٹامن ڈی کی کم مقدار والے افراد میں سپلیمینٹس کے فوائد کا پتہ چلا ہے۔ لیکن وٹامن ڈی کی مطلوبہ مقدار سے زیادہ سپلیمینٹس کا انھیں کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی سے کس کے لیے خطرہ بڑھ جاتا ہے اس بات کی پیشگوئی کرنا کافی مشکل ہے۔ جیسا کہ یونیورسٹی آف وارِک کی میڈیکل علوم کی مورخ رابرٹا بیوِنز کہتی ہیں کہ ایک شخص جو وٹامن ڈی اپنے جسم میں جمع کرتا ہے اور جتنی اسے موسمِ سرما میں ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا اس بات پر انحصار نہیں ہے کہ اس نے کتنی دیر سورج کی شعاعیں لیں اور اس نے کتنی دیر باہر وقت گزارا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’موسمِ گرما میں سورج کی شعاعوں کی ضرورت کا تعین ہر فرد کا انفرادی نوعیت کا ہوتا ہے، اس بات کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کی جلد کی نوعیت کیسی ہے اور اس میں چربی کتنی ہے اور یہ کہ اس کا جسم کتنی جلدی ہڈیوں کو بناتا ہے۔ یہ انتہائی پیچیدہ عمل ہے۔‘

اس لیے اپنی علامات کی بنیاد پر یہ طے نہیں کرنا چاہیے کہ آپ میں وٹامن ڈی کی کمی ہے بلکہ اس کو جاننے کے لیے اپنے ڈاکٹر کی مدد سے اپنے خون کا ٹیسٹ کروانا چاہیے۔

سپلیمینٹس کی مقدار کی سطح

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کو کتنی مقدار کی سپلیمینٹس کی خوراک کی ضرورت ہے۔ پروفیسر ریڈ کہتے ہیں کہ وٹامن ڈی کی 25 نینومولز فی دن کی خوراک لینے میں ’خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔‘

امریکہ اور کینیڈا میں 15 مائیکرو گرام فی دن کی وٹامن ڈی سپلیمینٹس کی خوراک تجویز کی جاتی ہے،تاہم بعض ماہرین اسے کافی خوراک قرار نہیں دیتے ہیں۔

لیکن فارمیسی کی عام دکانوں پر ڈاکٹروں کے نسخوں کے بغیر 62.5 مائیکرو گرام کے سپلیمینٹس دستیاب ہوتے ہیں، ان کے ضرورت سے زیادہ استعمال کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے، جن کے بعض صورتوں میں منفی اثرات بن سکتے ہیں جن میں متلی کا ہونا ہو سکتا ہے۔ چند ایک تحقیقات کے کہنا ہے کہ وٹامن ڈی کے لمبے عرصے تک زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے امراضِ قلب پیدا ہو سکتے ہیں تاہم اس بارے میں تحقیقات حتمی نہیں ہیں۔

لیکن کچھ اور ماہرین کہتے ہیں کہ اس سے بھی زیادہ وٹامن ڈی کی ضرورت ہوتی ہے۔

سنہ 2012 میں برطانیہ کے چیف میڈیکل افسر نے ملک بھر کے جنرل پریکٹیشنرز کو ایک خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ تمام ایسے مریض جو خطرے کی دہلیز پر ہیں ان کو وہ وٹامن ڈی کھانے کے لیے دیں۔

انھوں نے کہا تھا کہ برطانیہ میں آبادی کے ایک بڑے حصے میں وٹامن ڈی کی کمی ہے۔ سنہ 2018 میں جون کے مہینے میں یونیورسٹی آف برمنگھم کے محققین نے لکھا تھا کہ ایک نومولود کی وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے حرکت قلب بند ہو جانے سے موت اور دو دیگر بچوں کے امراض میں پیچیدگیاں، وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے اس خطرے کی دہلیز پر موجود بہت بڑی تعداد میں لوگوں کی ایک چھوٹی سے ظاہری شکل ہے۔

سوما اُدھے ایک یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے ایک تحقیقی مقالے کی مصنف ہیں، وہ کہتی ہیں کہ اس قسم کے وٹامن ڈی کی کمی اس لیے ہوتی ہے کیونکہ برطانیہ میں وٹامن ڈی کے سپلیمینٹس کی نگرانی کا کوئی انتظام نہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’نومولود بچوں میں ہم کہتے ہیں کہ کمی اس لیے ہوئی کیونکہ اُسے سپلیمینٹس نہیں دیے گئے یا ان کی نگرانی نہیں کی گئی۔ زیادہ عرصے تک وٹامن ڈی سے محروم ایک نومولود بچے میں کیلشیم کی کمی پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے سکتے میں آنا یا امراض قلب جیسی زندگی کے لیے خطرہ بننے والی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔‘

اتنے زیادہ متضاد نتائج والی تحقیقات کے ہوتے ہوئے یہ حیران کن بات نہیں کہ میڈیکل کے ماہرین سپلیمینٹس کے وسیع سطح پر استعمال اور فوائد کے بارے میں خود منقسم ہیں۔

بعض تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اربوں ڈالروں کی وٹامن کی انڈسٹری انھیں زیادہ سے زیادہ فروغ دے رہی ہے جبکہ پروفیسر سپیکٹر تو اس رجحان کو یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ ’نام نہاد بیماریوں کے لیے نام نہاد وٹامن‘ ہیں۔

اب جبکہ اس موضوع پر مباحثہ جاری ہے، کئی ماہرین کی نظریں ہارورڈ میڈیکل سکول سے وابستہ برگھم اینڈ وومنز ہسپتال پر جمی ہوئی ہیں، جن کے محققین ’وائٹل‘ نامی ایک تحقیق پر کام کر رہے ہیں جس کا کافی عرصے سے انتظار ہے، جو اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ آیا 25000 افراد پر وٹامن ڈی اور اومیگا 3 کے کینسر، دل کے دورہ پڑنے یا مختلف امراضِ قلب پر کوئی اثرات مرتب ہوئے ہیں یا نہیں۔

امید کی جاتی ہے کہ رواں برس کے اواخر میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے نتائج سے یہ مباحثہ تقریباً اپنے انجام تک پہنچ جائے گا۔ اس دوران اس بات پر ماہرین میں ایک وسیع سطح پر اتفاقِ رائے ہے کہ وٹامن ڈی کے سپلیمینٹس کا استعمال، خاص کر سردیوں میں، بد سے بدتر حالات میں رقم کا ضیاع ہے۔

انتباہ

اس تحریر کا مواد صرف عام معلومات کے لیے پیش کیا گیا ہے اور اسے کسی بھی صورت آپ اپنے معالج کے مشوروں کا متبادل تصور نہ کریں۔ بی بی سی اس تحریر کے مواد کی بنیاد پر کی گئی کسی بھی تشخیص کا ذمہ دار نہیں ہو گا۔ بی بی سی اس تحریر میں دیے گئے کسی بھی غیر بی بی سی ذریعے کا ذمہ دار نہیں ہو گا اور نہ ہی بی بی سی کسی بھی کمرشلمصنوعات یا مشورے کی توثیق کرتی ہے۔ اگر آپ کو اپنی صحت کے بارے میں کوئی بھی شکایت ہے تو آپ اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔

Exit mobile version