پاکستان

چینی بحران: وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ ادوار میں چینی پر دی جانے والی 29 ارب کی سبسڈی کی تحقیقات نیب کے سپرد کرنے کی منظوری دے دی

Share

وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں چینی بحران کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داران کے خلاف مجموعی طور پر سات بڑی سفارشات کی منظوری دے دی ہے۔

اتوار کو وفاقی وزیر برائے اطلاعات شبلی فراز اور وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سنہ 2014 کے بعد دی جانے والی 29 ارب کی سبسڈی کا معاملہ قومی احتساب بیورو کو فوجداری تحقیقات کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

کن سات سفارشات کی منظوری دی گئی اور کون ان کی تحقیقات کرے گا؟

  1. شوگر ملوں کو ملنے والی سبسڈی کی تحقیقات: نیب
  2. انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس فراڈ اور بے نامی لین دین کی تحقیقات: ایف بی آر
  3. کارٹیلائزیشن کی تحقیقات: مسابقتی کمیشن
  4. برآمدات اور قرض معاف کروانے کی چھان بین: سٹیٹ بینک آف پاکستان
  5. کارپوریٹ فراڈ کی تحقیقات: ایف آئی اے، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن
  6. مبینہ جعلی برآمدات، منی لانڈرنگ کی تحقیقات: ایف آئی اے
  7. صوبائی قوانین کی خلاف ورزی کی تحقیقات: انسدادِ بدعنوانی کے صوبائی محکمے

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی جانب سے منظور کردہ سفارشات کا پہلا حصہ پینل ایکشن پر مشتمل ہے یعنی ان لوگوں کے خلاف ایکشن جنھوں نے پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کی، اس میں سزا جزا کے علاوہ لوٹے گئے پیسے کی واپسی بھی ہے۔

دوسرا حصہ ریگولیٹری فریم ورک میں تبدیلیوں کی سفارشات جبکہ تیسرا حصہ ان سفارشات پر مبنی ہے کہ شوگر کی قیمتوں کے حوالے سے مستقبل میں کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے کہ چینی کی اصل قیمت کا تعین ہو جائے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں چینی کی قیمت کا تعین آج تک شوگر انڈسٹری خود ہی کرتی تھی کیونکہ اس حوالے کوئی طریقہ کار موجود ہی نہیں ہے۔

کیا قانونی کارروائی کی جائے گی؟

سبسڈی کی تحقیقات

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ سنہ 2014-15 کے دوران 6.5 ارب کی سبسڈی، سنہ 2016-17 کے دوران دوبارہ 6.5 ارب کی سبسڈی، سنہ 2016-17 میں 20 ارب کی سبسڈی اور سنہ 2018-19 میں حکومت پنجاب اور سندھ حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی کی تحقیقات بھی نیب کرے گا۔

انھوں نے آگاہ کیا کہ وزیر اعظم نے گذشتہ 20 سے 25 سال میں دی گئی تمام سبسڈیز کی تحقیقات بھی نیب کو سونپنے کے فیصلے کی منظوری دی گئی ہے اور جلد ہی اس حوالے سے ریفرنس قومی احتساب بیورو کو بھیجا جائے گا۔

سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور بے نامی لین دین کی تحقیقات

شہزاد اکبر نے کہا کہ شوگر ملوں کی جانب سے سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس فراڈ اور بے نامی لین دین کی تحقیقات کا معاملہ ایف بی آر کو بھجوایا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ تمام ملوں سیلز ٹیکس فراڈ، انکم ٹیکس فراڈ اور بے نامی لین دین کے شواہد ملے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایف بی آر اس معاملے کی تحقیقات 90 دن میں کرے گا اور وفاقی کابینہ کو 90 دن کے اندر رپورٹ کرے گا کہ کیا تحقیقات ہوئی ہیں اور کتنی ریکوری ہوئی ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ اب تک 30 ارب روپے کا تعین کیا جا چکا ہے جس کی ریکوری کرنی ہے۔

معاونِ خصوصی کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ رپورٹ میں شامل نو ملوں کے علاوہ چینی کی پوری صنعت کا جائزہ لیں کیونکہ یہ صنعت کا روایتی طریقہ کار ہے۔

کارٹیلائزیشن کی تحقیقات

شہزاد اکبر نے اعلان کیا کہ کارٹیلائزیشن یعنی اجارہ داری کی تحقیقات کا معاملہ پاکستان کے مسابقتی کمیشن کو بھجوایا جا رہا ہے۔

معاونِ خصوصی کا کہنا تھا کہ یہ کمیشن ریگولیٹر کے طور پر گذشتہ 12 سال سے اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ مسابقتی کمیشن بھی 90 روز میں اپنی رپورٹ وفاقی کابینہ کو پیش کرے گا۔

برآمدات اور قرضوں کی معافی کی تحقیقات

انھوں نے کہا کہ برآمدات، قرضوں کی معافی اور قرض ادائیگی میں ناکامی کے معاملات کی تحقیقات کا معاملہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو بھجوایا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ چینی بحران کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جھوٹی برآمدات کے ذریعے باہر سے آنے والا زرِ مبادلہ حلال کروایا گیا ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات بطور ریگولیٹر کرے گا، اور وفاقی کابینہ کو اپنی رپورٹ بذریعہ وزارتِ خزانہ بھجوائے گا۔

کارپوریٹ فراڈ کی تحقیقات

کارپوریٹ فراڈ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کئی پبلک اور پرائیویٹ چینی کمپنیاں شیئرہولڈرز کے ساتھ فراڈ سمیت دیگر اقسام کے فراڈ میں ملوث رہی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات ایف آئی اے اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو بھجوائی جا رہی ہیں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ دونوں ادارے 90 دن کے اندر اپنی تحقیقات مکمل کر کے متعلقہ عدالتوں میں مقدمات دائر کرنے کے پابند ہوں گے۔

افغانستان کو مبینہ جعلی برآمدات کی تحقیقات

شہزاد اکبر نے کہا کہ حکومت نے ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ افغانستان کو ممکنہ طور پر جعلی برآمدات کرنے اور اس کے ذریعے مبینہ طور پر کالا دھن سفید کرنے کے معاملے کی تحقیقات ایف آئی اے کو سپرد کی جا رہی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ چینی بحران رپورٹ میں یہ معلوم ہوا ہے کہ 15 سے 20 ٹن وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھنے والے ٹرکوں کے ذریعے 80 ٹن تک چینی افغانستان کو برآمد کی گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس میں منی لانڈرنگ کا عنصر بھی شامل ہے کیونکہ اس کے ذریعے باہر سے اتنا پیسہ آیا جتنے کی برآمدات نہیں کی گئی ہیں، اور ان کی رسیدیں موجود ہیں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ ایف آئی اے یہ تحقیقات کرے گا کہ آیا اتنی برآمدات کی گئی ہیں یا نہیں، اور ان کی تصدیق افغانستان سے کی جائے گی۔

صوبائی قوانین کی خلاف ورزی کی تحقیقات

آخری قانونی کارروائی گنواتے ہوئے شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ چینی بحران کی رپورٹ میں یہ معلوم ہوا ہے کہ شوگر ملوں نے کئی صوبائی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے جن میں بغیر اجازت اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانا اور اس سے پیدا ہونے والی چینی میں ہیر پھیر شامل ہے۔

اس کے علاوہ شہزاد اکبر نے کہا کہ شوگر ملوں کی جانب سے کسانوں کو گنے کی کم اور تاخیر سے ادائیگی اور گنے کے وزن کو کم کر کے دکھانے جیسے اقدامات کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ معاملات تین صوبوں پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ کے محکمہ انسدادِ بدعنوانی کو بھجوائے جا رہے ہیں۔

معاونِ خصوصی کا کہنا تھا کہ کیونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اینٹی کرپشن کا محکمہ صوبوں کے ماتحت ہے اس لیے اس کی شفاف تحقیقات صوبوں کی ذمہ داری ہے۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ جب چینی بحران پر تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ پاکستان میں شوگر کی صنعت میں نہ تو کوئی ریگولیٹر (نگراں ادارہ) تھا، مافیاز کا گٹھ جوڑ تھا اور ملک کے تمام بڑے سیاسی کھلاڑیوں کا اس میں اپنا اپنا حصہ تھا اور اس سب کا نقصان عوام اور ٹیکس دہندگان کو ہوتا تھا۔

چینی بحران پر رپورٹ کا پس منظر

یاد رہے کہ رواں سال اپریل میں پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں ملک میں ماضی قریب میں پیدا ہونے والے چینی کے بحران کے حوالے سے کہا تھا کہ اس بحران سے فائدہ اٹھانے والوں میں تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی شامل ہیں۔

رپورٹ میں تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار کے قریبی رشتہ دار کے بارے میں کہا گیا کہ انھوں نے اپنے ذاتی فائدے کے لیے اس بحران سے فائدہ اٹھایا۔

حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہٰی کو بھی چینی بحران سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔

چینی بحران، جہانگیر ترین، مونس الٰہی، حمزہ شہباز

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے فروری کے مہینے میں ایف آئی اے کو ملک میں چینی اور آٹے کے بحران سے متعلق مکمل تفتیش کر کے رپورٹ جمع کروانے کے احکامات صادر کیے تھے۔

وزیرِ اعظم کے حکم کے بعد ایف آئی اے نے تمام متعلقہ وفاقی اور صوبائی اداروں سے تحقیقات کے بعد یہ رپورٹس تیار کی تھیں۔

ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا کی سربراہی میں چھ رکنی انکوائری کمیشن نے انکشاف کیا تھا کہ حکومتی شخصیات نے سرکاری سبسڈی حاصل کرنے کے باوجود زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔

فورینزک تحقیقات کا حکم اور رپورٹ

رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے تحقیقات کا وعدہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ چینی بحران پر رپورٹ کے بعد اس کا فورینزک آڈٹ کروایا جائے گا، اور اس کی رپورٹ بھی عام کی جائے گی۔

22 مئی کو وفاقی کابینہ نے چینی بحران سے متعلق فورینزک رپورٹ عام کر دی جس میں پاکستان کے نو بڑے گروپوں کی ملز کی آڈٹ کی تفصیلات شامل تھیں۔

کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی اہم کاروباری شخصیت جہانگیر ترین، سابق حکمران شریف خاندان، گجرات کے چوہدری برادران، پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے ’فراڈ اور ہیرا پھیری کی۔‘

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں چینی کی برآمدات اور سبسڈی سے متعلق سابق وزیر خزانہ اسد عمر کے بیان کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیا۔

فورینزک رپورٹ عام کرنے کے متعلق وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کمیشن کی رپورٹ سے واضح ہو جاتا ہے کہ شوگر ملز مالکان نے عام آدمی اور کسان کے ساتھ فراڈ کیا ہے اور انھیں لوٹا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم یہ بات کرتے تھے کہ ’جو کاروباری ہوتے ہیں وہ حکومت میں نہیں ہوسکتے۔ یہ مفاد کا تضاد ہوتا ہے، اس حوالے سے آج پاکستان کی تاریخ کا اہم دن ہے۔‘