سنہ 1971 میں بارسلونا میں منعقدہ پہلے ہاکی عالمی کپ کا سیمی فائنل میں انڈیا کے خلاف پاکستانی ٹیم کو پلنٹی کارنرملتا ہے لیکن ٹیم کے سب سے تجربہ کار اور اس عالمی کپ میں سب سے زیادہ گول کرنے والے فل بیک تنویر ڈار ان فٹ ہوچکے ہیں۔
کپتان خالد محمود سمیت تمام کھلاڑیوں کی نظریں بیس سالہ نوجوان لیفٹ فل بیک پر ہیں، جسے اب اس پلنٹی کارنر پر ہٹ لگانی ہے۔ اس نوجوان نے اسی ٹورنامنٹ میں اپنے بین الاقوامی کریئر کا آغاز کیا ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کو مایوس نہیں کرتا۔ اس کا یہ فیصلہ کن گول پاکستانی ہاکی ٹیم کو ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچا دیتا ہے۔
یہ منورالزماں تھے جنھیں اس گول نے ہیرو بنا دیا اور وہ اگلے نو برس تک پاکستانی ہاکی ٹیم کا لازمی حصہ بن گئے۔
1972 کے میونخ اولمپکس میں جب پاکستانی ہاکی ٹیم پر پابندی لگی تو اس کی زد میں منورالزماں بھی آئے۔
سنہ 1973 کے ورلڈ کپ کے لیے پاکستان کو نئی ٹیم تشکیل دینی پڑی اور خالد محمود کو ریٹائرمنٹ ختم کروا کر ایک بار پھر قیادت سونپی گئی۔ اس عالمی کپ میں بھی پاکستان کو ایک نیا فل بیک منظور الحسن کی شکل میں ملا۔ کھلاڑیوں پر عائد پابندی ختم ہونے کے بعد منورالزماں ٹیم میں واپس آئے اور پھر منور منظور جوڑی پاکستانی ہاکی کی آنکھ کا تارہ بن گئی۔
منظور الحسن اور منور الزماں اس دور کا حصہ تھے جسے پاکستانی ہاکی کا سنہرا ترین دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں پاکستان نے اولمپکس کے سوا دیگر تمام بین الاقوامی ٹورنامنٹس ایک سے زائد بار جیتے۔ اگر 1980 کے ماسکو اولمپکس کا بائیکاٹ نہ کیا جاتا تو یہ بات یقینی تھی کہ اولمپک گولڈ میڈل بھی پاکستان کا ہوتا۔
دونوں کی جوڑی جیسے مضبوط دیوار
منور الزماں اور منظور الحسن کے پہلے کپتان خالد محمود بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ’دونوں ٹھنڈے مزاج کے کھلاڑی تھے، ان کے درمیان بہت جلدی ہم آہنگی پیدا ہوگئی تھی۔ دونوں کے ہوتے ہوئے پاکستانی ٹیم کو یہ تسلی رہتی تھی کہ حریف فارورڈز آسانی سے ڈی میں نہیں جا سکتے کیونکہ یہ ایک دوسرے کو بہت خوبصورتی سے کور کرتے تھے۔ اگر ایک بیٹ ہو جاتا تو دوسرا اس کے پیچھے تیار رہتا تھا۔ دونوں کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی یہ اپنے حواس پرقابو رکھتے تھے۔ ان پر کبھی بھی گھبراہٹ طاری نہیں ہوتی تھی۔‘
یک جان دو قالب
منظور الحسن اپنے مرحوم ساتھی کے ساتھ گزرے ہوئے وقت کو قیمتی سرمایہ سمجھتے ہیں۔ ’تنویر ڈار کے بعد منورالزماں نے سینئر ہونے کے ناطے میری بڑی رہنمائی کی۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ تکنیکی طور پر مکمل کھلاڑی تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم دونوں میں بہت زبردست ہم آہنگی پیدا ہوگئی تھی، جس نے ہمیں حریف ٹیموں کے خلاف ہمیشہ بہترین پرفارمنس دینے میں مدد کی۔‘
منظور الحسن کہتے ہیں ’عام طور پر ہوتا یہ تھا کہ پہلا پنالٹی کارنر وہ لگاتے تھے اگر گول کردیتے تو دوسرا بھی وہی لگاتے تھے اسی طرح اگر میں کسی پنالٹی کارنر پر گول کردوں تو اگلا پنالٹی کارنر میرا ہوتا تھا۔ آسٹریلیا کے خلاف لاہور میں میچ سے قبل میں نے ان سے کہا کہ کیا آج کے میچ میں پہلا پنالٹی کارنر میں لگاسکتا ہوں جس پر انھوں نے جواب دیا کیوں نہیں ۔ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ میں بہت خوش ہوا۔ میں نے اس پہلے پنالٹی کارنر پر گول کردیا تھا۔‘
منظور الحسن کا کہنا ہے کہ ’گراؤنڈ میں ہمیں کبھی غصہ نہیں آیا۔ اگر کبھی غصہ آتا بھی تھا تو اس کا اظہار گراؤنڈ سے باہر بیٹھ کر بہت دھیمی آواز میں کرلیا کرتے تھے۔ اس گفتگو میں دوسرے کھلاڑی بھی شریک ہوجاتے تھے اور بات ہنسی مذاق پر ختم ہوجاتی تھی۔
ہم ایک دوسرے کو ’آغا‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ جب گراؤنڈ میں ہم میں سے کسی سے غلطی ہوجاتی تھی تو ہم نے اس کے اظہار کا بھی طریقہ طے کررکھا تھا ہم اس وقت ایک دوسرے کو یوں مخاطب کرتے تھے۔ ’آغا منظور‘ ’آغا منور‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو سمجھا لیا کرتے تھے۔ ہم دونوں اور سینٹر ہاف اختررسول حریف ٹیموں کے خلاف اپنی حکمت عملی میدان سے باہر چائے کے کپ پر بنایا کرتے تھے۔‘
منظور الحسن سنہ 1974 ایشین گیمز میں بھارت کے خلاف میچ کو اپنے چند یادگار میچوں میں شمار کرتے ہیں۔ گولڈ میڈل کے لیے ہونے والے اس فیصلہ کن میچ میں پاکستان نے دو صفر سے کامیابی حاصل کی تھی اور یہ گول منورالزماں اور منظور الحسن نے کیے تھے۔
منورالزماں کو بھارت کے خلاف گول کرنے جیسے عادت ہوگئی تھی۔ سنہ 1971ورلڈ کپ سیمی فائنل اور سنہ 1974 ایشین گیمز کے بعد سنہ 1978 کے ایشین گیمز کے فائنل میں بھی ان کے فیصلہ کن گول نے پاکستان کو گولڈ میڈل دلوایا تھا۔
شرٹ نمبر کے ذریعے حریف کھلاڑی کو روکنا
گول کیپر سلیم شیروانی کا ان دونوں کھلاڑیوں کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’ہمارے ٹرائیکا میں بڑی انڈراسٹینڈنگ تھی۔ تینوں کو ایک دوسرے کی موومنٹ کا پتہ رہتا تھا اگر میں ڈی کے اوپر حریف فارورڈ کی طرف جاتا تو مجھے پتہ ہوتا تھا کہ منظور اور منور مجھے کور کرنے کے لیے پیچھے موجود ہوں گے۔ ہم تینوں کو دوسرے پر بھرپور اعتماد تھا۔‘
سلیم شیروانی کہتے ہیں ’میں عموماً آواز لگا کر ان دونوں کو چوکنا کرتا رہتا تھا۔ یورپی ٹیمیں جب ہمارے سامنے کھیل رہی ہوتی تھیں، تو میں ان کے کھلاڑیوں کے شرٹ نمبر کے ذریعے منور اور منظور کو آواز لگاکر کہتا کہ تم فلاں شرٹ نمبر کو روکو۔‘
سلیم شیروانی سنہ 1975 کے عالمی کپ کا فائنل نہیں بھولے، جس میں بھارت نے اشوک کمار کے متنازع گول کی بدولت گولڈمیڈل جیتا تھا۔ وہ کہتے ہیں ’اس میچ میں سمیع اللہ کے زخمی ہوجانے کے سبب ہماری فارورڈ لائن پر بہت دباؤ آگیا تھا اور وہ اپنا روایتی کھیل نہ دکھاسکی۔ اس کے انفرادی کھیل کی وجہ سے منظور اور منور پر بہت زیادہ پریشر آگیا تھا۔ ہاف ٹائم پر ان دونوں کا کہنا تھا کہ ہم کیا کریں ہم فارورڈز کو جو بھی گیند دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ اسے نہیں لے پاتے۔‘
سلیم شیروانی کا کہنا ہے ’جب میں کپتان بنا تو ائر مارشل نورخان اختر رسول کو نائب کپتان بنانا چاہتے تھے جو ان کے خیال میں میرے بعد سب سے سینئر تھے لیکن میں نے انھیں بتایا کہ سنیارٹی میں منورالزماں کا نمبر ہے جس پر انھیں نائب کپتان بنایا گیا اور پھر وہ کپتان بنے۔‘
فل بیک کے بارے میں تاثر تبدیل
فلائنگ ہارس کے نام سے مشہور سمیع اللہ کہتے ہیں کہ ماضی میں بریگیڈئر عاطف۔ صوبیداربشیر۔ ریاض الدین۔ منیرڈار اور تنویر ڈار جیسے بہترین فل بیک آئے لیکن جو کھیل ہم نے منورالزماں اور منظور الحسن میں دیکھا وہ کسی دوسرے میں نہ تھا۔
پہلے یہ تاثر عام تھا کہ جو بھی کھلاڑی دراز قد اور مضبوط جسامت والا ہوگا وہی فل بیک ہوگا لیکن منورالزماں نے اس تاثر کو غلط ثابت کیا۔ عام قد کاٹھ اور جسم کے ساتھ انھوں نے خود کو ایک ورلڈ کلاس فل بیک ثابت کیا۔ ان کی چیکنگ حریف فارورڈ سے گیند چھیننا دیکھنے کے لائق تھا، یہی خوبی منظور الحسن میں بھی تھی۔ سنہ 1982 کے ایشین گیمز میں پاکستان کی جیت میں ان کا اہم کردار رہا تھا۔‘
سمیع اللہ کہتے ہیں ’ان دونوں نے ُپرسکون ہوکرصاف ستھری ہاکی کھیلی۔ کبھی کسی کو اسٹک نہیں ماری نہ جھگڑا کیا نہ رف کھیل کھیلا۔ گراؤنڈ میں ہم نے کبھی منورالزماں کی آواز نہیں سنی۔ یہ دونوں زور دار ہٹیں لگانے والے فل بیک نہیں تھے، لیکن ان کی ہٹیں نپی تلی ہوتی تھیں اور انہی پر انھوں نے گول بھی کیے۔‘
سمیع اللہ کا کہنا ہے ’ہم نے بھارت میں سرجیت سنگھ، ہالینڈ میں کراؤزے اور پال لٹجنس اور دوسری ٹیموں میں بھی کئی تجربہ کار فل بیکس دیکھے لیکن میں بڑی دیانت داری سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ منور اور منظور دنیا کی بہترین جوڑی تھی۔
یہ آسانی سے قابو میں آنے والے نہیں تھے
سنہ 1975 کا عالمی کپ جیتنے والی بھارتی ہاکی ٹیم کے کپتان اجیت پال سنگھ بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے گئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’وہ ہاکی کا سنہری دور تھا، جس میں زیادہ تر فائنل اور سیمی فائنل پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوا کرتے تھے۔ پاکستانی ٹیم کے پاس ہر پوزیشن پر کھیلنے والا ورلڈ کلاس کھلاڑی موجود تھا۔ منظور الحسن اور منورالزماں انہی میں سے تھے۔‘ سابق انڈین کپتان کا کہنا ہے کہ اس دور میں پاک بھارت میچ ایک بار شروع ہوجائے تو پھر کسی کے لیے اس سے نظر ہٹانا ممکن نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس میں سنسنی خیزی بھی تھی اور روایتی اسٹک ورک کی مہارت بھی۔
اجیت پال سنگھ کہتے ہیں کہ ’منظور الحسن اور منورالزماں بہت نظم وضبط والے کھلاڑی تھے ۔ان کا کھیل مستحکم تھا انھیں بیٹ کرنا مشکل ہوتا تھا۔ ان کے بعد تو صرف گول کیپر ہوتا تھا لہٰذا ان دونوں کی کوشش ہوتی تھی کہ گول کیپر کو زیادہ آزمائش میں نہ ڈالا جائے۔ یہ دونوں آسانی سے قابو میں آنے والے کھلاڑی نہیں تھے۔‘
اجیت پال سنگھ کو آج بھی منظور، منور، اصلاح، رشید جونیئر، شہناز شیخ، اختر رسول اور سمیع اللہ یاد آتے ہیں، جن کے ساتھ انھوں نے میدان میں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہاکی کھیلی۔سابق انڈین ہاکی کپتان کا کہنا ہے کہ میدان میں گرما گرمی ہوتی تھی لیکن میدان سے باہر جپھی ڈالی اور دوستیاں بھی نبھائیں، ساتھ کھانے بھی کھائے اور تفریح بھی کی۔
منور کے ہاتھوں پہلی آسٹروٹرف کا افتتاح
پاکستان میں پہلی آسٹروٹرف کراچی کے ہاکی کلب آف پاکستان اسٹیڈیم میں بچھائی گئی۔پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر ائر مارشل نورخان نے خود افتتاح کرنے کے بجائے یہ اعزاز منورالزماں کو دیا کہ وہ اس کا افتتاح کریں۔ منورالزماں نے گیند کو آہستگی سے آسٹروٹرف پر پھینک کر اس کا افتتاح کیا۔ سنہ 1980 میں اسی آسٹرو ٹرف پر دوسری چیمپئنز ٹرافی کھیلی گئی تھی جو پاکستان نے منورالزماں کی قیادت میں جیتی تھی۔
دونوں کھلاڑیوں کے شاندار کریئر
منظورالحسن نے 154 بین الاقوامی میچوں میں 101 گول کیے۔ وہ سنہ 1982 کا عالمی کپ جیتنے والی ٹیم میں شامل تھے۔ وہ سنہ 1976 کے مانٹریال اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیتنے والی ٹیم کا حصہ تھے۔ سنہ 1974، 1978 اور 1982 میں پاکستان کی جن ٹیموں نے ایشین گیمز میں گولڈ میڈل جیتا ان میں بھی منظور الحسن شامل تھے۔
اس کے علاوہ وہ سنہ 1978 اور 1980 کی چیمپئنز ٹرافی جیتنے والی ٹیم میں بھی موجود تھے۔
منظور الحسن پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ بھی رہے ہیں۔
منورالزماں نے 119 بین الاقوامی مقابلوں میں 44 گول کیے۔ وہ سنہ 1971اور 1978 کا عالمی کپ جیتنے والی ٹیم میں شامل تھے۔ وہ سنہ 1974 اور 1978 کی ایشین گیمز کی فاتح ٹیم کا بھی حصہ تھے۔
وہ ان ٹیموں میں بھی شامل تھے جو 1972 کے میونخ اولمپکس میں چاندی اور 1976کے مانٹریال اولمپکس میں کانسی کا تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ وہ سنہ 1978 اور 1980 کی چیمپئنز ٹرافی کی فاتح ٹیم میں بھی شامل تھے۔
انھوں نے چوبیس بین الاقوامی میچوں میں پاکستان کی قیادت کی جو تمام کے تمام جیتے۔
وہ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستانی ٹیم کے کوچ بھی رہے۔
28 جولائی 1994 کو کراچی میں پاکستان ویٹرنز ہاکی ٹیم ویٹرنز ورلڈ کپ کی تیاری میں مصروف تھی کہ منورالزماں دل کا دورہ پڑنے اس ہلاک ہو گئے۔