دوستوں کو اطلاع ہو کہ مجھے کرونا ہو گیا ہے۔ جب سے کرونا کی وبا پھیلی تھی میں بہت احتیاط کر رہا تھا۔ دستانے اور ماسک پہن کر باہر نکلتا رہا۔ سماجی دوری کا خیال رکھا۔ تقریبات میں جانا تقریباً چھوڑ دیا تھا۔ معمول کی ادویات کے علاوہ کلونجی بھی پانی کے ساتھ مسلسل لے رہا تھا۔ ساتھ ہی لہسن کی تری دہی میں ڈال کر کھا رہا تھا۔
لونگ اور ادرک والا قہوہ اہلِ خانہ زبردستی پلا رہے تھے۔ وٹامن سی کی موٹی اور پیلی سی گولی بھی پانی میں ملا کر دن میں دو بار پی رہا تھا۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود آئی کو کون ٹال سکتا ہے، تقدیر سے کہاں تک لڑا جا سکتا ہے۔ کرونا نے مجھے لگنا تھا، سو لگ گئی۔ کس نے لگائی، کس سے ہاتھ ملایا یا کس کی چھینک سے میں گرفتارِ وبا ہوا؟ اس کا قصہ چھوڑیں۔
جونہی کرونا ٹیسٹ مثبت آیا میں نے آنکھیں بند کرکے سوچا سامان سو برس کا تھا خبر پل کی بھی نہیں۔ کیا کیا ارادے تھے۔ وہ کتاب لکھنی ہے، نوٹس تیار ہیں، مناسب وقت کا انتظار تھا، روم کو دیکھنا ہے۔ اہرامِ مصر اور عجائباتِ فراعنہ کا نظارہ کرنا ہے۔ بہت دنیا گھوم لی مگر حوروں اور پریوں کے دیس سنٹرل ایشیا کے بہت سے ممالک کی سیر کرنا ابھی باقی ہے۔ ہزاروں خواہشیں باقی ہیں۔ پھر خیال آیا دامن میں ہے کیا؟
اس دنیا میں کچھ بھی تو نہیں کیا؟ 8کتابیں لکھ دیں کالم، مضمون اور تجزیوں سے صفحات کالے کر ڈالے۔ ٹی وی پر سینکڑوں پروگرام کیے مگر کیا اس سے کچھ بدلا؟ ان سوالوں کا جواب بھی خود ہی ذہن میں آیا، میرا کام تاریخ بنانا یا بدلنانہیں ،میرا کام اپنے ضمیر کے مطابق تاریخ کی صحیح سمت کا ساتھ دینا ہے، اِس میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔
آج تک شعوری طور پر کسی کا استحصال نہیں کیا، کسی سے بدکلامی نہیں کی، اگر کہیں غصہ آ گیا تو بعد میں معذرت کی۔ کچھ مہربانوں نے زندگی بھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر سازشیں کیں لیکن میں نے کبھی جواب نہیں دیا۔ انہیں احساس تک نہیں دلایا کہ مجھے سب علم ہے اور یہ بھی کوشش کی ہے کہ ہر بری چیز کو بھلادوں اور دوسروں کے صرف اچھے کاموں کو یاد رکھوں۔
اہلِ دل ہوں، اس لئے دل کا عارضہ بھی پال رکھا ہے۔ طبیعت میں میٹھا پن ہے اس لئے مِس ذیابیطس بھی میرے دامِ محبت میں گرفتار ہے۔ گو شاعر نہیں ہوں مگر طبیعت شاعرانہ ہے اس لئے کھیل کود اور ورزش سے حتیٰ الامکان گریز ہے۔
جھوٹ سے حتیٰ الامکان گریز اور سچ کا ساتھ کئی سالوں سے ایمان بنایا ہوا ہے۔آسان کوشی کی جو بھی پیچیدگیاں پچاس سال کے بعد در آتی ہیں وہ سب بدرجہ اتم موجود ہیں مگر زندگی اس سب کے باوجود اچھی گزر رہی تھی کہ کرونا نے آ لیا ہے۔
اس کرونا کی رام لیلا کا آغاز پانچ روز پہلے ہوا، حسبِ معمول صبح اٹھا، اسٹڈی روم کا باہر والا دروازہ کھولا کہ صبح کی صاف اور ٹھنڈی ہوا سے من کی آلودگی کوصاف کروں۔ ہلکا سا زکام تھا، یہ معمول کی بات ہے صبح صبح مجھے زکام ہوتا ہے، سورج اوپر چڑھتا ہے تو غائب ہو جاتا ہے مگر اس دن سے آج تک زکام، فلو اور پھر لگاتار چھینکیں۔
ساتھ ہی ساتھ گلے اور سر میں درد بھی محسوس ہونے لگا۔ پہلے تو مجھے یوں لگا کہ یہ سب وہم ہے، یہ بھی محسوس ہوا کہ کرونا جیسی علامات ضرور ہوں مگر کرونا مجھے کہاں ہوگا، میں تو بہت احتیاط کر رہا ہوں مگر اسی شام ٹیسٹ کروایا تو پتا چلا کہ میں بھی گرفتارِ بلا ہو چکا ہوں اس کے بعد تھرما میٹر کا پارہ کبھی 100اور کبھی 99کو پہنچتا ہے کبھی نارمل ہو جاتا ہے۔
سر درد البتہ مستقل ہے۔ پانچ روز سے قرنطینہ میں ہوں، روز اپنا حساب کرتا ہوں، اپنے گناہوں کے ڈھیر کو دیکھتا ہوں تو خوفزدہ ہو جاتا ہوں اور اگر حضرت سلطان باہو کی طرح خدا کی عنایات کو دیکھتا ہوں جو بےپایاں اور بےشمار ہیںتو دل مطمئن ہو جاتا ہے۔
میں کرونا سے بچوں یا اس کا شکار ہو جائوں، انسانیت اور انسان کی کوششوں پر میرا یقین کامل ہے۔ صدیوں سے انسان کائنات کو مسخر کرتا آیا ہے، کرونا پر بھی قابو پا لے گا۔ میں کرونا کا شکار ہو بھی جائوں، میری آنے والی نسلیں ضرور اس کا مداوا کر لیں گی۔
ہر آنے والے دور میں انسان نے کائنات کو اپنے لئےسازگار بنانے کی کوشش کی ہے، پہلے یہی انسان جانوروں سے ڈرتا تھا اب سب جانور اس سے ڈرتے ہیں۔ ہزاروں سال پہلے سے آج تک ملیریا، تپ دق اور طاعون بستیاں کی بستیاں مٹاتی رہیں مگر بالآخر حضرت انسان نے ان کا تریاق ڈھونڈھ لیا اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس کام میں دیر ہو سکتی ہے مگر اندھیر ہرگز نہیں۔
کتابوں سے بہت سیکھا۔ انہوں نے بہت سکھایا۔ سب سے بڑی بات یہ پتا چلی کہ ہمیں کتنا کم علم ہے اور دنیا میں بہت ہی ایسے علوم ہیں جن تک ہم ابھی تک پہنچ نہیں سکے۔ لاعلمی کا علم ہو جائے تو آپ فرعونیت سے بچ جاتے ہیں، آپ خود کو اس عظیم کائنات کا چھوٹا سا ذرہ محسوس کرنے لگتے ہیں، حقیقت بھی یہی ہے، اسی حقیقت سے انکساری اور انسانیت کا درس بھی ملتا ہے۔
میں آج ہوں کل نہیں ہوں گا مگر کائنات اسی طرح چلتی رہے گی۔ میں نہ قسطنطنیہ فتح کر سکا، نہ لال قلعہ دہلی پر ہلالی پرچم لہرا سکا مگر پھر بھی مجھے اطمینان ہے کہ اس لشکر کا کمزور سپاہی ضرور رہا جو دنیا بھر میں آزادی اور مساوات کے پھریرے لہرانا چاہتا ہے۔
جو انسانوں کے استحصال کے خلاف ہے۔ جو ظلم کو ناپسند کرتا ہے۔ جو قانون، آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق اور آزادیوں کے لئے پیش پیش رہتا ہے، جو دنیا بھر کے غریبوں، مظلوموں، مجبوروں، اقلیتوں اور قیدیوں کے لئے بھی نیک جذبات رکھتا ہے انہیں بھی برابر کا انسان سمجھتا ہے۔
مجھے علم ہے کہ میں بزدل ہوں بہادر ہوتا تو ہر ایک ظالم کو سرعام للکارتا، بزدل ہوں مگر پھر بھی بزدلی سے لڑتا ہوں، خاموش کبھی نہیں رہا، اپنے ضمیر کی آواز کو کبھی بلند آہنگ کبھی دھیمے سروں میں ضرور بلند کرتا رہا، کبھی چھپ کر اور منہ بند کرکے نہیں بیٹھا۔ اپنی کمزور نحیف آواز میں جسے میں سچ سمجھتا رہا، کہتا رہا اور اب بھی اگر زندہ رہا تو کہتا رہوں گا۔
مجھے علم ہے کہ میں ہیرو نہیں ہوں، میں ہیرو بننا بھی نہیں چاہتا، علم کے راستے کا ادنیٰ ترین طالب علم ہوں اور یہی رہنا چاہتا ہوں۔ مذہبی شدت پسند نہیں ہوں مگر رزقِ حلال پر مکمل ایمان ہے۔
رزقِ حلال کے سوا گھر میں کبھی کچھ نہیں آیا۔ یہی سب سے بڑا اطمینان ہے۔ اپنے ضمیر کا نہ کبھی سودا کیا نہ سودا کرنے کا سوچا۔ نہ کوئی عہدہ لیا نہ لینے کا ارادہ ہے۔ نہ کوئی تمغہ نہ کوئی ایوارڈ لیا نہ لینا ہے۔ میرا تمغہ، میرا ایوارڈ، میرا عہدہ صرف اور صرف ایسے صحافی کا ہے جو اپنے مافی الضمیر سے کام لے کر لوگوں کو درست اطلاعات پہنچا رہا۔
اپنے ذاتی مفادات اور نظریات سے ہٹ کر معروضی تبصرے پیش کرتا رہا۔ زندہ رہا تو یہی کروں گا مر گیا تو میری جگہ کوئی اور یہ کام کرتا رہے گا۔