رمضان کے دوسرے عشرے کے دوران کابینہ کا ایک اجلاس ہوا تھا۔ اس میں موجود وزراء کی ایک بڑی تعداد وزیر اعظم سے شکوہ کرتی رہی کہ ’’اندر کی باتیں‘‘ صحافیوں تک پہنچادی جاتی ہیں۔کوئی بات خفیہ نہیں رہی۔ اس ضمن میں چند وزراء کے نام بھی لئے گئے جو مبینہ طورپر اپنے ہی ’’ساتھیوں‘‘ کو ’’بدنام‘‘ کرنے کے لئے ان کی کابینہ میں کہی باتوں کو بڑھاچڑھا کر میڈیا تک پہنچادیتے ہیں۔
مجھ تک یہ خبر پہنچی تو ہرگز حیران نہیں ہوا۔ میرے اندر کا رپورٹر جب تک متحرک رہا مختلف حکومتوں کے دوران ’’اندر کی باتیں‘‘ منظرِ عام پر لانے کا اکثر گنہگار ٹھہرایا گیا۔میری Sourcesجنہیں ذرائع کہا جاتا ہے کا سراغ لگانے کی کوششیں بھی ہوتی رہیں۔دُکھ ہمیشہ مگر یہ جان کر ہوا کہ جن وزراء پر مجھے خبریں دینے کے الزام لگے وہ اس ضمن میں قطعاََ خطاوار نہیں تھے۔ ان میں سے اکثر گھبراکر مجھ سے کنی کترانا شروع ہوجاتے۔چند لوگوں سے میں ازخود فاصلہ رکھنا شروع ہوجاتا۔
ان دنوں میرے ایک پیارے ساتھی رئوف کلاسرا کابینہ کی اندرونی کہانیوں کی تلاش میں دل وجان سے مصروف رہتے ہیں۔اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے انہیں اکثر عیاں بھی کردیتے ہیں۔’’اندر کی کہانی‘‘ کیسے ڈھونڈی جاتی ہے۔اس ’’ہنر‘‘ کو کوئی ’’غیر صحافی‘‘ سمجھ ہی نہیں سکتا۔سوچ رکھا تھا کہ جب متحرک صحافت سے ریٹائر ہوجائوں گا تو فرصت کے لمحات میں یاداشتیں جیسی کتاب لکھوں گا۔اس کا ایک باب ’’اندر کی کہانیوں‘‘ کو تلاش کرنے اور بیان کرنے کی بابت ہوگا۔اس ضمن میں ہماری سیاسی تاریخ کی چند بہت ہی اہم ’’خبروں‘‘کا ذکر بھی مناسب ہوگا جو میرے ہاتھ لگیں۔
میرے نصیب میں ایسی مہلت مگر لکھی ہی نہیںگئی۔ یوں گماں ہوتا ہے کہ مرتے دم تک ڈنگ ٹپائو کالم لکھتے ہوئے رزق کمانا پڑے گا۔ ویسے بھی حالیہ برسوں میں ہماری ’’صحافت‘‘ نے جو چلن اختیار کیا ہے وہ مجھ جیسے پرانی وضع کے شخص کے لئے بہت ہی ’’جدید‘‘ ہے۔اس سے وابستہ ہونے کی ہمت وسکت مجھ میں باقی نہیں رہی۔
بہرحال کابینہ کے جس اجلاس میں ’’اندر کی باتیں‘‘ میڈیا تک پہنچ جانے کی بابت دہائی مچائی جارہی تھی وہاں موجود ایک رکن نے انتہائی دردمندی سے اپنے دیگر ساتھیوں سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ’’فروعی‘‘ معاملات میں وقت ضائع نہ کیا جائے۔گندم کی فصل کٹ چکی ہے۔حکومت نے اپنے لئے یہ گندم حاصل کرنے کا جو ہدف طے کیا تھا اس سے کہیں زیادہ گندم خریدنے میں وہ یقینا کامیاب ہوئی ہے۔یہ ’’کامیابی‘‘ مگر طویل المدتی بنیادوں پر کام نہیں آئے گی۔اس برس کے آخری مہینوں میں ایک بار پھر گندم کا بحران کھڑا ہوجائے گا۔بہتر یہی ہے کہ ابھی سے بیرون ملک سے گندم منگوانے کا فیصلہ کرلیا جائے۔
جس اجلاس کا میں ذکر کررہا ہوں وہاں یہ بات سنی ان سنی کردی گئی تھی۔پیر کی صبح اُٹھ کر اخبارات پرسرسری نگاہ ڈالی تو معلوم ہوا کہ اتوار کے روز چٹھی کے باوجود عمران خان صاحب مختلف موضوعات پر فیصلہ سازی میں مصروف رہے۔ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ ملک میں گندم درآمد کرنے کی تقریباََ کھلی چھوٹ دی جائے۔
یہ فیصلہ کیوں ہوا؟ اس کے اسباب جاننا ضروری ہے۔شہری متوسط طبقے کے دلوں میں چسکے کی ہوس پوری کرنے کو بے چین مجھ جیسے صحافی زرعی معاملات پر لکھنا یا بولنا وقت کا زیاں گردانتے ہیں۔چند نامور لوگوں کی پگڑی اچھالے بغیر کالموں کو سوشل میڈیا پر Likesنصیب نہیں ہوتے۔ ٹی وی سکرینوں کو Ratingsنہیں ملتی۔ اسی باعث روایتی میڈیا کے ذریعے ہم لوگ یہ جان ہی نہیں پائے کہ پیٹرول کی قیمت میں ’’ریکارڈ‘‘ کمی کا اعلان ہونے کے باوجود گزشتہ کئی دنوں سے پیٹرول پمپوں کے باہر موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کی طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ ’’شوگرمافیا‘‘ کی دشمن ہوئی عمران حکومت تیل کی ترسیل اور فروخت پر اجارہ دار مافیا کے روبرو بے بس نظر آئی۔
یہ کالم لکھنے سے قبل میں نے فیصل آباد اور پوٹھوہار کے چند شہروں میں موجود دوستوں سے رابطہ کیا۔ مجھے خبر ملی ہے کہ فرض کریں میں ایک من گندم ذاتی استعمال کے لئے خریدنا چاہوں تو وہ ’’سفارش‘‘ سے 1750روپے کے نرخ پر میسر ہوسکتی ہے۔عمومی نرخ وگرنہ 1800روپے فی من تک پہنچ چکا ہے۔حکومت کسان سے گندم 1400روپے فی من خریدتی ہے۔یاد رہے کہ پیپلز پارٹی جب 2008میں برسراقتدار آئی تو ملک میں گندم کا شدید بحران تھا۔ اس حکومت نے گندم کا سرکاری نرخ 1300روپے فی من مقرر کیا۔اس کی بدولت ریکارڈ پیداوار یقینی ہوگئی۔
شہری متوسط طبقے کے تعصبات کے غلام ہم صحافیوں کی اکثریت نے جاہلانہ رعونت سے یہ تاثر پھیلانا شروع کردیا کہ پیپلز پارٹی کے ’’وڈیروں‘‘ نے منافع کی ہوس میں مذکورہ نرخ مقرر کیا۔ شہروں میں بسے دیہاڑی داروں اور کم تنخواہ دار طبقے کی مشکلات کو اس ضمن میں نظرانداز کردیا۔
گندم کا سرکاری نرخ 1300روپے فی من 2008میں طے ہوا تھا۔ ان دنوں یہ قیمت 1400روپے فی من ہے۔ٹھوس حوالوں سے لہذا بارہ سالوں میں فقط 100روپے فی من کا اضافہ ہوا ہے۔اس بارہ سالوں میں بجلی اور ڈیزل کے نرخوں میں جو اضافہ ہوا اسے ذہن میں رکھیں تو کسی کسان کے لئے گندم اُگانا لاگت اور آمدنی کے تقابلی تناظر میں پرکشش نہیں رہا۔ وہ گندم کے بجائے مثال کے طورپر گنا اُگانے کو ترجیح دینا شروع ہوگیا۔ گندم نومبر میں لگاکر اپریل مئی تک انتظار کرنا ہوتا ہے۔اس دوران فصل پر کڑی نگاہ بھی رکھنا ہوتی ہے۔گنے کی فصل اس کے مقابلے میں ایک سال کے دوران تیار ہوتی ہے۔اسے گندم جیسی دیکھ بحال کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔لاگت کے مقابلے میں آمدنی بھی نقد رقوم کی صورت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
کسان اپنے رقبے کا کچھ حصہ گندم اُگانے کے لئے اب بھی وقف کرتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ ہمارے ہاں صدیوں سے مروج یہ ثقافتی رویہ ہے کہ میرے گھر میں ضرورت سے وافر ’’دانہ‘‘ موجود ہونا چاہیے۔ گندم کی فصل سے اسے نقدآمدنی زیادہ پُرکشش نظر نہیں آتی۔
اس برس گندم پیدا کرنے والے کئی علاقوں میں فقط بے موسمی بارشیں ہی نہیں ہوئیں۔جنوبی پنجاب اور پوٹھوہار کے بے تحاشہ رقبے ژالہ باری کی زد میں بھی آئے۔ ان کی وجہ سے ان علاقوں میں گندم کا کم از کم 20فی صد حصہ ضائع ہوگیا۔ کئی علاقوں میں گندم پیدا ہوئی تب بھی اس کا دانہ تیز دھوپ کی تمازت سے محروم ہونے کی وجہ سے توانا تر نہیں ہوپایا۔
گزشتہ برس کے آٹا بحران کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمران حکومت نے اس برس پنجاب میں گندم کو سرکاری گوداموں کے لئے خریدنے کے لئے بہت سختی سے کام لیا۔کئی ’’ڈیروں‘‘ پر ذخیرہ اندوزی کے شبے میں چھاپے پڑے۔ ایف آئی آر کٹیں۔جن ’’ڈیرے داروں‘‘ نے مزاحمت کی کوشش کی ان کے خلاف ’’کارِ سرکار میں مداخلت‘‘ کے پرچے بھی کٹے۔
معیشت میں لیکن بالآخر آمدنی ولاگت اور طلب ورسد کی منطق ہی حاوی رہتی ہے۔گندم میں ’’خودکفالت‘‘ کو یقینی بنانے کے لئے جرمنی یوکرین پر قابض ہوا تھا۔بعدازاں سوویت یونین کے کڑے نظام نے اس خطے کو گندم کی پیداوار کے لئے وقف کردیا۔ہمارے ہاں سوویت یونین اور ہٹلر والا نظام لاگو کرنا ممکن ہی نہیں۔ آمدنی ولاگت اور طلب ورسد کی منطق ہی کام آسکتی ہے۔
شوگر مافیا سے تخت یا تختہ والا معرکہ برپا کرنے کو بے چین حکومت کے لئے لہذا ضروری ہوگیا کہ گندم کی بیرون ملک سے خریداری کے ذریعے پاکستان میں اس جنس کی قیمت کو قابل برداشت رکھے۔گندم کی درآمد کے فیصلے کے بعد ڈیرہ داروں کے ہاں ’’ذخیرہ اندوزی‘‘ کا سراغ لگانے کے لئے چھاپوں کی ضرورت اب باقی نہیں رہے گی۔ اسی باعث گندم کی بین الاضلاعی اور بین الصوبائی ترسیل کو روکنے کے لئے جو ناکے لگائے گئے تھے وہ بھی اٹھالئے گئے۔
اتوار کے روز ہوا فیصلہ ہر حوالے سے معقول اور اشد ضروری تھا۔ یہ سوال مگر اپنی جگہ موجود رہے گاکہ لاگت وآمدنی اور طلب ورسد کی منطق کا احترام کرتا یہ فیصلہ آنے والے دنوں میں گندم اور آٹے کی قیمتوں کو قابلِ برداشت رکھنے میں عملی اعتبار سے کام آئے گا یا نہیں۔