غالب نے کہا تھا ؎
یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں
فرزندِ لال حویلی کے ہاں د شنام اور اتہام کا جتنا ذخیرہ ہے‘ اس کا بیشتر حصہ ان دنوں شہباز شریف کیلئے استعمال ہو رہا ہے۔ ویسے تو نواز شریف کی تضحیک اور تمسخر میں بھی موصوف کو آخری حد تک جانے میں کوئی عار نہیں ہوتی‘اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں نواز شریف کے متعلق ان کا کہنا تھا : اس کے رِ نگ پسٹن بیٹھ چکے‘ اس کے پلگ میں کچرا آگیا‘اس کا انجن دھواں دے رہا ہے۔ یہ وہی نواز شریف ہیں جنہیں وہ کبھی قائداعظم اور قائد ملت لیاقت علی خاں کے بعد پاکستان کا عظیم ترین لیڈر قرار دیا کرتے تھے۔ میاں صاحب کی پہلی دونوں حکومتوں میں‘ جب شیخ صاحب ان کے وزیر ہوتے تھے‘ اپنے لیڈر کے حق میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ‘ان کی تقاریر آج بھی پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے آرکائیو میں موجود ہیں۔سب سے بڑی گواہی شیخ کی کتاب ”فرزندِ پاکستان‘‘ہے جو انہوں نے بے نظیر صاحبہ کی دوسری حکومت کے دوران بہاولپور جیل میں لکھی۔ گزشتہ دنوں ان کا کہنا تھا کہ وہ ان دنوں نئی کتاب لکھ رہے ہیں(اور ان کی خواہش ہے کہ ”فرزندِ پاکستان‘‘ کی طرح اس کا دیباچہ بھی شامی صاحب لکھیں) ۔جنرل مشرف کے دور میں شیخ کہا کرتے تھے ”سیاست تو میں اب کر رہا ہوں‘ اس سے پہلے تو جھک ہی مارتا رہا‘‘اور یہ بھی کہ” اب میں نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا ہے‘‘۔ تو کیا اپنی نئی کتاب کے پیش لفظ میں وہ ”فرزندِ پاکستان‘‘ سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے لکھیں گے کہ اصل کتاب یہ ہے‘ پچھلی کتاب میں تو میں نے جھک ماری تھی۔ ہمیں یہاں صوبہ سرحد کے مردِ آہن خان عبدالقیوم خاں (مرحوم) یاد آئے‘ کانگرس میں تھے توقائد اعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ کے خلاف ”گولڈ اینڈ گنز‘‘ لکھی۔ تقسیم سے پہلے مسلم لیگ جوائن کر لی اور قیام پاکستان کے بعد صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بنے تو سب سے پہلے نیکی کا جو کام کیا وہ ” گولڈ اینڈ گنز‘‘ پر پابندی کا حکم تھا۔لگتا ہے ‘ عید کے بعد”ٹارزن ‘‘ کے حملے سے شہباز شریف کا بچ نکلنا شیخ صاحب کے لیے سخت صدمے کا باعث بن گیا ہے۔گزشتہ دنوںفرمایا: یہ کوئی لیڈر ہے جس کے پیچھے پولیس لگی ہوئی ہے اور وہ چھپتا پھر رہا ہے… پولیس 2جون کو پکڑنے گئی تو ماڈل ٹاؤن والے گھر میں پیچھے کمرے میں چھپا ہوا تھا‘لیکن دو دن پہلے تو میڈیا کے لیے موصوف کی ”خبر‘‘ تھی کہ شہباز شریف گرفتاری کے ڈر سے صبح ہی گھر سے نکل گیا تھا۔
ان دنوں سمارٹ لاک ڈاؤن کی فرصت میں ‘ پرانی چیزیں کھنگالتے ہوئے‘ہمیں اپنا 13اکتوبر2008ء کا (جدہ میں لکھا ہوا) کالم ہاتھ لگا۔ یہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ تھا۔ جدہ سے جلا وطنی سے پہلے اور بعد میں بھی رمضان المبارک کا آخری عشرہ حرمین میں گزارنا نواز شریف کا معمول تھا۔ 2008ء میں یہ آصف زرداری کی صدارت اور یوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمیٰ کا دور تھا۔ فروری کے انتخابات کے بعد معاہدہ بھوربن سے شروع ہونے والا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا ہنی مون ختم ہو چکا تھا اور وفاق میں مسلم لیگ (ن) حزبِ اختلاف کی نشستوں پر جا بیٹھی تھی(البتہ پنجاب میں پیپلز پارٹی‘ شہباز شریف کی حکومت میں موجود تھی)۔ نواز شریف پارلیمنٹ میں نہیں تھے؛ چنانچہ اپوزیشن لیڈر کا منصب چودھری نثار علی خاںکے سپرد ہوا۔اس سے پہلے قاف لیگ کے چودھری پرویز الٰہی اس منصب پر فائز تھے۔ بعد میں پیپلز پارٹی سے اتحاد کے ساتھ وہ ڈپٹی پرائم منسٹر بن گئے۔رمضان المبارک کا آخری عشرہ حرمین میں گزارنے کے لیے میاں صاحب لاہور سے روانہ ہوئے تو جاوید ہاشمی بھی اسی فلائٹ میں تھے ۔ ہاشمی صاحب کو سلام کرتے اور ان سے سر پر پیار لیتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا‘ انکل! سیاست میں‘ میں آپ کو آئیڈیلائز کرتی ہوں۔شیخ رشید بھی ان دنوں عمرے پر تھے۔ وہ فروری 2008ئکے الیکشن میں راولپنڈی کی ایک نشست پر حنیف عباسی سے اور دوسری پر جاوید ہاشمی سے اس بے طرح ہارے کہ ضمانت بھی نہ بچا سکے اور اب 13اکتوبر 2008ء والے کالم کا کچھ حصہ:پاکستان ہائوس (مکہ مکرمہ) کے باہر جاوید ہاشمی کو دیکھ کر شیخ رشید آگے بڑھے‘ بانہیں پھیلا دیں اور کہا: مجھے ہارنا ہی تھا۔ خوشی ہے کہ تم جیسے بڑے پہلوان سے ہارا‘ کسی ”للوپنجو‘‘ سے ہارتا تو بہت رسوائی ہوتی۔شیخ صاحب نے ہاشمی کا ہاتھ تھام لیا۔” تم نے میرا ٹی وی پروگرام دیکھا ہوگا میں نے کہہ دیا تھا کہ مسلم لیگ تمہیں صدارتی امید وار بنائے گی‘ نہ لیڈر آف دی اپوزیشن ۔ ہاشمی جلدی میں تھے کہ سحری مدینتہ النبیﷺ میں پہنچ کر کریں۔ چوہدری سعید جٹ گاڑی لے کر پہنچ گئے تھے۔ہاشمی صاحب نے خدا حافظ کہا اور گاڑی کی طرف لپکے ۔ اب شیخ صاحب ہم سے مخاطب تھے: یہ بہت سادہ آدمی ہے ۔اس سے پوچھنا‘ 2003ئمیں اس کی گرفتاری سے پہلے میں نے اسے کیا کہاتھا۔ میں نے بہت سمجھایا‘ اسے بچانے کی بہت کوشش کی لیکن اس کا تو یہ حال تھا۔
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی
ہاشمی‘ مدینہ منورہ سے لوٹ آئے تو ہمارے استفسار پر وہ راز کی بات بتائی ”یہ اکتوبر 2003ئمیں میری گرفتاری سے چند روز پہلے کی بات ہے۔ شیخ صاحب نوائے وقت کے فنکشن میں ملتان آئے ہوئے تھے۔رات گئے میرے ہاں آ ئے اور کہا‘ جنرل تم سے بہت ناراض ہے۔ تم اب بھی ہاتھ ہلکاکرلو‘ تو شاید تمہیں بچالوں‘ ورنہ جیل میں5‘4سال تو کہیں نہیں گئے۔اب تمہاری عمر مارکھانے اور جیل جانے کی نہیں۔پھر وہ بینظیر دور کی اپنی جیل یاتراکی مثال دینے لگے کہ انہیں7سال کی سزاہوئی تھی لیکن 2سال بعد ہی حال یہ ہوگیا تھا کہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونا محال ہوجاتا۔اور پھر چند روز بعد جاوید ہاشمی بغاوت اور غداری کے مقدمے میں گرفتار کرلئے گئے۔ مشرف دور میں ان کی پہلی گرفتاری ڈیڑھ سال پر محیط تھی ‘ تب خواجہ سعد رفیق ‘ خواجہ احمد اور ڈپٹی میئر آفتاب اصغر ڈار(مرحوم) بھی اس منزلِ جنوں میں ان کے ہمسفر تھے۔اکتوبر2002ء کا الیکشن ہاشمی نے جیل ہی سے لڑا ۔ ایک سال بعد وہ پھر زیر عتاب تھا۔ اس بار یہ عرصہ پونے 4سال پر محیط تھا۔ ٹی وی چینلز نے سیاسی لیڈروں کے عوام کیلئے اجنبی نہیں رہنے دیا۔ پاکستان ہائوس سے حرم تک آمد ورفت میں بے شمار لوگ ہاشمی سے مصافحہ کرتے‘ گلے ملتے‘ لوگ اپنے اپنے حساب سے اپنے پسندیدہ لیڈروں کیPlacingکرلیتے ہیں۔ بہت سوں کیلئے مسلم لیگ(ن) میں میاں برادران کے بعد ہاشمی کا نمبر آتا ہے کہ میاں صاحب کی جلا وطنی کے 7سال میں مسلم لیگ(ن) کے قائم مقام صدروہی تھے۔ مشرف کے پونے 9سال میں تقریباً6سال قید کاٹی ۔چوہدری نثار قائد ِحزب اختلاف بنے تو بعض کالم نگار دوستوں نے اسے ہاشمی کی حق تلفی قرار دیا۔ رمضان کے آخری عشرے کی ایک شب ہاشمی سے گپ شپ ہورہی تھی۔ ہاشمی کا کہنا تھا: خدا شاہد ہے ‘اپوزیشن لیڈر نہ بنائے جانے کامجھے کوئی دکھ نہیں۔ میں اب بھی میاں صاحب کی قیادت میں کام کرنا باعث ِفخر سمجھتا ہوں ۔
میاں صاحب یکم اکتوبر کی شام مدینہ منورہ سے جدہ لوٹ آئے تھے 6اکتوبر کو وطن واپسی تھی۔4اکتوبر کو کونڈالیزا رائس دہلی میں تھیں‘ دہلی سے واشنگٹن واپس جاتے ہوئے پاکستان میں میاں صاحب سے ملاقات کی خواہاں تھیں ۔ میاں صاحب نے پہلے سے طے شدہ شیڈول میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہ کی اور شائستگی سے معذرت کرلی” لیکن اس دوران تو میں ملک سے باہر ہوں گا‘‘۔