نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسیندا آردن نے پانچ کام کیے جس سے اُس کے ملک میں کرونا وائرس کی وبا ختم ہو گئی۔ پہلا کام یہ کیا کہ پورے ملک کے قحبہ خانوں پر پابندی لگا دی۔اِس سے پہلے نیوزی لینڈ میں جسم فروشی کی قانونی اجازت تھی مگر وبا کے بعد پارلیمان نے قانون منظور کرکے جسم فروشی کو غیر قانونی قرار دے دیااور فحاشی کے تمام اڈے بند کر دیے، طوائفوں کا وظیفہ لگا دیا اور قحبہ خانوں کو چائے خانوں کا اجازت نامہ جاری کرکے اُن کا کاروبار تبدیل کر دیا۔اِس سے فوری طور پر ملک میں فحاشی ختم ہو گئی، لوگ ساحل سمندر پر بھی مکمل لباس پہن کر جانا شروع ہو گئے، سکرٹ کی فروخت بند ہو گئی، عورتوں نے ٹخنوں تک لمبے چوغے پہننے شروع کر دیئے،ٹی وی پر چلنے والے تمام فحش اشتہارات بھی بند کر دیئے گئے۔دوسرا کام جسیندا آرن نے یہ کیا کہ ملک کے تمام پادریوں کو اکٹھا کیا اور اُن سے درخواست کی کہ وہ ملک و قوم کے لیے اجتماعی استغفار اور دعا کروائیں، پادری قحبہ خانوں اور جسم فروشی پر لگی پابندی سے پہلے ہی بہت خوش تھے چنانچہ انہوں نے گرجا گھروں میں خصوصی دعائیں کروائیں جہاں وزیر اعظم سمیت نیوزی لینڈ کے شہریوں نے گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی معافی معانگی اور پھر دعا کی اُن کے ملک سے وبا کا خاتمہ ہو جاوے۔ جسیندا آردن نے تیسرا کام یہ کیا کہ آکلینڈ کے ایک دور افتادہ گاؤں میں گئی جہاں اُس کا پیر بابارہتا تھا، اپنے بابے سے اُس نے جادوئی تعویذ لیااور دم کروایا،بابے نے اپنی مریدنی پر چند اشلوک پڑھ کر پھونکے اور پ بشارت دی کہ 7 جون سے پہلے نیوزی لینڈسے وباکا خاتمہ ہو جائے گا۔ جسیندا آردن نے بابا جی کے ہاتھوں پر بوسہ دیا، تعویذ (اپنے)گلے میں ڈالااور پیر صاحب کی کچھ ناقابل بیان کرامات دیکھ کر واپس آگئی۔ چوتھا کام نیوزی لینڈ نے یہ کیا کہ میڈیا پر کرونا وائرس سے بچاؤکے لیے اطبا کے قدیمی نسخوں سے علاج کی مہم چلائی اور لوگوں کو سمجھایا گیا کہ کیسے وہ گھر بیٹھے سنا مکی، لہسن، ادرک، قہوے اور نیوزی لینڈ کی دودھیل بھینسوں کے دودھ سے اپنا علاج کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحبہ نے خود پنے مطبخ میں کھڑے ہو کر خوش دلی سے لہسن چبا کر دکھایا،اِس کے علاوہ عوام دوست وزیر اعظم نے کھانا پکانے کی ترکیبیں اور برتنوں پر جمی ہوئی کھرنڈ اتارنے کے ٹوٹکے بھی بتائے جو انہوں نے اپنی بہشتن ساس سے سنے تھے۔پانچواں اور آخری کام جسیندا آردن نے یہ کیا کہ ٹی وی پر ایک تقریر کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ جیہڑی رات قبر وچ آنی اے اوہنوں کوئی نئیں روک سکدا(جو رات قبر میں آنی ہے اسے کوئی نہیں ٹال سکتا)، جسیندا آردن نے تقریر غالب کے مصرعے پر ختم کی کہ موت کا ایک دن معین ہے، نیند کیوں رات بھرنہیں آتی(ویسے تو شادی کا بھی ایک دن معین ہے)۔اپنی اِس تقریر کو یو ٹیوب پر چڑھانے کے بعد وزیر اعظم نے عوام سے اپیل کی کہ وہ بیل آئکون کا بٹن دبا کر اُن کا چینل سبسکرائب کرنا مت بھولیں۔
آپ میں سے جن لوگوں کو یقین ہے کہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے اپنے ملک سے کرونا وائرس کی وبا کے خاتمے کے لیے یہ تمام اقدامات کیے ہیں اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نیوزی لینڈ میں جسم فروشی نہ صرف قانونی ہے بلکہ نیوزی لینڈ دنیا کے اُن چند ممالک میں سے ایک ہے جو اِس معاملے میں ضرورت سے زیادہ کھلے ہیں،وہاں جسم فروشی اعلانیہ ہوتی ہے، قحبہ خانے اور فحاشی کے اڈے قائم ہیں اور طوائفوں کے حقوق کی انجمنیں کام کرتی ہیں۔یہی نہیں بلکہ نیوزی لینڈ میں عوامی مقامات پر برہنہ پھرنابھی قانوناً جرم نہیں اور بے شمار ’نیوڈ بیچز‘ بھی وہاں موجود ہیں۔جسیندا آردن نے کوئی قحبہ خانہ بند کیا اور نہ ہی جسم فروشی پر پابندی لگائی، کسی پیر بابے سے تعویذ لیا اور نہ کسی گرجے میں اجتماعی استغفار کروائی، عوام کو ٹوٹکوں کی بتی کے پیچھے لگایا اور نہ ہی ایسی کوئی تقریر کی جس سے تن بہ تقدیر بیٹھنے کاعندیہ ملتاہو۔اِس دھان پان سی عورت نے بس یہ کیا کہ وبائی امراض کی روک تھام کے لیے ٹیکسٹ بک میں دیئے گئے تمام طریقوں پر سختی سے عمل کروایا۔ لاک ڈاؤن کیا، عوام کی رہنمائی کے لیے غیر مبہم اصول وضع کیے، بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کی، مریضوں کو قرنطینہ میں رکھا، سماجی دوری کو یقینی بنایا۔جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق نیوزی لینڈ میں کرونا کے 1,504مریضوں میں سے صرف 22کی موت ہوئی جبکہ اسی آبادی کے جزیرے آئر لینڈ میں اب تک 25,000کیس رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ اموات 1,679ہیں۔دو دن پہلے نیوزی لینڈ میں کرونا کا آخری مریض صحت تام پاکر اسپتال سے گھر واپس چلا گیا جس کے بعد جسیندا آردن نے اعلان کیا کہ اب اُن کا ملک کرونا سے پاک ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ جدید دنیا کو اِس وقت کرونا وائرس سے بڑا کوئی خطرہ نہیں مگر یہ بات بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ اِس وبا سے نمٹنے کی ایک سائنس ہے اوراِس پر قابو صرف اسی صورت پر پایا جا سکتا ہے جب ہم اُن سائنسی اصولوں پر عمل کریں۔یہ وائرس خطرناک ضرور ہے مگر اِس میں انسان کی طرح سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں، یہ صلاحیت اللہ نے صرف انسان کو دی ہے۔ اگر ہم اپنی یہ صلاحیت استعمال ہی نہیں کریں گے تو پھر وائرس کو ہم پر برتری حاصل ہو جائے گی کیونکہ ایک تو یہ انسانی آنکھ سے نظر نہیں آتا اور دوسرے اِس کے پھیلنے کی رفتار بہت زیادہ ہے۔لیکن ایک اچھی خبر یہ ہے کہ کووڈ 19بالکل ہی لا علاج مرض نہیں رہا۔حال ہی میں پاکستان کے مایہ ناز سرجن ڈاکٹر مجید چوہدری کرونا وائرس کا شکار ہوئے، انہیں پی کے ایل آئی میں داخل کروایا گیا، وہاں مختلف ادویات کے استعمال سے و ہ رو بہ صحت ہوئے اور اب ماشا اللہ گھر منتقل ہو چکے ہیں۔یہ مثال دینے کا مقصد یہ تھا کہ اب یہ بیماری اُس طرح سے لا علاج نہیں رہی جیسا کہ عام تصور ہے، اموات ضرور ہورہی ہیں اور اُن کی وجہ یہ ہے کہ یہ وائرس ہر انسان پر مختلف طریقے سے اثر کرتا ہے۔اسی طر ح پچھلے دنوں ایک ڈاکٹر صاحب نے ٹاک شو میں بتایا کہ کس طر ح ہم اپنی قوت مدافعت بڑھا کر اِس کرونا وائرس کو شکست دے سکتے ہیں، انہوں نے مختلف پھلوں، سبزیوں کے دیسی نسخے بھی بتائے اور فوائد گنوائے، یہ کلپ بہت وائرل ہوا۔بے
شک اللہ نے تمام پھلوں سبزیوں میں مختلف خواص رکھے ہیں، بعض کے حیرت انگیز فوائد بھی ہیں مگر اِن باتوں پر عمل کرنے سے پہلے کچھ چیزیں ہمیں ذہن نشین کرلینی چاہئیں۔ یہ ٹوٹکے کوئی جادوئی اثر نہیں رکھتے،سو کئی مرتبہ اِن کے استعمال سے بندہ تحفظ کے مغالطے کا شکار ہو جاتا ہے کہ اب اسے کچھ نہیں ہوگااور یوں وہ مروجہ حفاظتی تدابیر سے اغماض برتنے لگتا ہے۔دوسری بات یہ ذہن میں رہے کہ کووڈ 19زندگی موت کا مسئلہ ہے اور کوئی معجزاتی ٹوٹکا اِس کا یقینی علاج نہیں،قوت مدافعت ایک دو ہفتوں میں لونگ یا دار چینی کھانے یا خوبانی سے نکلے پندرہ بادام کھانے سے بہتر نہیں ہوتی بلکہ یہ طرز زندگی کی ایک مکمل گٹھڑی ہے جس میں خوراک، ورزش، نیند سب شامل ہے۔لہذا وہ طبیب حاذق جو قدرتی جڑی بوٹیوں اور پھلوں کے کرشماتی اثرات کو زور و شور سے بیان کررہے ہیں براہ کرم اپنی گفتگو سے پہلے اور بعد میں ایک ’اعلان دستبرداری‘ (disclaimer) ضرور کر دیا کریں کہ یہ تمام ٹوٹکے اور علاج کسی بھی طور پر ضمانت نہیں دیتے کہ آپ کرونا وائرس سے محفوظ رہیں گے۔ پڑھی لکھی دنیا کا مرجہ طریقہ کار تو یہی ہے،ہمارا البتہ باوا آدم نرالا ہے۔
زندگی اور موت بے شک اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر اِس کے باوجود کوئی بھی ہوائی جہاز میں مرنے کے لیے نہیں بیٹھتا، مائیں اپنے بچوں کو اسکول میں پڑھنے کے لیے بھیجتی ہیں شہید ہونے کے لیے نہیں اور بیمار ہونے کی صورت میں لوگ اسپتال میں داخل ہوتے ہیں نہ کہ سیدھا گورکن کو بلانے چل پڑتے ہیں۔جو رات قبر میں ہے وہ قبر میں ہی گذرنی ہے مگر کوئی اِس رات کی ’بکنگ‘ کروا کے نہیں سوتا۔اِس وبا سے اگر ہم نے بچنا ہے تو ویسے ہی کرنا پڑے گا جیسا نیوزی لینڈ نے کیا۔بے شک ہمیں اللہ تعالی سے صحت یابی اور رحم کی دعابھی مانگنی چاہئے مگر ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسی اللہ نے ہمیں عقل بھی دے رکھی ہے اور حکم دیا ہے کہ ہم عقل سے کام لیں۔کل کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا،مگر فی الحال نیوزی لینڈ کی شکل میں ہمارے پاس کامیابی کی نظیر موجود ہے، فیصلہ ہمارا ہے، عقل استعمال کرنی ہے یا بھینس!