خوش مزاجی اور وہ بھی ایسی
فریفتہ ہونا مردوں کا شیوہ ہے لیکن گوری رنگت کی غیر ملکی خواتین کے سامنے بچھ جانا اور اپنا باقاعدہ الو بنانا یہ اسلام آباد اور ہماری حکمران اشرافیہ کا خاصہ رہا ہے۔ سنتھیا رچی (Cynthia Ritchie) پہلی غیر ملکی خاتون نہیں ہیں جنہوں نے اسلام آباد میں طوفان برپا کیا۔ یہاں کوئی غیر ملکی جرنلسٹ آئے اور اس کی تھوڑی سی شکل ہو تو فوراً ہی اس کی پہنچ بڑوں بڑوں تک ہو جاتی ہے۔ بینظیر بھٹو کے پہلے دورِ اقتدار میں کرسٹینا لیمب یہاں ہوا کرتی تھی اورگو اُسے مس یونیورس کا تاج شاید ہی کوئی پہناتا‘ لیکن اس نے بھی یہاں تہلکہ مچا دیا تھا‘ حتیٰ کہ ہمارے چوہدری اعتزاز احسن‘ جو خود باہر کے پڑھے ہوئے ہیں اور تب وزیرِ داخلہ تھے‘ اُن پہ فدا ہو گئے‘ کم از کم کرسٹینا لیمب اپنی کتاب ویٹنگ فار اللہ میں یہی دعویٰ کرتی ہے اور ایک دو باتیں چوہدری صاحب کے بارے میں اس نے ایسی لکھ دیں جنہیں پڑھ کے ہنسی آتی ہے مثلاً انگریزی کا ایک لفظ ہے diminutive جس کا مطلب ہے چھوٹے پیمانے یا چھوٹے قد کا۔ اپنی کتاب میں کرسٹینا لیمب یہ خطاب چوہدری صاحب کیلئے استعمال کرتی ہے۔ اور بھی کئی آئیں یہاں پہ اور اُن کی رسائی بھی آنکھ جھپکنے میں اونچی سطحوں تک ہو جاتی تھی۔
یہ پتا نہیں ہمارے ماضی کا دخل ہے یا کوئی اور وجہ کہ ہم پاکستانیوں میں ایک گورا کمپلیکس ہے۔ گوروں سے ہم مرعوب ہو جاتے ہیں۔ امریکیوں نے کچھ کہہ دیا‘ ورلڈ بینک نے کچھ نصیحت کردی‘ آئی ایم ایف نے کوئی نسخہ پیش کردیا‘ ایسی باتیں یہاں فوراً مان لی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مغرب کی کوئی سوچ ہو تو وہ پاکستان کی سوچ بن جاتی ہے۔ اورمثال کیا دی جائے یہی کافی نہیں کہ ہمیں کوئی خاص ضرورت نہ تھی کہ ہم مغربی عسکری معاہدوں میں شامل ہوتے لیکن امریکیوں اورانگریزوں کو کوئی زیادہ کوشش نہ کرنا پڑی اورہم اُن کے عسکری معاہدوں میں شامل ہو گئے۔ سرد جنگ امریکا اورروس کے درمیان چل رہی تھی اوراُس میں ہم نے وہ رول ادا کیا جو بھاڑے کے ٹٹوکرتے ہیں۔
کون سی ضرورت پڑی تھی کہ ہم افغانستان کی شورش میں چھلانگ لگاتے؟ لیکن جہادکے نام پہ ہم نے ایسا ہی کیا اور اپنا بیڑہ غرق کر لیا۔ آج بھی کوئی کمی نہیں ایسے ریٹائرڈ افسران کی جو جواز پیش کرتے ہیں کہ ہمارا روس کے سامنے کھڑاہونا بنتا تھا کیونکہ ایسا نہ کرتے تو روس پتا نہیں گرم پانیوں کی طرف چل نکلتا۔ یہ سب افسانے اورکہانیاں ہیں۔ تب کی روسی قیادت تھکی ہوئی قیادت تھی۔ اُن کے حکمران پولٹ بیورو (Polit buro) کے اکثر ارکان کی عمریں 75-74 برس یا اُس سے زیادہ تھیں۔ افغانستان میں جن کمیونسٹوں نے اقتدار پہ قبضہ کیا تھا اُن سے حالات سنبھالے نہیں جا رہے تھے۔ روسی قیادت کا یہ بالکل بیکار فیصلہ تھاکہ حالات کو سنبھالنے کیلئے ایک لاکھ فوج وہاں بھیج دی۔ امریکیوں نے اس اقدام کا فائدہ اٹھایا اور ویتنام کا بدلہ افغانستان میں لے لیا۔ ہمیں کیا ملا؟ کچھ ڈالر کچھ ریال۔ دیگر نقصانات کے علاوہ مقتدر ادارے اتنے پھیل گئے اور طاقت اُن کے ہاتھوں میں اتنی آگئی کہ جمہوریت کا توازن ہی بگڑکے رہ گیا۔ وہ توازن آج تک بحال نہیں ہوسکا۔ جمہوریت کی یتیمی کا ہم روتے ہیں لیکن اس امرکو اکثر بھول جاتے ہیں کہ یہ یتیمی بھی نام نہاد افغان جہادکا ایک ثمر ہے۔
آج ہم کسی دفاعی یاعسکری معاہدے کے رکن نہیں۔ چین سے ہمارے بہترین تعلقات ہیں لیکن ہمارے حکمران طبقات کی سوچ اب بھی مغرب زدہ ہے۔ یہ ہماری نفسیات کا ایک حصہ بن چکاہے۔ اسی لیے ایسی مضحکہ خیزداستانیں جنم لیتی ہیں جیسی سنتھیا رچی کی ہے۔ کسی امریکی خاتون کا پاکستان میں آنا کونسی معیوب بات ہے لیکن سنتھیا زرداری دور میں اسلام آباد آتی ہیں اوردیکھتے ہی دیکھتے اُن کی دوستیاں بڑے بڑوں سے ہوجاتی ہیں۔ تب کے وزیرداخلہ ہمارے دوست رحمن ملک سے شناسائی ہوجاتی ہے۔ مخدوم شہاب الدین ہیلتھ منسٹر ہیں اوراُن سے سنتھیا کی جان پہچان ہوجاتی ہے۔ کوئی پوچھے تو سہی کہ وزارتِ ہیلتھ میں اس خاتون کو نوکری کیسے مل جاتی ہے۔ اسلام آباد کی تقریباً مستقل رہائشی بن جاتی ہے لیکن پیسے کہاں سے آرہے ہوتے ہیں؟سنتھیا رچی کے باقی الزامات بس ویسے ہی ہیں‘ کوئی خاص نوعیت کے نہیں مثلاً یوسف رضاگیلانی کے بارے میں صرف وہ یہ کہتی ہیں کہ ایوانِ صدر میں مخدوم صاحب نے اُس سے معانقہ کی کوشش کی۔ امریکا میں ایسا معیوب سمجھاجائے گا لیکن ہم پاکستانی ایسی وارداتیں کرتے رہتے ہیں اور اِنہیں اتنا بُرانہیں سمجھتے۔ یوسف رضا گیلانی کے بارے میں وہ کچھ اورنہیں کہہ سکیں۔ شہاب الدین کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ مخدوم صاحب کو اِدھر اُدھر ہاتھ لگانے کا بڑا شوق تھا۔ میرے سمیت جو لوگ شہاب الدین سے قریبی تعلق کے دعوے دار ہیں‘ وہ اس الزام کو مبالغہ آمیز نہیں سمجھیں گے یہ اور بات ہے کہ اکثر اوقات اُن کے کارنامے ہاتھ لگانے تک ہی محدود رہتے ہیں۔
سنگین الزام تو صرف ہمارے دوست رحمن ملک پہ لگاہے۔ کہ جب سنتھیا رچی وزیرداخلہ سے ملنے اُن کے گھر گئی تو اُسے کچھ نشہ آور مشروب پلایا گیا اورپھر اس کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ ملک صاحب اس چیز سے انکاری ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانے کہ سچ کیا ہے‘ البتہ الزام سنگین ہے۔ سچ جو بھی ہو رحمن ملک ایک اورنکتے پہ سزا کے حقدار بنتے ہیں۔ اُن سے کوئی پوچھے کہ آپ وزیر داخلہ ہیں‘ اس خاتون کاکوئی ویزے کا مسئلہ ہے تو آپ اتنے دل پھینک واقع ہوتے ہیں کہ اُسے گھر بلا لیتے ہیں۔ کسی پاکستانی کا پاسپورٹ کامسئلہ ہو تو آپ اُسے گھر بلائیں گے یا اُسے یہ کہیں گے کہ دفتر کا مسئلہ ہے دفتر میں فلاں سے ملو‘ لیکن امریکی خاتون ہے اورخوبرو بھی ہے اوروہ سیدھا وزیرداخلہ کے گھر پہنچ جاتی ہے۔ یوسف رضا گیلانی پہ کوئی الزام بنتا نہیں۔ ہلکی سی قربت پاکستان میں کہاں اتنا بڑا عیب سمجھی جاتی ہے لیکن ڈسپلن قائم رکھنے کے ذمہ دار اداروں سے کوئی پوچھے کہ یہ غیرملکی خاتون جس کا کوئی اَتا پتانہیں‘ کوئی خاص کوالیفکیشن نہیں‘ ایوانِ صدر کیسے پہنچ جاتی ہے؟ کس بنا پہ اُس کا آنا جانا وہاں ٹھہرتاہے؟ کوئی پاکستانی خاتون سراُٹھائے وائٹ ہاؤس میں جاسکتی ہے؟ ہمارے بڑے امریکا یا برطانیہ جائیں تو وہاں اُن کی کوئی خاص حیثیت نہیں ہوتی۔ وہاں سے کوئی خاتون یہاں آئے تو بڑے سے بڑے قلعوں کے دروازے اُس کیلئے کھل جاتے ہیں۔
اوریہ روش کسی ایک کونے تک محدود نہیں‘ across-the-board ہے۔ میاں نوازشریف جب2008ء کی انتخابی مہم میں مصروف تھے تو اسلام آباد میں ایک امریکی جرنلسٹ تھیں کِم بارکر (Kim Barker)۔ میاں صاحب سے شناسائی کیا ہونا تھی میاں صاحب کِم پہ فریفتہ ہی ہوگئے۔ ایک دفعہ انٹرویو کیلئے بلایا تو ایک عدد مہنگا کمپیوٹر نما گفٹ دینے کی کوشش کی۔ بقول کِم بارکر‘ اُس نے گفٹ لینے سے انکارکیا اوریہ احتیاط بھی کی کہ میاں صاحب کے پاس اکیلے نہ جائے بلکہ اپناایک پاکستانی معاون اُس کے ساتھ ہو۔ کئی ایک جلسوں میں میاں صاحب کِم بارکر کو اپنے ساتھ لے گئے۔ اپنے پاکستان کے قیام کے بارے میں کِم بارکر نے ایک کتاب لکھی جو بہت دلچسپ ہے اوریہ سارے واقعات اُس میں درج ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ شریف فیملی یا نون لیگ میں سے کسی نے بھی کِم بارکر کی کسی ایک بات کی تردید نہیں کی۔
ویسے سمجھدار لوگ کبھی ایسی باتوں کی تردید نہیں کرتے‘ نہ ذکر کرتے ہیں۔ ملک غلام مصطفی کھر کولے لیجیے۔ اُن کے بارے میں مائی فیوڈل لارڈ میں اُن کی سابقہ اہلیہ تہمینہ درانی نے کیا کچھ نہیں کہا۔ کسی ایک بات کی بھی ملک صاحب نے تردید نہیں کی۔ یوسف رضا گیلانی کو کیا پڑی ہے کہ تردید کرتے پھریں۔ ایسی باتوں کو نہ ہی چھیڑا جائے تواچھا رہتاہے۔