فیچرز

وہ شوقیہ فوٹوگرافر جس نے اینڈروئڈ فون صارفین کو پریشان کر دیا

Share

امریکی شہر سین ڈیاگو میں رہنے والے انڈین نژاد شہری گورو اگروال کو اس وقت یقین نہیں آیا جب ان کی ایک تصویر اچانک خبروں میں آنے لگی۔

پیشے سے سائنسدان اور ایک شوقیہ فوٹو گرافر ہونے کے ناطے گورو اگروال نے گذشتہ سال اگست کے مہینے میں یہ تصویر مونٹانا کے گلیشیئر نیشنل پارک کی سینٹ میری جھیل میں ایک سحر انگیز شام کو لی تھی۔

انھوں نے اس تصویر کو فوٹو پلیٹ فارم فلیکر (Flickr) پر شیئر کیا اور پھر اس کے بارے میں بھول گئے۔

لیکن اس تصویر کے ساتھ ایک پریشانی یہ ہے کہ جب اسے کسی اینڈروئیڈ فون پر وال پیپر کے طور پر لگایا جاتا ہے تو فون خراب ہو جاتا ہے۔

گذشتہ ہفتے اینڈروئڈ فونز کے بیشتر صارفین سوشل میڈیا پر یہ شکایت کرتے نظر آ رہے ہیں کہ جب انھوں نے مخصوص تصویر کو اپنے فون کے وال پیپر کے طور پر استعمال کیا تو ان کے فون خراب ہو گئے۔

اس تصویر میں ایک جھیل، گہرے بادلوں سے بھرا آسمان، غروبِ آفتاب کا منظر اور سبز ساحلی پٹی نظر آ رہی ہے۔

گورو اگروال
مسٹر اگروال نے بتایا کہ ‘وہ ایک سحر انگیز شام تھی’

گذشتہ ہفتے اس کے بارے میں ایک ٹویٹ وائرل ہو گیا اور مسٹر اگروال نے مجھ سے رابطہ کیا۔

انھوں نے کہا کہ ‘میں نے کچھ بھی دانستہ طور پر نہیں کیا۔ مجھے افسوس ہے کہ اس کی وجہ سے فون خراب ہو رہے ہیں۔’

اس تصویر کے ذریعے پہنچنے والے وائرس سے متاثرہ موبائل فون کی سکرین مسلسل کھلنے اور بند ہونے لگتی ہے۔ چند موبائل فونز میں فیکٹری ری سیٹ کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔

بی بی سی اس تصویر کو موبائل پر استعمال کرنے کی کسی بھی کوشش کا مشورہ نہیں دیتی۔

مسٹر اگروال نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘وہ ایک سحر انگیز شام تھی’ اور انھوں نے جب یہ تصویر لی تو وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ تھے۔ یہ بہترین تصویر کے لیے ان کا وہاں کا تیسرا دورہ تھا۔

ماحول دھندھلکا اور بادل والا تھا اور ہم نے سوچا کہ یہاں غروب آفتاب کو بہترین منظر سامنے نہیں آئے گا۔ ہم وہاں سے جانے ہی والے تھے کہ موسم بدلنے لگا۔’

انھوں نے اپنے نائیکون کیمرے پر ان مناظر کو قید کرنا شروع کر دیا اور پھر بعد میں انھوں ایڈٹ کرنے والے سافٹ ویئر لائٹ روم کا استعمال کرتے ہوئے ان تصاویر کو ایڈٹ بھی کیا۔ اور شاید وہیں سے یہ وائرس اس میں چلا آيا۔

تصویر
سام سنگ اور گوگل پکسل سمیت دیگر کئی برانڈز کے موبائل فون اس تصویر سے متاثر ہوئے ہیں

لائٹ روم دو کلر موڈ آپشنز دیتا ہے اور جس آپشن کو انھوں نے چنا شاید وہ اینڈروئیڈ ہینڈ سیٹ کو کنفیوژ کر رہا ہے۔ وہ اس نقص سے واقف نہیں تھے کیونکہ انھوں نے کبھی اس کو آزمایا نہیں تھا۔

انھوں نے کہا: ‘مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ فارمیٹ یہ گل کھلائے گا۔ میرے پاس آئی فون ہے جس پر ہمیشہ میری اہلیہ کی تصویر وال پیپر کے طور پر ہوتی ہے۔‘

فوٹوگرافی پلیٹفارم فلیکر پر مسٹر اگروال کے دس ہزار سے زیادہ فالوورز ہیں اور ان کی تصاویر کو نیشنل جیوگرافک میگزن نے شائع کیا ہے۔

’میں نے سوچا کہ میری تصویر کسی اچھی وجہ سے وائرل ہوئی ہوگی لیکن شاید ایسا کبھی اور ہو۔ اب سے میں دوسرا والا فارمیٹ استعمال کرنے جا رہا ہوں۔‘

دوسری جانب سام سنگ کی جانب سے اپنے موبائل فونز کے لیے اس سے متعلق نئی اپ ڈیٹ 11 جون کو جاری کی جائے گی۔ بی بی سی نے اس سلسلے میں گوگل سے رابطہ کیا ہے لیکن ابھی تک کمپنی کی جانب سے اس معاملے پر کوئی ردعمل موصول نہیں ہوا ہے۔

اس معاملے سے متعلق کی جانے والی ایک ابتدائی ٹویٹ کو ہزاروں مرتبہ لائک اور ری ٹویٹ کیا گیا تھا۔ اس ٹویٹ کے جواب میں چند صارفین نے پتایا کیا کہ ان کے فون بھی اس تصویر سے متاثر ہوئے ہیں۔

ٹیکنالوجی کے امور کے صحافی بوگڈن پیٹروین کا کہنا ہے کہ ان کا ہواوے 20 پرو اگرچہ اس تصویر سے متاثر نہیں ہوا لیکن گوگل پکسل ٹو میں خرابی پیدا ہوئی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’اس تصویر کو فون کا وال پیپر بناتے ہی فون کریش کر گیا۔ فون نے ری بوٹ کی کوشش کی لیکن سکرین مسلسل کھلنا اور بند ہونا شروع ہو گئی جس سے سکیورٹی سکرین سے آگے بڑھنا ناممکن ہو گیا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ فون کو سیف موڈ میں دوبارہ سٹارٹ کرنے سے بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوا۔

اس وائرس نے اینڈروئڈ کے تازہ ایڈیشن اینڈروئڈ 10 ماڈل کے کچھ فون بھی متاثر کیے ہیں لیکن زیادہ تر یہ ماڈل محفوظ رہے۔اینڈروئڈ 11 کو مارکیٹ میں رواں ہفتے متعارف کروایا جانا تھا لیکن فی الحال اس ماڈل کی لانچ ملتوی کر دی گئی ہے۔

ابھی تک اس وائرس کے بارے میں حکام کی جانب سے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہے۔

سکیورٹی کمپنی ’پین ٹیسٹ پارٹنرز‘ سے منسلک کین منرو اور ڈیو لوج نے بی بی سی کے لیے اس صورتحال کا تجزیہ کیا ہے۔

ان کے مطابق ’جہاں ڈیجیٹل تصویروں کا معیار بہتر ہوا ہے وہیں فون میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ تصویر کے رنگوں کو جانچ سکے کہ انھیں کیسے دکھانا ہے۔ اس طرح ایک فون یہ معلوم کرتا ہے کہ مثلاً سبز رنگ کی صحیح قسم کو کیسے دکھانا ہے۔

’رنگوں کے نظام کی کئی طریقوں سے یہ وضاحت کی جا سکتی ہے۔ کچھ تو گرافک ڈیزائن کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ تو بعض مرتبہ آپ ایسی تصاویر دیکھتے ہیں جو عام طور پر دستیاب آر جی بی فارمیٹ میں نہیں ہوتیں۔ اس لیے ایسا ممکن ہے کہ ایسی تصویر بنائی جائے جس میں اس کے رنگوں کے بارے میں اتنی زیادہ معلومات ہوں کہ کچھ مخصوص فون انھیں برداشت ہی نہ کر پائیں۔

’فون اس لیے کریش ہوئے کہ ان میں ایسی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں تھی اور انھیں بنانے والوں کے ذہن میں شاید یہ نہیں تھا کہ ایسی صورتحال بھی پیدا ہو سکتی ہے۔‘