ایکٹیمرا انجکشن سے سنا مکی تک: کوورنا کے علاج میں یہ سب کس حد تک مددگار؟
دنیا بھر میں جہاں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے وہیں اس کی ویکسین کی تیاری کی کوششوں میں بھی تیزی آئی ہے۔
تاحال اس بیماری کا علاج دریافت نہیں کیا جا سکا ہے لیکن پاکستان میں اس وبا کے آغاز کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایسے پیغامات کی بھرمار دیکھی گئی جس میں مختلف ادویات، جڑی بوٹیوں یا پھر کھانے پینے میں روزمرہ استعمال ہونے والی اشیا کو اس بیماری سے صحت یابی میں مددگار یا پھر اس کا علاج ہی قرار دے دیا گیا۔
یہ بات جہاں ادرک اور کلونجی یا ملیریا کے علاج میں استعمال ہونی والی دوائی کلوروکوئین سے شروع ہوئی وہیں آج کل اکٹیمرا نامی انجیکشن اور سنامکی نامی جڑی بوٹی کا شہرہ ہے اور ایسی ادویات و جڑی بوٹیوں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ ان کا استعمال کورونا کے مریض کے جسم میں وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔
بی بی سی نے طبی و غذائی ماہرین کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان ادویات اور ٹوٹکوں کے کورونا کے علاج یا پھر علاج میں مددگار ہونے کے دعووں میں کتنی حقیقت ہے۔
ڈاکٹرز کے مطابق چونکہ کورونا وائرس کا کوئی مصدقہ علاج موجود نہیں اس لیے اس وائرس کے شکار مریضوں کی صرف طبی مدد ہی کی جا رہی ہے جس میں مختلف ادویات اور طبی آلات کا استعمال شامل ہے۔’
ایکٹیمرا انجکشن علاج میں کتنا مددگار ہے؟
یہ وہ انجیکشن ہے جس کا نام آج کل کورونا کے مریضوں پر استعمال کے حوالے سے پاکستان میں ہر کسی کی زبان پر ہے اور اس کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ لوگ اس کے حصول کے لیے اصل قیمت سے کئی گنا زیادہ رقم ادا کرنے کو بھی تیار نظر آتے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ شہر لاہور کے میو ہسپتال میں کووڈ19 کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر سلمان ایاز کا کہنا ہے کہ یہ انجکشن کورونا کے مریضوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ مریض کے اعضا میں ہونے والی سوزش کو روکتا ہے تاکہ ان اعضا کو نقصان نہ پہنچے۔
انھوں نے بتایا کہ شدید بیمار مریضوں میں عموماً دیکھا جاتا ہے کہ وائرس مریض کے جسم کے بیشتر اعضا پر حملہ کرتے ہوئے انھیں نقصان پہنچاتا ہے جس سے سپسیز ہو جاتا ہے جو جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
ان کے مطابق جن مریضوں پر یہ انجکشن آزمایا گیا ان کی صحت میں یقیناً بہتری آئی لیکن یہ انجکشن ہر مریض کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتا کیونکہ اسے صرف اس مریض پر استعمال کیا جاتا ہے جو شدید علیل نہ ہو۔
’اس انجکشن کو اگر وقت پر استعمال کیا جائے تو جسمانی اعضا کو نقصان پہنچنے سے روکا جا سکتا ہے۔ ہم اس انجکشن کو مسلسل تین دن مریض پر استعمال کرتے ہیں‘۔
انھوں نے مزيد بتایا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ یہ انجکشن انتہائی ضروری ہے۔ یہ صرف علاج کے دوران مددگار ثابت ہو سکتا ہے اگر ایسے وقت پر لگایا جائے‘۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر مریض کا جسم ہر دوائی پر مختلف اندز میں ردعمل ظاہر کرتا ہے اس لیے یہ کہنا کہ یہ سب کے لیے موثر ثابت ہو گا درست نہیں ہے۔
ڈاکٹر سلمان کے مطابق اس انجکشن کے حوالے سے ایک ہی شکایت سب کی طرف سے کی جا رہی ہے کہ یہ مارکیٹ میں دسیتاب نہیں ہے اور اگر کسی کو مل بھی رہا ہے تو مہنگے داموں فروخت کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے تصدیق کی کہ میو ہسپتال میں اس وقت یہ انجکشن ختم ہو چکا ہے اور اس کی اصل قیمت پچاس ہزار روپے تھی لیکن اب یہ تقریباً دو سے تین لاکھ روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں وزير صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ ’ہم اس انجکشن کے ٹرائل شروع کر رہے ہیں اور یہ ایک ہزار مریضوں پر آزمایا جائے گا جس کے لیے ہم میو ہسپتال کے ڈاکٹروں کو اس کا سٹاک فراہم کریں گے‘۔
کلوروکوئین کا استعمال
اکٹیمر سے کہیں پہلے پاکستان کیا دنیا کے متعدد ممالک میں ملیریا کے علاج میں استعمال کی جانے والی دوا کلوروکوئین کے کورونا کے مریضوں کو استعمال کروائے جانے کے واقعات دیکھے گئے۔
اس دوائي کے بارے میں پاکستان میں جب یہ بات عام ہوئی کہ اسے کورونا کے مریضوں کے علاج کے لیے استعمال کیا گیا ہے تو 60 روپے میں ملنے والا دوائی کا پتا چار ہزار روپے تک کا فروخت ہونے لگا۔
مارچ میں امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے محدود ہسپتالوں میں انتہائی ضروری صورتحال میں اس دوا کے استعمال کی اجازت دی تھی۔ لیکن اگلے ہی مہینے کچھ مریضوں میں دل کے مسائل پیدا ہونے کے بعد ادارے نے دوا کے استعمال سے متعلق وارننگ جاری کر دی تھی۔
کورونا وائرس کے علاج کے لیے اس دوا کے استعمال کے بارے میں سائنسدانوں میں اب بھی تشویش پائی جاتی ہے۔
ہائیڈروآکسی کلوروکوئن نامی دوا ملیریا اور آرتھرائٹس جیسی بیماریوں کے علاج کے لیے تو محفوظ ہے لیکن ابھی تک کسی بھی تحقیقی تجربے کے نتیجے میں اسے کووڈ 19 کے علاج کے لیے استعمال کرنے کا مشورہ نہیں دیا گیا ہے۔
امریکہ کی مینیسوٹا یونیورسٹی میں کیے گئے آزمائشی استعمال سے بھی یہ بات سامنے آئی کہ ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن کورونا وائرس کے علاج میں موثر نہیں ہے۔
تاہم اس دوا پر برطانیہ، امریکہ اور سینیگال سمیت کئی ممالک میں تحقیق جاری ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے پہلے تو اس دوا کی آزمائش بھی روک دی تھی لیکن تین جون کو ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے گا۔
لاہور کے میو ہسپتال کے سی ای او ڈاکٹر اسد اسلم نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ہسپتال میں کلوروکوئین کا استعمال معمولی علامات سے معتدل نوعیت والے کورونا کے مریضوں کیا گیا جس سے ان میں بہتری آئی۔
تاہم یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق کلوروکوئین کا استعمال بنیادی طور پر ملیریا کے علاج کے لیے منظور کیا گیا تھا اور ’ابھی تک کورونا وائرس کے خلاف اس کی افادیت کے دنیا بھر میں کوئی شواہد سامنے نہیں آئے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مریض کلوروکوین سے ٹھیک ہوا ہے۔’
ان کا مزید کہنا تھا کورونا وائرس کے زیادہ تر مریضوں میں بیماری کے علامات ویسے بھی معمولی نوعیت کی ہوتی ہیں اور ایسی علامات کا مریض خودبخود بہتر ہو جاتا ہے۔
پلازما سے کورونا کے مریضوں کا علاج
ان ادویات کے علاوہ ایک اور چیز جو کورونا کے مریضوں کے علاج کے لیے سامنے آئی وہ اس وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کا پلازما لے کر اسے علیل افراد کے علاج میں استعمال تھا۔
اس طریقۂ علاج سے بہتر نتائج کی خبروں کے بعد دیکھا گیا کہ سوشل میڈیا پر نہ صرف پلازما عطیہ کرنے کی اپیلوں کا تانتا بندھ گیا بلکہ ایسے گروپ بھی تشکیل دیے گئے جن کا مقصد ایک صحت یاب مریض کو شدید علیل مریض کے اہل خانہ سے جوڑنا ہے تاکہ وہ صحت مند مریض کا پلازما لے سکیں۔
کورونا وائرس کے مریضوں کا پلازما سے علاج کرنے والے ڈاکٹر طاہر شمسی کے مطابق اس وائرس کے 85 فیصد سے زیادہ مریض معمولی علامات ظاہر کرنے کے بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں جس کی وجہ انسانی جسم میں موجود اینٹی باڈی (آئی جی ایم) ہیں جو وائرس کا مقابلہ کر کے اسے ختم کر دیتی ہیں جبکہ شدید علیل ہونے والے مریضوں کی تعداد تقریباً دس فیصد ہوگی۔
انھوں نے بتایا کہ کوونویلیسینٹ پلازما اسی اینٹی باڈی پر مشتمل ہوتا ہے جو وائرس کے خلاف لڑ کر اسے ختم کر دیتی ہے۔
’ہم شدید علیل ہونے مریضوں کے جسم میں کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے مریض کا خون لے کر اس میں سے پلازما نکال کر ایسے مریض کے خون میں داخل کرتے ہیں جو شدید بیمار ہوتا ہے‘۔
ڈاکٹر طاہر شمسی کے مطابق یہ طریقۂ کار نیا نہیں ہے بلکہ اس وقت سے مختلف قسم کے ایسے وبائی امراض کے علاج کے لیے استعمال ہو رہا ہے جب ویکسین وغیرہ نہیں بنی تھی۔
ان کے مطابق پلازمہ کی مدد سے انتہائی علیل مریضوں کا علاج ہی موزوں طریقہ ہے۔
دیسی علاج
ایلوپیتھک علاج کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس کے علاج کے لیے عوام الناس کی جانب سے دیسی ٹوٹکے آزمانے کے مشوروں میں بھی کمی نہیں اور آج کل ان مشوروں میں سرفہرست سنا مکی کے قہوے کا استعمال ہے۔
سنا مکی یا سنا کے پتوں کا استعمال طویل عرصے سے حکیم اور طبیب پیٹ کے امراض خصوصاً قبض کی دوری کے لیے تجویز کرتے آئے ہیں۔
سنا مکی کے استعمال کی افادیت اور نقصانات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماہر غذائیت نیلم اعجاز کا کہنا تھا کہ لوگ سوچے سمجھے بغیر سوشل میڈیا پر ٹوٹکا شیئر کر رہے ہیں کہ سنا مکی سے کورونا وائرس کا علاج کیا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہربل ادویات اور جڑی بوٹیوں میں انسانی جسم میں سوزش کم کرنے کی خصوصیات ضرور موجود ہوتی ہیں جیسے کہ سادہ لیمن گراس کا قہوہ بھی استعمال کریں تو وہ بھی کانسی اور گلے کی سوزش میں آرام دیتا ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’سنا مکی کے قہوے کی تاثیر گرم ہوتی ہے اس لیے جب اسے استعمال کیا جاتا ہے تو مریض کا پیٹ خراب ہو جاتا ہے جس سے اس کے جسم میں نمکیات کی کمی واقع ہو جاتی ہے جو کورونا کے مریض کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ خصوصی طور پر بلڈ پریشر ، گردے اور جگر کے مریضوں کے لیے سنا مکی کا استعمال زیادہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
’اگر کوئی شخص اس جڑی بوٹی کا استعمال زیادہ کرے گا تو یہ اس شخص کے معدے کے کچھ حصے کو مستقل طور پر نقصان بھی پہنچا سکتی ہے‘۔
‘سنا مکی کا قہوہ پینے کے بعد مریضوں کی حالت مزید بگڑی’
لاہور کے میو ہسپتال میں زیر علاج کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے والے پھیپھڑوں کے ماہر ڈاکٹر سلمان ایاز کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بہت سے ایسے مریض آئے جنھوں نے سنا مکی کے قہوے کا استعمال کیا اور اس کے بعد ان کی حالت مزید خراب ہو گئی۔
انھوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ یہ قہوہ پینے سے پیٹ خراب ہو جاتا ہے اور دست آنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مریض جسے پہلے ہی وٹامن اور اپنے جسم میں نمکیات بہتر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اسہال کی وجہ سے مزید بیمار ہو جاتا ہے۔
انھوں نے مزيد بتایا کہ کورونا کے وہ مریض جبھیں معمولی علامات ہیں، اگر وہ ایسے ٹوٹکے استعمال کرتے ہیں تو خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ اس کی علامات شدید ہو سکتی ہیں۔
’اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر انسان کی قوت مدافعت اور اس کا جسم مختلف انداز میں ہر دوائی یا ہربل علاج پر ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کورونا کے مریض خصوصا طبیعت خراب ہونے کی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں اور ایسے ٹوٹکے آزمانے سے بھی گریز کریں۔‘