عمرِ عزیز انسانوں کی آزادی اور احترام کی منزل تلاش کرتے گزری ہو، اس میں وجاہت مسعود جیسی ستھری اور نکھری روحیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں چنانچہ جب ایسے باوقار لوگ آپ کو کسی تاریخی لمحے سے مطلع کریں۔ آپ کو ان کی اطلاع پر دھیان دینا چاہئے۔ آپ کا یہ فعل قومی نیکی کے برابر ہوگا۔ وجاہت نے ہمیں جو بتایا ہے اس پر غور کرو اور اس عزیز از جان نے بتایا کچھ لوگوں نے لطف لے لے کر جمہوریت پر چوٹیں کی ہیں۔ غور کا مقام یہ ہے کہ ضمیر بیچنے والوں سے کوئی گلہ ہے اور نہ ضمیر خریدنے والوں کی نشاندہی کا یارا۔ اس المیہ حکایت کو تو اہلِ اقتدار کی ہنرمندی اور چابکدستی کا شاہکار ٹھہرایا ہے۔ قادر الکلامی کے جوہر البتہ ان خاک نشینوں پر ارزاں کئے ہیں جن کے پرچم پر میر جعفر، میر صادق، الٰہی بخش اور حکیم احسن اللہ کی دریدہ دہنی کا تھوک جم گیا ہے۔ زور آوری کے قصیدے کی اس تشبیب پر ہمارے مقامی آرٹ بکوالڈ نے عنوان باندھا ہے کہ ’’ہماری کوئی برانچ نہیں، صاحب! برانچ تو ان کی ہوتی ہے جن کی کوئی دکان ہو۔ ہماری ریاست کے بازار میں تو دست فروشوں کا سکہ چل رہا ہے۔ فارسی زبان میں دست فروش اس پھیری والے کو کہا جاتا ہے جو اپنی جنسِ فروخت ہاتھ پر رکھ کے سربازار کھڑا ہوتا ہے۔ اس ملک کے رہنے والے دیکھ رہے ہیں کہ سیادت کے دعویدار ہاتھ بھر کی چوب خشک موتیے کے ہار لٹکائے گردش میں ہیں۔ ہو کوئی مشتری تو دے آواز‘‘۔
پاکستان کی قومی تاریخ ایسی ہی برانچوں کی داستان ہے، اِن داستانوں پر معلوم نہیں سینکڑوں کی تعداد میں کتابیں لکھی گئی ہیں یا ہزاروں کی تعداد میں، بہر طور اِن داستانوں کا نتیجہ 1971میں ملک کے دولخت ہونے کی صورت میں سامنے آیا، برانچوں کی ان داستانوں نے ہمیں مذہبی فرقہ واریت کے عفریت سے دوچار کیا، برانچوں کی ان داستانوں نے ہمیں آئین شکنی کا حوصلہ اور لاقانونیت کے راستے پر چلنے کی دیدہ دلیری عطا کی، برانچوں کی ان داستانوں نے ہماری زندگیوں میں ایسا معاشرتی ظلم گھولا جس نے ریاست کے سرکاری اہلکاروں کی اکثریت کو عوام کو ملک کا شہری سمجھنے کے بجائے ملک کی غلام رعایا کی طرح دھتکارنے اور ذلیل کرنے کا حوصلہ دیا، برانچوں کی ان داستانوں نے ہمارے ہاں جانے کتنے سیاسی مظالم اور سیاسی مسئلوں کو جنم دیا جن کی اصل سچائی اس دنیا کے رہنے تک تو شاید پتا نہ چل سکے، برانچوں کی ان داستانوں نے ہمیں دہشت گردوں اور طالبان کے چہروں سے آشنا کیا اور پھر اس ملک کے بازاروں، مساجد دیگر عبادت گاہوں، گلی کوچوں اور عمارتوں میں انسانی لہو کی ندیا جس طرح رواں دواں ہیں اسے وہ لوگ اپنے مرنے تک فراموش نہیں کر سکتے جنہوں نے گزشتہ پچیس تیس برسوں میں ان داستانوں کو اپنی نظروں کے سامنے حقیقت کی شکل میں پایا یا پاکستان میں ان داستانوں نے اقلیتوں کی زندگیوں کو جن مراحل سے دوچار کیا اور پاکستان کے شہری کی حیثیت سے وہ جن آزمائشوں سے دوچار ہوئے یا دوچار کر دیئے گئے آج اس کا سارا احوال ہمارے سامنے ہے، برانچوں کی ان داستانوں نے پاکستان کے سبز پاسپورٹ اور پاکستانیوں کو جو بین الاقوامی شہرت اور بین الاقوامی عزت نصیب کی اس سے ہم سے زیادہ کون آگاہ ہوگا، اس لئے اگر صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد پر تبصرہ آرائی کرنے والوں نے ہماری کوئی برانچ نہیں، کے عنوان تلے قومی سیاستدانوں کو حرفِ دشنام کا ہدف پھر رہا ہے تو وجاہت مسعود جیسی حساس طبیعتوں کو اس پر قومی وقار کی خاطر ردعمل دینا ہی چاہئے اور جو کچھ برادر کالم نگار نے مندرجہ بالا سطور میں کہا ہے وہ اس ردعمل کا شاخشانہ ہے!
عمران حکومت اپنے معاملات کی خود ہی ذمہ دار ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود مہنگائی ریاستی اہلکاروں کی ’’من مانیوں‘‘ نے ہمارا جو حشر کر دیا ہے وہ مستقبل کس حد تک جائے گا۔ پاکستان میں جن برانچوں کے قلع قمع کرنے کو عمران حکومت نے اپنا نصب العین ٹھہرایا تھا اور سارے ملک جان ، مال اور عزت کے عدم تحفظ کا جو حال ہو چکا اس میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا وہی معاملہ ہے؟ پھر تاریخ عمران خان کو کس مقام کا مستحق ٹھہراتی ہے یا یہ سب کچھ مستقبل میں پوشیدہ ہے بہرحال ایک بات طے ہے کہ عمران حکومت کے ایک سال مکمل ہونے کے باوجود پاکستان کی سیاسی، اخلاقی، قانونی، معاشرتی اور معاشی ابتری میں ایک رتی بھر تبدیلی نہیں جو بھی ہے مگر ’’ہماری کوئی برانچ نہیں‘‘ جسے تحریری کنفیوژن پیدا کرنے میں نہ آج کوئی رکاوٹ ہے نہ کبھی تھی!