اور اب وارث میر بھی غدار!
چند روز پیشتر میں نے ابو الاثر حفیظ جالندھری سے چھیڑ چھاڑ کا ایک واقعہ بیان کیا تھا جس میں میں نے ان سے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ حفیظ صاحب آپ کا کہنا ہے کہ کشمیر جہاد کے دوران آپ کی ٹانگ پر بائیس گولیاں لگیں، سر! بات یہ ہے کہ ٹانگ چھوٹی ہے، گولیاں زیادہ، آپ یہ گولیاں کچھ کم نہیں کر سکتے۔
اس حوالے کی ضرورت کچھ یوں پڑی کہ کچھ عرصے سے پاکستان کی بائیس کروڑ آبادی میں سے چوبیس کروڑ پاکستانیوں کو غدار قرار دیا جا رہا ہے۔ ادھر میرے ساتھ مسئلہ یہ پیش آیا کہ جب سے کورونا اور کورونا زدہ سیاست کی خبریں، ٹاک شوز، تجزیے، نت نئے انکشافات سے لبالب بھرے ٹی وی چینلز نظر آتے ہیں تو یہ سب کچھ دیکھ کر لگتا ہے کہ میں آج گیا یا کل، بلکہ اس کے بعد تو جی چاہتا ہے کہ انتظار کی زحمت کیوں گوارا کی جائے کیوں نا کورونا صاحب کو اپنے ہاں چائے پر بلایا جائے اور اس سے آخری ملاقات کی جائے تاکہ لمحہ لمحہ مرنے کے بجائے ایک ہی دفعہ اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کر دوں۔
ایک بات جس نے مجھے زیادہ پریشان کیا وہ یہ تھی کہ پاکستان کی اصل آبادی سے زیادہ غداروں کے ہوتے ہوئے اب ان لوگوں کو بھی غدار قرار دیا جا رہا ہے جو کب سے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔
ان میں ایک میرے بہت پیارے دوست پروفیسر وارث میر بھی ہیں۔ مجھے اس کی اطلاع صرف دو دن پہلے ملی جب پاکستان بھر کے صحافیوں کی تنظیموں کی طرف سے انہیں غدار کہنے والوں کے خلاف غیظ و غضب سے بھری ہوئی قرارداد منظور کی گئی۔
تاخیر سے اطلاع ملنے کی وجہ یہی ہے کہ میں کافی عرصے سے ٹی وی دیکھ رہا ہوں اور نہ کوئی اخبار پڑھتا ہوں، صرف چیدہ چیدہ کالموں پر ایک نظر ڈال لیتا ہوں، ان دنوں مزاحیہ ادب پڑھتا ہوں یا مزاحیہ پوسٹ دیکھ کر دوستوں کو فارورڈ کر دیتا ہوں تاہم وارث میر والی ’’مزاحیہ‘‘ خبر مجھے تاخیر سے ملی۔
بات یہ ہے کہ برادرم وارث میر سے میرے دوستانہ تعلقات کا عرصہ کم از کم پچیس برس پر محیط ہے۔ ہم دونوں ایک ہی اخبار یعنی نوائے وقت میں کالم لکھتے تھے، کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ مجید نظامی مرحوم و مغفور کے اخبار میں کسی ایسے شخص کو جگہ مل سکتی تھی جس کی حب الوطنی کے بارے میں کسی کو رتی بھر بھی شبہ ہو۔
وارث میر کی کالم نگاری کا ذکر میں نے کالم کا رتبہ بلند کرنے کے لئے کیا ہے ورنہ وہ ایک مفکر تھے اور اسلامی سوشلزم کے علمبرداروں میں سے تھے۔ اس دور میں پروفیسر محمد عثمان اور حنیف رامے بھی اسلامی سوشلزم کے پرچارک تھے بلکہ اگر میرا حافظہ غلطی پر نہیں تو اسلامی سوشلزم کے حوالے سے وارث میر کے مضامین حنیف رامے کے ایک جریدے میں بھی شائع ہوتے تھے۔
شاید بہت سوں کو علم نہ ہو کہ نوائے وقت کے بانی مجید نظامی مرحوم بھی اسلامی سوشلزم کے حامیوں میں سے تھے اگر میں غلط ہوں تو برادرم ڈاکٹر صفدر محمود اور برادرم مجیب الرحمٰن شامی اور دوسرے اہلِ علم دوست میری اصلاح کر سکتے ہیں کہ آیا قائداعظم نے بھی اپنی ایک تقریر میں اسلامی سوشلزم کا ذکر کیا تھا کہ نہیں؟
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایک بڑے اسکالر اور ایک بڑے محب وطن کو کچھ نامعلوم لوگوں نے اپنی پوسٹوں میں غدار کہنا کیوں شروع کیا تو اس کا پس منظر یہ ہے کہ آئی اے رحمان، احمد ندیم قاسمی، طاہرہ مظہر علی خان، حبیب جالب، قسور گردیزی، ملک غلام جیلانی، جاوید ہاشمی کے علاوہ چند لوگ اور تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن کی مذمت کی۔
پروفیسر وارث میر تو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں پروفیسر تھے وہ طالبعلموں کا ایک گروپ لے کر مشرقی پاکستان گئے تاکہ بنگالی بھائیوں کو مغربی پاکستان کی طرف سے خیر سگالی کا پیغام دیا جائے۔ ان دنوں سارا مغربی پاکستان خاموش تھا ،مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن کے خلاف بس چند ایک آوازیں ہی سنائی دیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ایکشن کے دوران بنگالی بھائیوں کے ساتھ خاصی زیادتیاں بھی ہوئیں مگر آرمی کو بدنام کرنے کیلئے اس حوالے سے بہت مبالغہ آرائی بھی کی گئی۔
قصہ مختصر بنگلہ دیش بن گیا اور اس کے بعد پاکستان کے بہت سے عاشق اس صدمے کی تاب نہ لا کر ہارٹ اٹیک سے فوت ہو گئے۔ میرے والد مرحوم مولانا بہاء الحق قاسمیؒ اس روز امامت کے دوران سجدے میں گئے تو ہچکیاں لے لے کر رونا شروع کر دیا اور یہی حالت مقتدیوں کی تھی۔
بہرحال بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت نے آرمی ایکشن کے دوران بنگالیوں سے خیر سگالی کا اظہار کرنے والے دانشوروں کو ایوارڈ دینے کے لئے دنیا کے مختلف ملکوں سے بنگلہ دیش مدعو کیا۔ ان میں پروفیسر وارث میر کا نام بھی شامل تھا ،ان کے صاحبزادے حامدمیر نے ان کی جگہ یہ ایوارڈ قبول کیا۔
حامد میر تو کئی دوسرے دبنگ صحافیوں کی طرح پہلے سے ’’غداروں‘‘ کی فہرست میں شامل تھے۔ اس کے بعد تو ان کی ’’غداری‘‘ پر مہر تصدیق ثبت ہو گئی۔ جنابِ والا! اگر میری گواہی کی کوئی حیثیت ہے تو پلیز آپ یقین کر لیں کہ وارث میر پاکستان کے عاشقوں میں سے تھے اور حامد میر کو بھی پاکستان سے عشق وراثت میں ملا ہے۔
یہ پاگل عاشق تو پاکستان کیلئے انڈین فوجی کی گولی کھانے کیلئے بھی تیار ہے۔ یہ کالم لکھنے کے دوران مجھے شک گزرا ہے کہ اب میری اپنی حب الوطنی بھی مشکوک ہو رہی ہے مگر اس سے پہلے یہ جان لیں کہ انڈیا مجھے ’’پرسونا نان گراتا‘‘ قرار دے چکا ہے اور یہ تمغہ میرے ہندوستان کے سفر نامے کی اشاعت کے بعد میرے ماتھے پر سجایا گیا تھا!