مملکت خداداد پاکستان میں ہمہ وقت کوئی نہ کوئی رولا پڑا رہتا ہے۔ کورونا‘ ٹڈی دل‘ ہوائی حادثہ‘ چینی سکینڈل‘ آٹا پرابلم اور اب امریکی خاتون کے انکشافات۔ یہ تو صرف دو تین ماہ میں ہونے والے بڑے بڑے رولوں کا ذکر ہے‘ اس دوران ڈھیروں ضمنی بھسوڑیاں بھی آتی جاتی رہی ہیں؛ تاہم اس امریکی خاتون سنتھیا رچی نے کافی رونق لگا رکھی ہے۔ خاتون کے پاس ویزہ کون سا ہے؟ کسی کو پتا نہیں۔ سپانسر کون ہے؟ کسی کو علم نہیں۔ کس ایجنڈے پر ہے؟ کسی کو خبر نہیں (اگر ہے تو وہ بتا نہیں سکتا) ذریعہ آمدنی کیا ہے؟ سوائے رحمان ملک کی جانب سے دیے گئے دو ہزار پائونڈز کے کسی آمدنی کی منی ٹریل موجود نہیں۔ پی ٹی ایم کے معاملات پر کس حیثیت سے تحقیق و تفتیش میں مصروف ہے؟ اس پر خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ ویسے اس خاموشی میں بھی اس سوال کا جواب ازخود موجود ہے۔ میں نے شاہ جی سے پوچھا کہ موصوفہ کا خرچہ کون اٹھا رہا ہے۔ شاہ جی کہنے لگے: آپ جیسے لوگوں کو تو اس قسم کے فلاحی کام کرنے کی توفیق نہیں ہے لیکن دنیا کی بہت سی خوبرو خواتین ہم جیسے سخی لوگوں کی سخاوت پر گزارہ کر رہی ہیں۔ ویسے اس سلسلے میں آپ کو کیا تکلیف ہے؟ میں خوفِ فسادِ خلق کے مارے خاموش ہو گیا۔
خاتون نے پہلے تو بے نظیر بھٹو مرحومہ پر ایک ٹویٹ کیا۔ سارا فساد اسی ٹویٹ سے شروع ہوا ورنہ وہ تو یہاں گزشتہ نو دس سال سے مقیم تھی اور بلاگنگ میں مصروف تھی‘ نہ کسی کو فکر تھی اور نہ ہی کوئی پروا۔ تب تک وفاق کی جماعت پیپلز پارٹی کو بھی موصوفہ سے کوئی تکلیف‘ شکایت یا گلہ نہ تھا۔ تب تک یہ امریکی خاتون نہ تو سکیورٹی رسک تھی اور نہ ہی اس کی موجودگی پر کسی کوئی اعتراض تھا۔ ملکی سکیورٹی تبھی دائو پر لگی جب موصوفہ نے پیپلز پارٹی کی مرحومہ قائد کے بارے میں اونچی نیچی بات کر دی۔ ہمارے ہاں پاکستان کی سالمیت کو تبھی ٹھیس پہنچتی ہے جب آگ ہمارے اپنے گھر تک پہنچتی ہے۔ امریکی خاتون کی طرف سے عائد کردہ الزامات کے بارے میں جب اپنے ایک باخبر دوست سے پوچھا کہ اس میں کیا حقیقت ہے تو وہ پہلے خوب کھل کر ہنسا اور پھر کہنے لگا: جن پر الزام لگا ہے ان میں کم از کم ایک شخص کے بارے میں‘ میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ عوامی سطح اور میڈیا پر اس الزام کی پُر زور تردید کے باوجود‘ وہ ذاتی محفلوں اور دوستوں کی کمپنی میں اس الزام پر بڑا خوش ہوتا ہو گا اور اس الزام کے بارے میں اس سے بھی بڑھ چڑھ کر مرچ مسالے لگا کر قصہ بیان کر رہا ہو گا۔ ایسی کمپنی اور محفلوں میں یہاں جنوبی پنجاب میں لوگ ایسی باتوں پر شرمندگی کے بجائے فخر محسوس کرتے ہیں‘ اپنی بہادری کے قصے سمجھ کر باقاعدہ مبالغہ آرائی کرتے ہیں اور اسے مردانگی کی شان کے طور پر لیتے ہیں۔ میں نے پوچھا، اور عوام؟ وہ بولا عوام کی کسے پروا ہے۔ میں نے کہا: کیسے پروا نہیں کرتے؟ اگر عوام ایسی باتوں کی پروا نہ کرتے ہوں تو وہ میڈیا پر تردید کیوں کرتے ہیں؟ عدالت جانے کی بات کیوں کرتے ہیں؟ ہتک عزت کے دعوے کیوں کرتے ہیں؟ وہ دوست پھر ہنسا اور کہنے لگا: آپ بھی بھولے بادشاہ ہیں‘ ہمارے ہاں اس علاقے میں بڑے لوگ ایسی باتوں کو اپنی شان سمجھتے ہیں؛ تاہم اخباری بیان بازی کر کے گھر کے اندرونی حالات ٹھیک رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ورنہ عوام تو ایسی باتوں کے چسکے لیتے ہیں۔ میں نے کہا: آپ اس معاملے کو کچھ زیادہ ہی آسان اور نرم نہیں لے رہے؟ وہ دوست کہنے لگا: اس عمر میں ایسے الزامات پر بابے اندر سے بڑے خوش ہوتے ہیں لیکن پوپلے منہ سے تردید بھی کرتے رہتے ہیں۔ گھر بھی ٹھیک رہتا ہے اور ان کے ووٹر بھی ایسی باتوں کو زیادہ سیریس نہیں لیتے۔
میں نے کہا: اب آپ باقاعدہ مبالغہ آرائی پر آ گئے ہیں‘ اگر انہیں ووٹروں کی پروا نہ ہو تو بھلا وہ عدالتوں سے کیوں رجوع کریں؟ وہ دوست کہنے لگا: آپ نے تہمینہ درانی کی My feudal Lord جس کا اردو ترجمہ ‘مینڈا سائیں‘ کے نام سے ہوا تھا‘ پڑھی ہے؟ میں نے کہا: بالکل پڑھی ہے بلکہ صرف پڑھی ہی نہیں‘ برسوں پہلے اس پر ایک کالم بھی لکھا تھا۔ وہ دوست کہنے لگا: پھر کیا ہوا؟ مصطفی کھر کے سیاسی کیریئر پر اس کتاب سے کوئی فرق پڑا؟ وہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد بھی بڑے دھوم دھڑکے سے الیکشن جیتتے رہے بلکہ شنید ہے کہ ان کے ووٹروں نے ان کی مردانگی کی بڑی داد دی تھی۔
میں نے پہلے ہی آپ کو بتایا ہے کہ میرا یہ دوست بڑا باخبر ہے اور ناصرف باخبر ہے بلکہ اس کی دور کی یادداشت بھی بہت اچھی ہے۔ کہنے لگا: آپ کو یاد ہو گا کہ ڈیرہ غازی خان میں کافی عرصہ قبل ایک الیکشن کے دوران ایک امیدوار کی ویڈیو بڑی چلی تھی۔ اب اس کی تفصیل میں کیا جائیں؟ پرانی بات ہے اتنی پرانی کہ تب وی سی آر اور وڈیو کا زمانہ تھا۔ سارے حلقے کے ووٹروں نے یہ وڈیو دیکھی اور وہ امیدوار بھاری اکثریت سے جیت گیا۔ پھر ادھر ملتان میں بھی ایک کیسٹ کافی لوگوں نے دیکھی ہو گی۔ رنگین محفل تھی‘ شہد کی بوتلیں کھلی پڑی تھیں‘ نوٹ لٹائے جا رہے تھے۔ اس کیسٹ میں تین معزز لوگ تو ایسے تھے جو الیکشن کیلئے امیدوار تھے۔ تینوں اپنے اپنے حلقے میں جیت گئے‘ بلکہ ایک تو بہت ہی اونچے مرتبے پر بھی پہنچا۔ اب اور کتنے قصے یاد کرائوں؟ مجھے اور بھی کئی سٹوریاں اچھی طرح یاد ہیں۔ سب کا یہی نتیجہ نکلتا ہے جو آپ کو سنا چکا ہوں۔ تو عزیز دوست! پاکستان میں ان چیزوں کا الیکشن پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا؛ البتہ مثبت اثرات کے ڈھیروں ثبوت بھی موجود ہیں اور واقعات بھی؛ تاہم وہ اپنی بیرون پاکستان امیج کو بحال رکھنے کی خاطر یہاں ایسی باتوں پر تردیدی بیان جاری کرتے ہیں، ایسے الزامات پر کورٹ جانے، ہتک عزت اور ہرجانے کے دعوے وغیرہ کا اعلان کر کے فارغ ہو جاتے ہیں۔ میں نے کہا: تم بڑے باخبر آدمی ہو اور اندر کی خبروں کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہو۔ یہ بتائو کہ یہ خاتون یہاں اتنے سالوں سے کر کیا رہی ہے اور ہمارے ادارے بے خبر یا لا تعلق کیوں ہیں؟ وہ کہنے لگا: یہ سوال مجھ سے نہیں کسی اور سے بنتا ہے۔ ہاں یہ سوال قابل غور ہے کہ وہ یہاں کیا کر رہی ہے؟ تو برادرم! وہ موج میلہ کر رہی ہے۔ ہم چٹی چمڑی سے مرعوب لوگ ہیں۔ وہ یہاں وی آئی پی پروٹوکول لے رہی ہے۔ امریکہ میں اسے کوئی پوچھتا بھی نہیں ہو گا۔ یہاں رحمان ملک کی کار اسے لینے جاتی ہے۔ ایوان صدر میں مجھے کوئی گھسنے بھی نہ دے‘ اسے وہاں بڑے بڑے لوگ دعوت دے کر بلاتے ہیں۔ میں نے کہا: آخری سوال! وہ دوست کہنے لگا: پوچھو پوچھو‘ آج میں اچھے موڈ میں ہوں۔ میں نے کہا: اگر اس کی بات درست تسلیم کر لیں کہ رحمان ملک نے اس کے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی کی ہے تو امریکی سفارت خانے والوں کے مشورے پر وہ امریکہ واپس کیوں نہ چلی گئی؟ وہ دوست کہنے لگا: میرا خیال ہے وہ خاتون اتنے سال تک موبائل فون کا تحفہ اور دو ہزار پائونڈ ملنے پر خوش تھی کہ اس کی ایسی قدرومنزلت وہاں امریکہ میں کہاں ممکن تھی؟ ویسے دو تین روز قبل اس نے ٹویٹر پر پوسٹ لگائی تھی کہ اس کے ساتھ ایک اور وزیر نے بھی زور زبردستی کی‘ لیکن وہ پوسٹ اس نے تھوڑی دیر بعد ڈیلیٹ کر دی تھی۔ میرا خیال ہے‘ اگر وہ اس واقعے کے بعد بھی واپس امریکہ نہیں جاتی تو تمہیں سمجھ جانا چاہئے کہ وہ یہاں کیا کر رہی ہے؟