اللہ تعالیٰ مجھے بدگمانی سے بچائے۔ مملکت خداداد پاکستان میں سارے قاعدے، قانون، ضابطے اور وصولیاں صرف چھوٹے لوگوں کا مقدر ہیں۔ بڑی بڑی چیزوں کو اٹھانے کی ہم میں نہ ہمت ہے اور نہ ہی طاقت۔ ہم تو بڑا مریض بھی ملک میں نہیں رکھ سکتے‘ جیل تو دور کی بات ہے۔ ویسے بھی جیل کا سارا نظام آپ اور میرے جیسے معمولی لوگ چلاتے ہیں۔ وہاں بھی سارا خرچہ عام قیدی اٹھاتے اور چلاتے ہیں۔ با مشقت قید والے بے آسرا اور بے وقعت لوگ۔ کوئی زمانہ تھا لوگ جیل سے دریاں، بان اور اسی طرح کی دوسری دستکاریوں کی خریداری کیا کرتے تھے۔ یہ کام جیل میں قید ان قیدیوں سے کرایا جاتا تھا جو ”با مشقت قید‘‘ بھگت رہے ہوتے تھے۔ یہ لوگ جیل میں بھی وہی کام کرتے، جو وہ جیل سے باہر کرتے تھے۔ ایسے بے قیمت لوگوں کو گھر اور جیل میں زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ لوگ ایک محدود جگہ پر نقل و حرکت کی پابندی اور گھر والوں سے دوری بھگت رہے ہوتے ہیں۔ ورنہ بندۂ مزدور کے اوقات ہر جگہ ہی تلخ ہیں۔ جتنے کی سرکار کی روٹی کھاتے ہیں اس سے زیادہ کا کام کرکے سرکار کے لیے رقم کا بندوبست کرتے ہیں؛ تاہم دوسری طرف جو لوگ ادائیگی کر کے نوکر رکھتے ہیں اگر جیل جائیں تو ان کو سرکاری خرچے پر نوکر ملتا ہے۔ یعنی حسب سابق والے مزے اور مفت میں۔
پاکستان کی جیلوں اور نیب کی حوالاتوں میں قید ملزمان اور مجرمان کی ایک فہرست بنائیں اور ان میں سے اے اور بی کیٹیگری والے ملزمان کو علیحدہ کریں اور سی کلاس والوں کو علیحدہ کر لیں۔ آپ کو حیران کن اعداد دیکھنے کو ملیں گے۔ نیب کی ساری ریکوری ان سی کلاس لوگوں سے ہوئی ملے گی۔ نیب کی سی کلاس سے مراد آپ اور میں بہر حال نہیں کہ جو نیب کی پکڑ میں آتا ہے آج کل کروڑوں اربوں کی غتر بود کے چکر میں آتا ہے اور ظاہر ہے وہ میرے جیسا ”فُکرا‘‘ تو نہیں ہوگا کہ برسوں میں گھر کا برآمدہ نہ بنا سکے۔ میری نیب کے سی کلاس ملزمان سے مراد بیسویں گریڈ سے کم کا افسر اور وزیر مشیر سے کم تر سیاستدان ہے۔ ساری ریکوری، ساری پلی بارگین کی آمدنی اور مقدمے کے فیصلے‘ سب کے سب انہی لوگوں سے متعلق ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔ کسی وزیر، مشیر یا اس کے اوپر کے کسی سیاستدان نے سرکار کو ٹکا بھی دیا ہو تو بتائیں۔ کسی بیسویں گریڈ سے بڑے افسر سے کوئی ریکوری ہوئی ہو تو اس عاجز کی معلومات میں اضافہ کریں۔ کسی توپ افسر نے پلی بارگین کرکے دس بارہ کروڑ روپے واپس کیے ہوں تو مجھے بتائیں۔
احد چیمہ ایک عرصے سے اندر ہیں۔ ایک روپے کی وصولی ہوئی ہو تو بتائیں۔ فواد حسن فواد کو سرکار کی تحویل میں اب اتنے دن گزر گئے ہیں کہ حساب یاد نہیں۔ نیب کے دعوئوں پر جائیں، حقیقی معنوں میں کوئی چیز سامنے آئی ہو تو وہ بھی بتا دیں۔ شاہد خاقان عباسی اندر ہیں ایک آنے کی کرپشن ثابت ہوئی ہو تو وہ بھی بتا دیں۔ میاں نواز شریف سے دو روپے کی وصولی ہوئی ہو تو وہ بھی سامنے لائیں۔ یہ صرف اور صرف سرکار کے خرچہ پروگرام کے تحت اندر ہیں۔ نیب والے اپنی سالانہ کارکردگی کے سلسلے میں جہاں یہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے اتنے ملزموں سے اتنی رقم بطور پلی بارگین وصول کی یا اتنی رقم کی وصول کی‘ اگر وہ یہ بھی بتا دیں کہ وی آئی پی ملزمان کو مہمان رکھنے پر کتنا خرچہ ہوا تو کیا ہی اچھا ہو۔ ہمیں پتا چلے کہ ہمارے ٹیکس پر موج میلہ کرنے والے بڑے لوگ جب اندر ہو جاتے ہیں تب بھی وہ ہمارے ٹیکس پر ہی موج میلہ کرتے ہیں۔ یعنی وہ باہر بھی ہمارے پیسے پر پلتے ہیں اور اندر بھی ہمارے ہی پیسے پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔
اب میاں نواز شریف صاحب کو ہی دیکھیں۔ جیل میں بیمار ہوئے تو وی وی آئی پی قسم کے علاج کی سہولت سے مستفید ہوئے۔ یہ سارا علاج آپ کے اور میرے ٹیکس کی رقم سے ہوا تھا۔ جب وزیر اعظم تھے تب لندن کے علاج کے ایک دورے پر چوبیس کروڑ روپے کی ادائیگی ہمارے ٹیکس کی رقم سے ہوئی اور اب اندر تھے بھی میرے ٹیکس کی رقم پر ہاتھ صاف کر گئے۔ یعنی باہر ہوں تو بھی میری ذمہ داری اور اندر ہو جائیں تب بھی میری ذمہ داری۔ وزیر اعظم ہوں تو ان کا سارا خرچہ میں اٹھائوں اور قیدی بن جائیں تو بھی سارے خرچے کا وزن میں برداشت کروں۔ بیماری میں علاج کے لیے جیل سے گھر اور پھر گھر سے لندن روانگی‘ اور وہ بھی اس صورت میں کہ باقاعدہ سزا یافتہ ہیں اور سات ارب روپے جرمانہ واجب الادا ہے لیکن مکھن میں سے بال کی طرح جیل سے نکل کر لندن جا پہنچے ہیں۔ ظاہر ہے یہ فیصلہ ایک نظیر بنے گا اور PLD یعنی Pakistan Legal Decisions میں بطور حوالہ لکھا جائے گا۔ اعلیٰ عدالتوں میں آئندہ اس قسم کے مقدمات میں بطور نظیر پیش ہو گا۔ لیکن کیا غلام محمد موچی، اللہ بخش کمہار، غلام رسول رہڑی بان، محمد رمضان ڈرائیور اور اسی قبیل کے دوسرے لاوارث اور بے آسرا لوگ اتنا خرچہ کر سکتے ہیں کہ اعلیٰ عدالتوں میں وکیل کریں اور اس سہولت سے فیض یاب ہوں جس سے میاں نواز شریف ہوئے ہیں؟ اعلیٰ عدالتوں میں حصول انصاف کتنا مہنگا ہے اس کا اعلان تو خود سابق وزیر اعظم اور ارب پتی صنعت کار میاں نواز شریف برملا کر چکے ہیںکہ مجھے تو اب پتا چلا ہے کہ حصول انصاف کے لیے اعلیٰ عدالتوں میں وکیل کرنا اور مقدمہ لڑنا کتنا مہنگا ہے۔ ظاہر ہے سرکاری خرچے پر وکیل کرنے اور پلے سے مقدمہ لڑنے میں بڑا فرق ہے؛ تاہم حیرانی کی بات ہے کہ لندن میں مہنگا ترین علاج کروانے کے بعد میاں نواز شریف نے کبھی یہ اعتراف نہیں کیا کہ مجھے اب پتا چلا ہے کہ پلے سے بیرون ملک علاج کروانا کتنا مہنگا ہے۔ اب بھی وہ بیرون ملک جو مہنگا ترین علاج کروا رہے ہیں وہ غالباً ”ہمارے ‘‘ پلے سے ہی کروا رہے ہیں کہ وہاں کا علاج بھی وہ اس پراپرٹی کی آمدنی سے کروا رہے ہیں جو یہاں سے لوٹ مار کر کے باہر بنائی گئی ہے۔
ایک اور سوال آج کل ایسا ہے جس کا جواب نہیں مل رہا کہ قطر سے آنے والی وی وی آئی پی فلائٹ کا خرچہ کس نے اٹھایا ہے اور اس کی پاکستان آمد پر لینڈنگ، ہینڈلنگ اور پارکنگ فیس کس نے ادا کی ہے؟ یہ نہ ہو کہ یہ خرچہ بھی ”مجھے‘‘ اٹھانا پڑ جائے۔ میاں نواز شریف کی جیل یاترا بالکل ویسی ہی صورتحال کی عکاس ہے جیسے ایک بیرے نے گاہک کے کائونٹر پر پہنچنے پر ہال سے آواز لگائی تھی: کھایا پیا کچھ نہیں، شیشے کا گلاس توڑا ہے، دس روپے۔ حاصل وصول کچھ نہیں ہوا‘ الٹا خرچہ ہوا ہے۔ ایئرکنڈیشنر چلنے کا خرچہ، مشقتی پر جیل حکام کی لاگت اور علاج معالجہ۔ کراچی سے ڈاکٹروں کی آمد، روزانہ کے درجنوں ٹیسٹ، پرائیویٹ ڈاکٹروں کی فیس، سرکاری میڈیکل بورڈ کا خرچہ اور ہسپتال کے اخراجات۔ کل ملا جلا کر کروڑ ڈیڑھ کروڑ تو بن گئے ہوں گے۔ یہ خرچہ بھی میں نے اور آپ نے اٹھایا ہے۔ یعنی جب میاں صاحب اسلام آباد کے وزیر اعظم ہائوس میں تھے ان کے علاج کا خرچہ ہم ہی اٹھاتے تھے اب سزا یافتہ مجرم تھے تب بھی سارا خرچہ ہم نے ہی اٹھایا ہے۔ یہ ہمارے ناتواں کندھے ہی ہیں جو اس ملک میں بڑے آدمی کا سارا خرچہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ ہمیں کسی صورت میں جائے اماں نہیں مل رہی۔
چار چھ دن بعد کوئی نہ کوئی خبر آ جاتی ہے کہ فلاں شخص سے چار کروڑ روپے پلی بارگین کی مد میں حاصل ہو گئے ہیں۔ یا فلاں شخص سے پندرہ کروڑ روپے کی ریکوری ہو گئی ہے۔ لیکن اب تک یہ خبر نہیں ملی کہ لانچوں پر پیسے باہر بھجوانے کے الزام سے شہرت پانے والے شرجیل میمن سے کیا وصول ہوا ہے؟ ڈاکٹر عاصم سے کچھ وصول ہوا؟ اربوں روپے کے بے نامی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کے ملزم آصف علی زرداری اور فریال تالپور سے اب تک کتنی رقم وصول ہوئی ہے؟ اربوں روپے کے اثاثے بنانے والے (بقول نیب) احد چیمہ سے کیا ریکوری ہوئی ہے؟ اربوں کی کرپشن میں ملوث فواد حسن فواد کی کتنی جائیداد ضبط ہوئی ہے؟ اور کتنی رقم وصول ہوئی ہے؟ میاں نواز شریف سے کیا وصول ہوا ہے؟ اور لیاقت قائم خانی کی وہ تجوری جو کئی گھنٹے کی محنت کے بعد بمشکل کاٹ کر کھولی گئی تھی خالی کیسے نکلی ہے؟ اور ان سب پر سرکار کا خرچہ کتنا ہوا؟ حکومت سے گزارش ہے کہ بیسویں گریڈ اور اوپر کے افسر اور وزیر مشیر اور اس سے اوپر کے سیاستدانوں کو جیل بھجوانا بند کر دے کہ اب تک کا ریکارڈ یہی بتاتا ہے کہ ہمیں باہر رہ کر لوٹنے والے اندر جا کر بھی میرے ہی ٹیکس پر موج میلہ کرتے ہیں۔ براہ کرم اس مد میں تو میرا خرچہ نہ کروایا جائے۔ پہلا خرچہ تو مجبوری ہے‘ یہ دوسرا خرچہ تو بہرحال بچایا جا سکتا ہے۔ میرے حال اور مال پر رحم کیا جائے۔