برطانوی ہندوستان میں جمہوریت کا آغاز(3)
” احمد علی کورار “
گزشتہ سے پیوستہ
پچھلے کالم میں بات ہو رہی تھی کہ ایک طرف کرزن ہندوستان میں اصلاحات لانے کے لیےبرٹش پارلیمنٹ کے ساتھ خط وکتابت کر
رہا تھا سیکریٹری آف انڈین افیئرز (وزیرِ امور ہند) سے مسلسل رابطے میں تھا دوسری طرف مسلم لیڈرشپ اپنے سیاسی حقوق کے لیے بھی کوشاں تھی۔کرزن نے ہندوستان کے معاملات کو زیر غور لایا کیونکہ کرزن آتے ہی پورے معاملات کا ژرف بینی سے جائزہ لے چکا تھا۔
بلاشبہ کرزن ایک visionary گورنر جنرل تھا۔
1901 میں کرزن وزیر امور ہند کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور وزیر امور ہند برٹش پارلیمنٹ کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔یاد رکھیں سیکریٹری آف اسٹیٹ انڈین افیئرز (وزیر امور ہند)کی بھی ایک کونسل ہوتی تھی کونسل آف دی سیکریٹری آف اسٹیٹ ان کے ممبرز کی تعداد ہمیشہ 15 سے کم نہیں ہوتی۔زیادہ ہوتی تھی لیکن 15 سے کم نہیں اور یہ سارے برٹش ہوتےتھے وہ جنھوں نے بطور بیوروکریٹ یا آرمی آفیسرز ہندوستان میں serve کیا ہو۔
بات ہو رہی ہے 1901 میں آخر ایسا کیا ہوا اور کرزن کس بات پر برٹش پارلیمنٹ کو قائل کرنے میں کا میاب ہوا؟
1901 میں ہندوستان میں دو نئے صوبے بنے ایک کا نام رکھا گیا NWFP اور دوسرے کا نام آسام۔
1880 میں ہندوستان میں ایک قحط آیا تھا جس سے لاکھوں لوگ لقمہ اجل ہوئے تھے کرزن کا خیال تھا کہ جغرافیائی اعتبار سے پنجاب اور بنگال بڑے علاقے ہیں کیوں نا انھیں
منقسم کیا جائے تاکہ انتظامی امور کو بہتر طریق سے چلایا جا سکے۔
مزید پڑھئیے
“برٹش انڈیا میں جمہوریت کا آغاز قسط 1“
“برٹش انڈیا میں جمہوریت کا آغاز قسط 2“
آسام اور NWFP تو بن گئے لیکن 1937 تک ان میں الیکشن نہیں ہوئے۔
یہ ایک قابل غور بات ہے کہ اس تقسیم پر کوئی بھی نہیں بولا اور نہ ہی کسی نے اعتراض کیا۔
1901 میں کرزن نے یہ تقسیم کروائی اور کرزن اگلی اسٹیج پہ چلا گیا۔کرزن نے ابھی سوچ رہا تھا کیوں نا بنگال کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تاکہ انتظامی امور بہتر طریق سے چلائے جا سکیں اور آئندہ قحط کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
کرزن کا ایک اور کارنامہ یہ تھا کہ بمبئی اور پنجاب کے مابین جب water dispute چل رہا تھا وہ agreement کرانے میں کامیاب ہوا اور 30 فی صد سندھ کو پانی ملے گا یہ طے پایا یاد رکھیں سندھ اس وقت صوبہ نہیں بنا تھا اور یہ بمبئی کا حصہ تھا۔یہ اس وقت کی مشہور ایگریمنٹ تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کرزن بڑا genius قسم کا بندہ تھا اور انتظامی امور سے اچھی طرح واقف تھا۔یاد رکھیں برٹش کی ایک خوبی تھی وہ ایک دم کوئی ایکٹ یا Reform نہیں لاتی تھی وہ ایک مائنڈ سیٹ بناتے تھے جس طرح کرزن نے کیا کرزن نے آتے ہی دو نئے صوبے نہیں بنائے آتے ہی تقسیم بنگال نہیں کی لیکن وہ 1898 سے اپنا مائنڈ بنا رہا تھا آخر کار وہ اپنے مقصد میں کا میاب ہو گیا
بات کر رہے ہیں تقسیم بنگال کی جو کرزن کے دور میں ہوئی 1905 میں تقسیم بنگال ہوئی اور بنگال کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا۔
ایسٹ بنگال اور ویسٹ بنگال۔
ایسٹ بنگال میں مسلمان جبکہ ویسٹ بنگال میں ہندووں کی اکثریت تھی۔
اس وقت ہندوستان میں ہندوستانیوں کی سیاسی جماعت کانگریس یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔
تقسیم بنگال کے بعد ایسٹ بنگال میں لگ بھگ 2/3اکثریت مسلمانوں کی بن گئی۔یعنی کہ ایسٹ بنگال میں اگر کسی یونین یا کو نسل میں نامینیشن ہوئی ظاہر سے بات ہے مسلمان ہی اوپر آئیں گے۔
یآد رکھیں برٹش صرف مرکز تک محدود نہ تھی بلکہ صوبوں میں بھی برٹش کے گورنر کی ایگزیٹیو کونسل اور پراونشل لیجسلیٹیو کونسل بھی ہوتی تھی۔اس کے بھی الہکشن ہوتے تھے لیکن ممبرز نامزد کیے جاتے تھے نامینیشنل الیکشن ہوتے تھے۔
اب 1904 سے 1906 کا جو دور ہے وہ بڑا نازک دور ہے۔ تین سیاسی فور سسز کو ہم مدنظر رکھیں گے ایک تو برٹش جس طرح کرزن کا خیال تھا کہ لوگوں کو سہولیات دیں ان کے لیے کچھ کریں Effective Administration کا نفاذ ہو دوسری فورس تھی مسلمز آف انڈیا جو پچھلے پندرہ سالوں سے جدو جہد کر ہی ہے کہ انھیں ایک الگ میکنیزم دیا جائے تاکہ ان کے سیاسی حقوق پورے ہو سکیں 1905 میں تقسیم بنگال کے بعد جب ایسٹ بنگال ان کے حصے میں آیا وہاں انھوں نے حکومت بنائی اور برٹش کے ساتھ مل کر بڑے بڑے کام کیے۔لیکن ایک ایسٹ بنگال میں حکومت بنانے سے کیا مسلمانوں کے سیاسی حقوق پورے ہوگئے نہیں بالکل نہیں کیونکہ ان مسلمانوں کا کیا ہو گا جو ہندوستان کے دیگر حصوں میں رہ رہے ہیں۔
اب ہر جگہ برٹش تو مسلمانوں کو الگ صوبہ بنا کے نہیں دیں گے برٹش نے اگر بنگال کی تقسیم کی بھی تھی اس نے اپنا فائدہ سوچا،اس نے انتظامی امور کی بنیاد پر بنگال کی تقسیم کی۔
سو مسلمانوں نے سوچا کہ کسی طرح پندرہ سالہ جدو جہد کو عملی جامعہ پہنایا جائے۔
ہندوستان میں تیسری سیاسی فورس تھی کانگریس۔
کانگریس بطور سیاسی پارٹی اس کو جو ڈونیشن ملتی تھی وہ کلکتہ کے صنعتکاروں اور وکلا سے ملتی تھی۔کلکتہ انڈیا کا بھی درالحکومت تھا اور بنگال کا بھی ۔کلکتہ میں بڑے پیمانے پر صنعتکار بار کونسلز میں وکلا اور پرنٹنگ پریس کے مالکان ہندو تھے یعنی ہندو کا بڑی معاشی گرہیں نصب تھیں کلکتہ میں ان کا ایک معاشی سیٹ اپ تھا۔
اب تقسیم بنگال سے تو کانگریس کو بڑا جھٹکا لگا۔نتیجتاً سودیشی موومنٹ شروع ہوئی۔
(جاری ہے)