شعیب بن عزیز کی طرح میں بھی ایک گناہگار انسان ہوں تاہم یہ تو ہم دونوں اس حکم کی تعمیل کر رہے ہیں کہ کبھی اپنے تقویٰ پر غرور نہ کرو بلکہ دوسروں کے سامنے ہمیشہ خود کو گناہ گار کہو۔ خوشبو کو بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ خوشبو ہے وہ اپنا تعارف خود کراتی ہے۔ ایک دفعہ شعیب بن عزیز نے لندن سے نئے جوتے خریدے لیکن ہیتھرو ایئر پورٹ کی لمبی راہداریاں طے کرتے کرتے اس کے پائوں زخمی ہو گئے چنانچہ اس نے جہاز میں بیٹھتے ہی وہ جوتے اپنے بیگ میں ڈال لئے، پرانے جوتے اس کے لندن کے ایک مردم شناس نے بطور تبرک اپنے لئے رکھ لئے تھے چنانچہ شعیب جب لاہور ایئر پورٹ پر ننگے پائوں لائونج کی طرف جا رہا تھا تو بہت سے لوگ اسے عقیدت کی نظروں سے دیکھ رہے تھے حتیٰ کہ ایک مسافر سے نہیں رہا گیا، وہ شعیب کے پاس آیا اور کہا جناب آپ ننگے پائوں؟ جس پر شعیب نے جلالی لہجے میں کہا ’’داتا کی نگری میں، میں جوتے پہن کر پھروں گا؟‘‘ یہ سن کر اس شخص نے شعیب کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور کہا آپ بہت پہنچے ہوئے بزرگ لگتے ہیں، براہِ کرم اپنا کارڈ عطا فرمائیں، آپ سے اپنے مسائل کے حل کے لئے دعا کرانا ہے۔ شعیب نے اسے مخاطب کیا اور کہا اے شخص مجھے اپنا ایڈریس بتانے اور تمہارا پوچھنے کی ضرورت نہیں، ہم خود کسی دن تمہاری طرف پہنچ جائیں گے!‘‘
خیر میں بھی شعیب ہی کی طرح ایک گناہگار آدمی ہوں مگر عجیب بات ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد مجھ سے بھی دعاؤں کی طلبگار رہتی ہے، جس کسی سے ملاقات ہوتی ہے وہ جاتے ہوئے ضرور کہتا ہے ’’مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں‘‘ جس پر مجھے بہت ندامت ہوتی ہے لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ انہیں مجھ میں ضرور کوئی ایسی چیز دکھائی دی ہوگی جو وہ مجھے دعا کے لئے کہہ رہے ہیں تاہم اللہ کا شکر ہے کہ میں نے کبھی غرور نہیں کیا۔ اپنے نفس کو دھوکے میں مبتلا نہیں ہونے دیا اور خود کو ہمیشہ گناہگار ہی سمجھا۔ خلقِ خدا کو خود سے دوررکھنے کیلئے میں نے اپنے نام کے ساتھ ’’پیرزادہ‘‘ لکھنا بھی بند کر دیا جبکہ یہ اعزاز صدیوں سے ہمارے خاندان کی پہچان چلا آ رہا ہے۔
ملامتی صوفیوں کی طرح میں نے ایسے کئی کام بھی کئے جو خلقِ خدا کو مجھ سے بدظن کر سکتے تھے مگر جو اہلِ نظر ہیں، وہ پہچان لیتے ہیں کہ بظاہر عصیاں کی چادر اوڑھے یہ شخص اندر سے کچھ اور ہے۔ ایک اور بات جسے میں محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم سمجھتا ہوں وہ یہ کہ بوقتِ ملاقات ’’مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں‘‘ کی فرمائش کرنے والے میرے بارے میں یہ یقین بھی رکھتے ہیں کہ میں دن کے بیشتر اوقات میں سربسجود رہتا ہوں اور دعائیں مانگتا رہتا ہوں چنانچہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان سرمدی لمحات میں مَیں انہیں بھی یاد رکھوں… میں ایک گناہگار شخص ہوں لیکن مجھ پر اللہ کی کتنی رحمت ہے کہ دعا کی فرمائش کرنے والوں میں سے بعض کو اندازہ ہی نہیں کہ میں ان کے بارے میں کیا جذبات رکھتا ہوں اور ان کے لئے اگر دعا مانگوں گا تو کیا مانگوں گا؟
ابھی گزشتہ روز ایک ایس ایم ایس مجھے موصول ہوا جس میں صرف اتنا لکھا ہوا تھا کہ ’’میں آپ سے مزید دعاؤں کا طلبگار ہوں‘‘ مجھے اللہ کے اس نیک بندے کی تلاش ہے جس نے ایس ایم ایس میں اپنا نام نہیں لکھا، صرف ٹیلیفون نمبر لکھا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کے درجات بہت بلند ہیں کیونکہ ایک تو اسے یقین کامل ہے کہ میں اس کیلئے دن رات اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں مانگتا رہتا ہوں اور اب اسے مزید دعاؤں کی ضرورت ہے۔ دوسرے وہ میرے چھپے ہوئے کمالات کی وجہ سے یہ بھی جانتا ہے کہ وہ اپنا نام ظاہر کرے نہ کرے لیکن مجھے القا ہو جائے گا اور یوں میں جان جاؤں گا کہ ایس ایم ایس بھیجنے والی بزرگ ہستی کون ہے۔ میں بہرحال ان کے لئے دعاگو ہوں۔ متعدد احباب ایسے بھی ہیں جو اگرچہ مجھے دعا کے لئے نہیں کہتے البتہ جب کبھی ملتے ہیں یا خط لکھتے ہیں تو مجھے ’’پیر و مرشد‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ میں نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ رشد و ہدایت کی زیادہ طلب مردوں کو ہوتی ہے یا کم از کم میرے مقدر میں مرد ہی لکھے گئے ہیں۔ بہرحال میں تو پھر یہی کہوں گا کہ میں ایک گناہگار شخص ہوں البتہ انہیں مجھ میں اگر کچھ نظر آیا ہے تو میں اس کا انکار کرنے والا کون ہوں، بہت سے بھید ایسے ہوتے ہیں جو ہر ایک پر نہیں کھلتے۔ اس کے لئے صاحبِ نظر ہونا ضروری ہوتا ہے۔
میں یہ کالم یہاں تک لکھ چکا تھا کہ میرا ایک دوست مجھے ملنے آیا۔ یہ بدنصیب مجھے ویسا ہی سمجھتا ہے جیسا میں نظر آتا ہوں، اس نے یہ کالم پڑھ کر ایک قہقہہ لگایا اور جو کچھ کہا، اس پر مجھ سے ارادت رکھنے والے احباب بدمزہ نہ ہوں اور نہ اشتعال میں آئیں کیونکہ اس نے مجھے مخاطب کیا اور کہا:’’اے بےوقوف شخص، یہ جو دعاؤں کی درخواست ہے اور یہ جو لوگ پیر و مرشد کہتے ہیں، یہ ان دنوں لوگوں کا تکیہ کلام ہے، تم اسے اپنے لئے خاص سمجھ بیٹھے ہو!‘‘ اس کا خیال تھا کہ میں اس کی بات کا جواب دوں گا لیکن میں آگے سے خاموش رہا۔ وہ بولا ’’اب بولتے کیوں نہیں؟‘‘ مگر میں پھر بھی چپ رہا۔ جب اس نے تیسری دفعہ اپنی بات کا جواب مانگا تو میں نے ایک خاص کیفیت میں آنکھیں بند کرکے صرف اتنا کہا ’’مجھے اجازت نہیں!‘‘ یہ سن کر اس کا چہرہ متغیر ہو گیا میں نے محسوس کیا کہ اس کے اندر کچھ ہو رہا ہے چنانچہ چند لمحوں بعد وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔ مجھ سے گستاخی کی معافی مانگی، میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا، اور کہا ’’پیرو مرشد میں کل حاضر ہوں گا، میرے کچھ مسائل ہیں، خصوصی توجہ فرمائیے گا!!‘‘