آج ہم سب ‘وکیل‘ ہے۔ ہم ‘وکیلوں‘ کے معاشرے میں زندہ ہیں۔ عالم وکیل ہے اور سیاست دان بھی۔ صحافی وکیل ہے اور تاجر بھی۔ استاد وکیل ہے اور شاگرد بھی۔ یہ ریاست نہیں، معاشرہ ہے جو برباد ہو گیا۔ ریاست کی بربادی تو اس کا ایک ناگزیر نتیجہ ہے۔
ایک مدت سے گاڑی کو گھوڑے کے آگے باندھنے کی سعیٔ لا حاصل جاری ہے۔ جو مصلح اُٹھتا ہے، وزیر اعظم بننا چاہتا ہے۔ اقتدار تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اس کا گمان ہوتا ہے کہ یہ قوتِ نافذہ اور ریاست ہیں جو معاشرہ بناتے ہیں۔ کاش انہیں سمجھایا جا سکتا کہ وہ اس ترتیب کو بدل ڈالیں۔ لاہور کا ہسپتال یہی پیغام دے رہا ہے اور اسلام آباد کی ایک جامعہ میں پڑا ایک نوجوان کا لاشہ بھی یہی کہہ رہا ہے۔
ہم نے مل کر اس معاشرے کوانتہا پسند بنایا ہے۔ ہم نے عدم برداشت کو فروغ دیا ہے۔ کبھی مذہب کے نام پر، کبھی قومی مفاد کے نام پر، کبھی علاقائی عصبیت کے عنوان سے اور کبھی نسلی تفاخر کے نام پر۔ کبھی دانستہ، کبھی نا دانستہ۔ علما، سیاست دان، دانش ور، استاد، شاگرد… کس کس طبقے کا ذکر کروں اور کس کس کو نظر انداز کروں۔ سب یہی کر رہے ہیں۔ افسوس کہ سب کی انگلیاں دوسروں کی طرف اُٹھتی ہیں، اپنی طرف نہیں۔
لاہور کے واقعے پر شیخ رشید صاحب کا بیان میں نے پڑھ لیا ”ہم نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ یہ عدم برداشت پر مبنی معاشرہ ہیں‘‘۔ یا شیخ، آپ بھی؟ شیخ رشید کے وہ الفاظ کبھی سماعتوں سے محو نہیں ہوئے جو 2014ء کے دھرنے میں بار بار دھرائے گئے۔ کبھی ایک اسلوب میں، کبھی دوسرے لہجے میں ”مار دو، آگ لگا دو، گھیراؤ کرو‘‘۔ جب شیخ صاحب یہ فرما رہے تھے تو وہ دراصل کیا کر رہے تھے؟ اسی عدم برداشت کو فروغ دے رہے تھے۔ شیخ رشید اہلِ سیاست کے ایک طبقے کی علامت ہیں جو اسی لب و لہجے میں کلام کرتا ہے۔ اب میں لاہور کے وکلا اور ملک کے ان سیاست دانوں میں کیسے فرق کر سکتا ہوں؟
اور پھر یہ علما ہیں یا یوں کہیے کہ اس عنوان سے معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔ خود کو دین کا نمائندہ کہتے ہیں۔ شعلہ بیانی کوئی ان سے سیکھے۔ فرع کو اصل بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور وہ یہ کھیل روزانہ کھیلتے ہیں۔ اکابر وہ تھے کہ کسی کی بات میں ننانوے فی صد کفر اور ایک فی صد ایمان کا احتمال ہو تو ایک فی صد کی بنیاد پر فیصلہ کرتے تھے۔ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے بلکہ فرو تر۔ ایک فی صد احتمال نہ ہو تو بھی مشقت اٹھا کر، بین السطور میں کفر تلاش کر لیتے ہیں۔ اس رویے سے محراب و منبر بھی محفوظ نہ رہے۔ میں ایسے مذہبی قائدین اور لاہور کے وکلا میں کیسے فرق تلاش کروں؟
ادھر دیکھیے، یہ ہمارے طالب علم ہیں۔ اٹک شہر کا واقعہ ہے۔ ایک خاتون سہمی ہوئی بیٹھی ہیں۔ کہنے کو شہر کی اے سی ہے مگر ان طالب علموں کے سامنے ان کا رنگ خوف سے پیلا ہو رہا ہے۔ وہ ان کے سامنے اپنا ایمان ثابت کر رہی ہیں۔ نوجوانوں کے چہروں پر وحشت ہے۔ وہ جس لہجے میں گفتگو کر رہے ہیں، رسالت مآبﷺ کی سیرتِ مبارکہ میں اس کا کہیں گزر نہیں۔ گزر تو کیا تصور بھی نہیں۔ مگر ان سے محبت کے نام پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور خاتون ان کے سامنے اپنا ایمان ثابت کرنے پر مجبور ہیں۔ گلی گلی پھیلے ان مذہبی ٹھیکے داروں اور لاہور کے وکلا میں آخر کیا فرق ہے؟
اس سماج کی بنت میں خرابی در آئی ہے۔ یہ اصل میں نہیں تھی۔ ہم نے اس کے لیے بہت محنت کی ہے۔ اب تو صرف فصل کٹ رہی ہے۔ ہر کوئی اپنا حصہ وصول کر رہا ہے۔ افسوس در افسوس یہ ہے کہ کوئی اب بھی سبق سیکھنے پر آمادہ نہیں۔ لاہور کے واقعے سے سیاسی فائدے کشید کیے جا رہے ہیں اور کسی کو اپنی اصلاح کی کوئی فکر نہیں ہے۔ یہی کچھ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ساتھ ہو رہا ہے۔ کوئی اس پر غور نہیں کرتا کہ تعلیم گاہ کی زمین، ایک نوجوان کے لہو سے کیوں رنگین ہوئی؟
جب سماج کے بجائے ریاست توجہ کا مرکز بنتی ہے تو رویوں میں کچھ بنیادی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ فرائض کو بھول کر حقوق کی جنگ لڑتے ہیں۔ اجتماعی مفادات کی خاطر جتھے بناتے ہیں اور یوں دوسرے جتھوں سے تصادم پر آمادہ رہتے ہیں۔ یہ کام پہلے اشتراکیوں نے کیا۔ جنہوں نے اسلام کو آئیڈیالوجی سمجھا اور ریاست کی اصلاح کو توجہ کا مرکز بنایا، انہوں نے بھی وہیں سے سیکھا۔ مغرب سے سول سوسائٹی کا تصور آیا تو وہ بھی حقوق پر مبنی تھا۔
جتھہ بندی کی پہلی زد اخلاق پر پڑتی ہے۔ ہر کوئی گروہی مفاد میں سوچتا ہے۔ غلط اور صحیح کا فیصلہ گروہی مفادات کے تابع ہوتا ہے۔ یہ سوچ عالمی سطح پر پھیلتی ہے تو حق کے راستے میں وطنیت کا بت کھڑا ہو جاتا ہے۔ حب الوطنی اور حق پرستی کو مترادف سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ طبقات میں پھیلتی ہے تو ٹریڈ یونینز بنتی ہیں اور آجر و اجیر کی کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔ پھر وکیل اور ڈاکٹر کی انفرادی شناخت ختم ہو جاتی ہے۔ پھر وہ ایک طبقے کے نمائندے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ پھر ایک عام آدمی کسی سیاسی جماعت کا کارکن ہوتا ہے اور خیر و شر کے کسی پیمانے سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ یہی سوچ مذہبی طبقات کا رخ کرتی ہے تو مناظرہ بازی کا کلچر پیدا ہوتا ہے۔ مناظرہ بازی کیا ہے‘ مجھے اپنے موقف کو سچا ثابت کرنا ہے، چاہے مجھے اس لیے جھوٹ کا سہارا لینا پڑے۔
اس وقت سب اپنے اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مزدور اپنے حقوق چاہتا ہے۔ عورتیں اپنا حق مانگ رہی ہیں۔ طالب علم اپنے حقوق کے لیے سرفروشی کی تمنا پال رہے ہیں۔ سیاست دان اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ ریاست اپنا حق مانگتی ہے۔ سب کو اپنے اپنے حقوق کی فکر ہے، کسی کو اپنے فرائض کی فکر نہیں۔ جب ہم ریاست کو اپنی توجہ کا مرکز بناتے ہیں اور سماج کو نظر انداز کرتے ہیں تو اس کا انجام یہی ہوتا ہے۔
معاشرہ ایک نظامِ اقدار پر کھڑا ہوتا ہے۔ اس میں ہر فرد کو پہلے فرائض کا پابند بنایا جاتا ہے۔ اس کے بعد حقوق کا تصور جنم لیتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب ہر کوئی اپنے فرائض کے بارے میں حساس ہوتا ہے تو حقوق کی پامالی کم ہو جاتی ہے۔ آپ کا حق اس وقت پامال ہوتا ہے جب میں اپنے فرائض سے غفلت برتتا ہوں۔ جو لوگ معاشرے کی تعمیر پر یقین رکھتے ہیں، وہ سماج میں فرائض کا احساس پیدا کرتے ہیں۔
اسلام کا تصورِ معاشرت تو سر تا پا اسی پر کھڑا ہے۔ وہ تو حقوق کی قربانی کو ترجیح دیتا ہے اگر بات دوسروں کے بھلے کی ہو۔ وہ پڑوسی کے حقوق کے بارے میں انسان کو اتنا حساس بنا دیتا ہے کہ اسے وراثت و جائیداد میں حصہ داری کا خوف پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ گمان کرتا ہے‘ اب اگلا حکم پڑوسی کو جائیداد میں شریک کرنے کے بارے میں ہو گا۔ قرآن مجید کو دیکھیے تو وہ ہمیں محروم طبقات کے حقوق کے بارے میں متوجہ کر رہا ہے۔ توجہ معاشرے سے ریاست کی طرف منتقل ہوئی تو مطالبے کی نفسیات پیدا ہوتی ہے۔ اس نفسیات نے لوگوں کو فرائض کے بجائے حقوق کے معاملے میں حساس بنا دیا۔
میرے سامنے پنجاب بار کونسل کی پریس ریلیز رکھی ہے۔ کوئی ندامت نہیں، صرف اپنے حق کا ذکر ہے۔ ہسپتال مقتل بن گیا مگر کہیں کوئی ندامت نہیں۔ یہ صرف وکیلوں کی بات نہیں۔ ہمارا تعلق کسی بھی جتھے سے ہو، ہماری پریس ریلیز ایک طرح کی ہوتی ہے۔ ہر کوئی دوسروں کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔ کوئی اپنے گریبان میں جھانکے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ آج ہم سب وکیل ہیں۔ ہم وکیلوں کے معاشرے میں زندہ ہیں، فرق یہ ہے کسی نے کالا کوٹ پہن رکھا ہے اور کسی نے نیلا۔ کسی نے سرخ اور کسی نے پیلا۔ ہیں، اصل میں ہم سب وکیل۔