سب کے ذہن پر ایک ہی سوال ہے۔ پیٹرول سستا ہوگیا تو مل کیوں نہیں رہا؟
جمعرات کو پشاور ہائی کورٹ نے پیٹرول کے بحران سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وفاقی وزیر پیڑولیم عمر ایوب کی موجودگی میں یہ حکم جاری کیا کہ تین دن کے اندر اندر تیل کا بحران ختم کیا جائے اور تفصیلی رپورٹ جمع کرائی جائے۔
پاکستان کی حکومت کے مطابق ملک میں تیل کی ایک ’مصنوعی قلت‘ جان بوجھ کر پیدا کی گئی ہے۔ وفاقی وزیر پیڑولیم عمر ایوب نے سماعت کے دوران کہا کہ پیڑول کے بحران کی اصل وجہ ذخیرہ اندوزی اور مافیا ہے جس کے خلاف وہ کارروائی کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی طلب اور قیمتوں میں کمی کے بعد پاکستان میں بھی رواں ماہ کے لیے تیل کی مصنوعات کو مزید سستا کیا گیا تھا۔
پیٹرول کا موجودہ بحران کتنا سنگین ہے؟
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے پیٹرولیم ڈویژن اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو ملک میں پیٹرول کی سپلائی کو پورا کرنے کی ہدایات ایک ایسے وقت میں جاری کی ہیں جب ملک میں پیٹرول کا بحران ہے اور پمپس پر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔
ملک کے کچھ حصوں میں پیٹرول کی کمی سنگین صورتحال اختیار کر چکی ہے تو بعض علاقوں میں یہ جزوی طور پر دستیاب ہے۔
پاکستان میں گذشتہ ماہ کے اختتام تک پیٹرول باآسانی دستیاب تھا تاہم جون کے مہینے کے شروع ہونے کے بعد اس کے بحران نے سر اٹھانا شروع کر دیا اور اس نے اس وقت سنگین صورت اختیار کر لی جب اکثر پمپس پر پیٹرول کی فروخت بند ہوگئی۔
اور ان پمپس پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آنے لگیں جہاں محدود مقدار میں پیٹرول دستیاب تھا۔
پیٹرول کی قلت کی وجہ کیا ہے؟
ملک میں پیٹرول کے بحران کے پس پردہ مختلف وجوہات ہیں جبکہ اس بحران کو پاکستان میں پیٹرول فراہم کرنے والی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی جانب سے پیدا کردہ ’مصنوعی بحران‘ بھی قرار دیا گیا ہے۔
اوگرا کی جانب سے مختلف آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو پیٹرول کی ذخیرہ اندوزی کا ذمہ دار قرار دیا گیا اور ان میں دو کے خلاف قانونی کارروائی کی بھی سفارش کی ہے۔
آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی جانب سے مئی کے مہینے میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد پیٹرول کی طلب میں اچانک اضافے کو قلت کی وجہ قرار دیا گیا ہے اور درآمد کے لیے دیے جانے والے آرڈرز کے تحت ملک میں پیٹرول کے پہنچنے اور اس کی پورے ملک میں ترسیل میں وقت درکار ہے۔
پاکستان تیل کی ضرورت کا 70 فیصد سے زائد حصہ درآمد کرتا ہے جو بڑی مقدار میں خام تیل کی صورت میں ملک میں آتا ہے۔
پاکستان میں کام کرنے والی ریفائنریوں میں اس خام تیل کو صاف کر کے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ذریعے ملک بھر میں سپلائی کیا جاتا ہے۔
جب پیٹرول سستا ہونے کے بعد نایاب ہوگیا
دنیا کے مختلف ممالک کی طرح پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن کے بعد معاشی سرگرمیوں کے سست ہونے کی وجہ سے پیٹرول اور تیل کی دوسری مصنوعات کی طلب میں کمی دیکھنے میں آئی۔
اس کے ساتھ ساتھ تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ملکی سطح پر بھی پیٹرول کی قیمت میں کمی کی گئی۔
مارچ میں 111 روپے فی لیٹر میں فروخت ہونے والے پیٹرول کی قیمت تقریباً 75 روپے فی لیٹر ہوگئی جب حکومت نے دو مہینوں میں اس کی قیمت میں نمایاں کمی کی۔
اس کمی کی وجہ تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کو قرار دیا گیا۔ تاہم پیٹرول سستا ہونے کے بعد اس کی دستیابی مشکل ہوگئی جب ملک کے مختلف حصوں میں تیل کی فراہمی رُک گئی۔
ملک میں پیٹرول کی قلت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے کہ جب آٹھ سے 10 دن کے لیے پیٹرول کی ضرورت پوری کرنے کا سٹاک موجود ہے۔
تیل کی عدم فراہمی کی شکایات آنے کے بعد ملک میں آئل اور گیس کے شعبوں کے ریگیولیٹر اوگرا نے کچھ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے خلاف اقدامات اٹھائے ہیں جو حکومت کے نزدیک ملک میں پیٹرول کے مصنوعی بحران کی ذمہ دار ہیں۔
ملک میں کام کرنے والی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو اس بحران کا ذمہ دار قرار دینے کے بارے میں ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا ہے کہ اس کے ساتھ حکومت کو بھی اس بحران کے سلسلے میں بے قصور قرار نہیں دیا جا سکتا جو ملک میں پیٹرول کے سٹاک کا صحیح طور پر انتظام نہیں کر سکی۔
ان کے مطابق پاکستان میں ماضی میں اکنامک کوارڈینیشن کمیٹی ضرورت کی اشیا پر وقتاً فوقتاً نظر رکھتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کے متعلقہ ادارے تیل کے سٹاک اور تیل لانے والے جہازوں کی ٹریکنگ کرتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کتنا تیل موجود ہے اور کتنا تیل ملک پہنچ رہا ہے۔
تاہم ڈاکٹر اشفاق کے مطابق اب ایسا نہیں ہو رہا جس کی وجہ ملک میں اداروں میں بد انتظامی ہے جو مختلف اشیا کی کمی کی وجہ بنتی ہے اور اس کی تازہ مثال پیٹرول کا بحران ہے۔
ملک میں پیٹرول کا کتنا سٹاک ہونا چاہیے؟
ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی طلب اور رسد پر ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی نظر رکھتی ہے جس میں حکومتی نمائندوں کے علاوہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور آئل ریفائنریوں کے نمائندے بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ کمیٹی ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کے سٹاک، درآمد اور مقامی پیداوار کو دیکھتی ہے۔
اوگرا کے ترجمان عمران غزنوی نے ملک میں پیٹرول کے سٹاک کے بارے میں کہا کہ اس کی وافر مقدار ملک میں موجود ہے اور نئی شپمنٹ بھی رستے میں ہے۔
عمران غزنوی نے کہا کہ ملک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیٹرول کی کھپت میں کمی آئی تھی جس کی وجہ سے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے بیرون ملک سے پیٹرول کم درآمد کیا۔ تاہم جیسے لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی تو پیٹرول کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔
ترجمان کے مطابق ملک میں کام کرنے والی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ 21 دن کا پیٹرول کا ذخیرہ رکھیں۔
قواعد کے مطابق 21 دن کے لیے پیٹرول کا ذخیرہ نہ رکھنے والی کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے جس میں جرمانے کے علاوہ لائسنس کی منسوخی بھی شامل ہے۔
کیا پیٹرول کی ذخیرہ اندوزی ہوئی؟
آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد ملک میں پیٹرول کی کھپت کو پورا کرنے کے لیے اس کی درآمد شروع کی گئی۔
تاہم جون کی پہلی تاریخ کو پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے اوگرا کو لکھا گیا کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ملک میں پیٹرول کی ذخیرہ اندوزی کر سکتی ہیں جس کی ایک وجہ اس سال کے اگلے مہینے میں تیل کی قیمتوں میں متوقع اضافہ ہو سکتا ہے۔
پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے اوگرا کو کہا گیا کہ وہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ہدایات جاری کرے کہ وہ ملک میں پیٹرول اور ڈیزل کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ تاہم اس کے باجود ملک میں پیٹرول کے بحران نے اس وقت سر اٹھانا شروع کر دیا جب جون کے پہلے ہفتے میں ملک کے اکثر حصوں میں پیٹرول پمپس سے پیٹرول غائب ہو گیا۔
اوگرا کے ترجمان کے مطابق آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے ملک کے ایسے حصوں میں پیٹرول کی سپلائی فراہم کرنے کا وعدہ کیا جہاں اس کی کمی ہے۔ اس وعدے کے باجود پیٹرول کی فراہمی کو پورے ملک میں یقینی نہیں بنایا جا سکا۔
پاکستان میں کام کرنے والی آئل مارکیٹنگ کمپنی شیل پاکستان نے کمپنیوں کی جانب سے پیٹرول کی ذخیرہ اندوزی کے الزام کو رد کیا ہے۔
شیل پاکستان کے ایکسٹرنل ریلیشن کے کنٹری ہیڈ حبیب حیدر نے کہا کہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی طلب و رسد کو ایک باقاعدہ طریقے کے تحت بروئے کار لایا جاتا ہے جس میں حکومت اور نجی شعبہ دونوں شامل ہیں۔
پیٹرول کی موجودہ قلت پر بات کرتے ہوئے حیدر نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب طلب کم ہوئی تو کمپنیوں کو وہ آرڈر منسوخ کرنے پڑے جو انھوں نے تیل درآمد کے لیے دیے تھے۔
مئی میں جب لاک ڈاؤن میں نرمی ہوئی تو اچانک سے طلب میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا تو کمپنیوں کو دوبارہ مہنگے داموں میں تیل خریدنے کے لیے آرڈر دینے پڑے۔
حبیب حیدر نے کہا کہ 31 مئی کے بعد پیٹرول کی قلت کو آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ تیل کے جہاز کے لنگر انداز ہونے سے لے کر اس کی ملک بھر میں ترسیل کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔
شیل پاکستان کے اہلکار کے مطابق مارچ کے آخر میں طلب میں کمی کی وجہ سے حکومت نے پیٹرول کی درآمد بند کر دی تھی لیکن مئی میں طلب بڑھنے کی وجہ سے جب نئے آرڈر دیے گئے تو ان کے تحت پیٹرول سپلائی میں کچھ وقت لگنا تھا۔
قیمتیں کم زیادہ ہونے سے سٹاک پر کیا اثر پڑتا ہے؟
ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے پیٹرول کے بحران پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ایک وجہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی انوینٹری کا نقصان بھی ہے۔
ان کے مطابق آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے ایک خاص قیمت پر تیل برآمد کر کے اس کا ذخیرہ کیا۔ تاہم جون کے لیے پیٹرول کی قیمت میں کمی کی وجہ سے ان کمپنیوں کو ذخیرہ شدہ پیٹرول کو نئی قیمت پر بیچنے سے نقصان ہو رہا تھا جو پیٹرول کی ضرورت کے مطابق فراہم کرنے میں رکاوٹ بنا۔
اوگرا کے ترجمان عمران غزنوی کے مطابق آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو جون کے مہینے میں پیٹرول کی قیمت کی کمی کی وجہ سے درآمد شدہ قیمت کی وجہ سے شاید تھوڑا سا نقصان ہوا ہو۔ تاہم اس کے لیے ذخیرہ اندوزی کرنا قابل قبول نہیں۔
اوگرا نے اس ذخیرہ اندوزی کے خلاف اقدامات اٹھانا شروع کر دیے ہیں جس میں کچھ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو شو کاز نوٹس اور دو کے خلاف اس ذخیرہ اندوزی کے لیے مقدمہ درج کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
شیل پاکستان کے حبیب حیدر نے اس تاثر کو رد کیا کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ذخیرہ شدہ تیل کو صرف اپنے نفع کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
’ذخیرہ شدہ تیل پر نفع یا نقصان ایک عمومی تاثر کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔‘
ان کے مطابق آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا منافع متعین ہوتا ہے۔ تیل کی قیمت دس روپے ہو یا سو روپے، کمپنی کو ایک محدود منافع ملتا ہے۔
حیدر کے مطابق تیل کی قیمتیں اتنی تیزی سے اچانک بڑھتی اور گھٹتی ہیں کہ وہ ذخیرہ شدہ تیل پر نفع یا نقصان کو برابر کر دیتی ہیں۔