Site icon DUNYA PAKISTAN

اقتصادی سروے: مالی سال 20-2019 میں جی ڈی پی کی شرح نمو منفی 0.4 فیصد رہی، تین ہزار ارب کا نقصان پہنچا

Share

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ کورونا کی وبا سے قبل معاشی ترقی کی شرح تین فیصد سے بڑھنے کی امید تھی تاہم مالی سال 20-2019 میں جی ڈی پی کی شرح نمو منفی 0.4 فیصد رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 2.67 فیصد رہی جبکہ صنعتی شعبہ متاثر ہوا اور اس میں ترقی کی شرح منفی 2.64 رہی ہے جبکہ خدمات کے شعبے میں یہ شرح منفی 3.4 فیصد ہے۔

اسلام آباد میں اقتصادی مالی سروے 20-2019 پیش کرتے ہوئےمشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کو معاشی بحران ورثے میں ملا۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ کورونا کی وبا کے بارے مں کوئی بھی چیز یقین سے کہنا مشکل ہے کیونکہ دنیا اس پر مختلف طریقوں سے اندازے لگارہی ہے کہ کس چیز پر کتنا اثر ہوا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پورے ملک کی آمدنی 0.4 فیصد کم ہوگئی حالانکہ ہم سمجھ رہے تھے کہ آمدنی 3 فیصد بڑھے گی، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں قومی آمدن میں 3 سے ساڑھے 3 فیصد نقصان دیکھنا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جی ڈی پی کا اندازہ لگایا گیا کہ جس میں تقریباً تین ہزار ارب کا نقصان پہنچا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہمیں امید تھی کے ایف بی آر کی ٹیکس محصولات اگر اسی رفتار سے چلتے رہے تو 4ہزار 700ارب تک پہنچ سکتی تھی لیکن وہ اب 3ہزار 900 تک بمشکل پہنچ رہی ہے اس طرح ایف بی آر کوٹیکس محصولات کی مد میں 850 سے 900 ارب کا نقصان ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ برآمدات کی شرح صفر رہی جبکہ گذشتہ دورحکومت کے آخری دو برسوں میں غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 16-17 سے گر کر 9 کے قریب پہنچ گئے تھے۔

اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے مشیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی پیش گوئی ہے کہ کورونا وائرس کے باعث دنیا کی آمدن میں تین سے چار فیصد کمی آئے گی، اس سے خصوصی طور پر ترقی پذیر ممالک متاثر ہوں گے کیونکہ ان کی برآمدات بھی متاثر ہوں گی۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اس سے پاکستان کی ترسیلات زر بھی متاثر ہوں گی کیونکہ جو لوگ خلیجی ممالک، امریکا اور برطانیہ میں کام کرتے ہیں، ان کی آمدنی کم ہو گی، یا وہ بیروزگار ہوں گے تو ہمارے پاس کم پیسے آئیں گے۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ نے کہا کہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹرانسپورٹ، ریلوے اور ایئر ٹرانسپورٹ بند رہی تو اس میں منفی ترقی ہوئی اور یہ شرح منفی 7.1 ہے۔

مشیر خزانہ کا کہ ڈالر سستا ہونے کے باعث ملک میں درآمدات کا حجم برآمدات سے دگنا ہوگیا جس کا اثر ملک کے پاس ڈالر ختم ہونے کی صورت سامنے آیا اور ملک کے قرضہ 25ہزار ارب روپے تک بڑھ گیا۔

انھوں کا کہا کہ ‘اگر قرض اور واجبات کو بھی ملایا جائے تو ہمارا قرضہ تقریباً 30ہزار ارب یا 30 کھرب روپے بن چکا تھا۔’

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس میں ہم بیرونی اکاؤنٹ میں ڈیفالٹ کی جانب دیکھ رہے تھے، ہمارے اخراجات آمدن سے کافی زیادہ تھے۔

معیشت کو سنبھالنے میں حکومتی کوشش

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں حکومت نے کافی کوششں کی اور کچھ ممالک سے قرض اور مؤخر شدہ ادائیگیوں پر تیل حاصل کیا اور اس کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے 6 ارب ڈالر کا پروگرام بھی طے کیا۔

عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت نے ٹیکسز کو بہتر کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے اپنے کاروباروں کو مراعات دینے کے لیے کاروباری شعبے کے لیے گیس، بجلی، قرضے یہ تمام چیزیں حکومت نے اپنی جیب سے پیسے دے کر سستے کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے ماضی کے قرضوں کے بوجھ کوواپس کرنے کے لیے قرضے لیے اور ماضی کے قرضوں کی مد میں 5 ہزار ارب روپے واپس کیے ہیں۔

انھوں نے کہا اس ضمن میں حکومت نے نہ صرف گذشتہ دور حکومت میں معیشت کو درپیش خطرات کو کم کیا بلکہ 20 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرکے 3 ارب ڈالر تک لے آئی۔

مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ پہلے سال اور خصوصی طور پر رواں برس کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 73فیصد کمی کی گئی۔

‘اخراجات آمدن سے کم کیے’

ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ ‘حکومت نے تیسری اہم چیز جو اس برس کی وہ یہ کہ اس سال بہت سخت انداز میں حکومتی اخراجات کو کنٹرول کیا گیا اور یہ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں کبھی ہوا ہو کہ کسی حکومت نے پرائمری بیلنس قائم کیا ہو، یعنی حکومتی اخراجات، آمدن سے کم ہوگئے جس سے پرائمری بیلنس سرپلس ہوگیا۔’

مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ‘میں اس کے لیے فنانس سیکریٹری اور وزارت خزانہ کی پوری یم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیر اعظم نے اس شعبے میں قیادت دکھائی اور جنرل باجوہ کا بھی شکر گزار ہوں کہ ہم نےفوج کے بجٹ کو منجمد کیا۔’

‘سٹیٹ بینک سے قرض نہیں لیا’

ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ حکومت کا ایک معاشی فلسفہ یہ تھا کہ ہم حکومت کے اخراجات کم کر کے عوام کے لیے جتنے زیادہ پیسے ہوں وہ دیں لہذا ہم نے پورا سال سٹیٹ بینک آف پاکستان سے ایک ٹکا بھی قرض نہیں لیا۔’

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ‘ہم نے پوراسال کسی بھی ادارے ، حکومتی وزارت کو ٹکا بھی اضافی گرانٹ نہیں دی کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ پاکستان کے عوام کے پیسے کو بہت احتیاط سے خرچ کیا جائے۔’

مشیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کی کوشش تھی کہ عوام کو بنیادی سہولیات دی جائیں، ان کے لیے انفراسٹریکچر یعنی سڑکیں، پل، ہسپتال بنائیں اور جتنا ممکن ہو بیرونی اشیا اور دنیا پر انحصار کم کریں۔

حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ حکومت نے ٹیکسز میں بہت اچھی کامیابی حاصل کی اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے پہلے ٹیکسز میں 17فیصد اضافہ ہوا۔

‘ہم نے درآمدات میں کمی کی تاکہ ڈالر کو بچائیں تو درآمدات کی کمی کی وجہ سے ٹیکس ریونیو میں بھی کمی ہوئی ورنہ ٹیکسز بڑھنے کی رفتار ایف بی آر میں تقریباً 27فیصد جا رہی تھی۔’

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت کی پانچویں اور شاید ایک بہت بڑی کامیابی یہ رہی کہ وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے کہ ہر چیز کا محور پاکستان کے عوام ہیں اور وہ عوام جو کمزور طبقے سے ہیں، جنھیں بھلادیا گیا ہے اور جن کے لیے ماضی میں بہت کم کام کیا گیا۔

‘سماجی تحفظ کا بجٹ دگنا کیا’

انھوں نے کہا کہ حکومت نے کم بجٹ کے باوجود ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی وزارت سماجی تحفظ کا احساس بجٹ دگنا کیا اور اسے تقریباً 100 ارب سے 192 ارب روپے کردیا گیا اور یہ رقم ایسے سوشل سیفی نیٹس کے لیے رکھی کہ عام آدمی تک یہ پیسے اچھے انداز میں پہنچائے جائیں اور اس طریقے سے پہنچائے جائیں کہ ساری دنیا دیکھے کہ اس میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ احساس پروگرام میں کوئی علاقائی مداخلت یا تعصب نہیں، کوئی مذہبی تفریق بھی نہیں اور اس کی ترجیح پاکستان کے وہ لوگ ہیں جو غریب یا کم آمدنی والے لوگ ہیں، اسی جذبے کی بنیاد پر ہمارے قبائلی علاقوں کے ضم شدہ اضلاع تھے ان کے لیے بھی 152ارب روپے رکھے گئے۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ملک کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں حکومت کی جانب سے 701 ارب روپے اور نجی شعبے سے منصوبے کے لیے 250 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا۔

دوسری جانب حکومتی آمدنی بڑھانے کے لیے جو نان ٹیکس ریونیو ہیں جو بجٹ میں ایک ہزار ایک سو ارب تھے، اس کو حکومت نے سرپاس کیا اور وہ بڑھ ایک ہزار 600 ارب کی سطح تک پہنچے۔

کورونا کی وبا اور حکومتی پیکجز

مشیر خزانہ عبدلحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت نے پہلے ہی فیصلہ کیا تھا کہ ہم نے معیشت کو کورونا وائرس سے اچھے انداز میں بچانا ہے اور اپنے لوگوں کوبچانا ہے اور اس کے لیے دو طرح کے پیکج دیے گئے۔

مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ایک ہزار 240ارب روپے کا ایک پیکج دیا گیا اور دوسری جانب سٹیٹ بینک کو سبسڈیز بھی دی گئیں، ان کے ذریعے مختلف پروگراموں پر عملدرآمد کرایا گیا تاکہ لوگوں خصوصاً چھوٹی کاروباری کمپنیوں کو پیسے میسر ہوں تاکہ وہ اپنے ملازمین کو برطرف نہ کریں۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ ان پیکجز کے تحت ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں کو رقم دینے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ ان کا کاروبار زندگی بھی چلے وہ معاشی طور پر تباہ نہ ہوں

انہوں نے کہا کہ حکومت نے 280 ارب روپے کی گندم خریدی اور کسانوں اور زراعت کے شعبے میں روپے پہنچائے ، یہ ہر سال حکومت کی پالیسی ضرور ہے لیکن اس سال اس تعداد کو پچھلے سال کے مقابلے میں دگنا کیا گیا۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کارخانوں اور انٹرپرائزز کے بجلی کے 3 ماہ کے بل حکومت ادا کرے گی تاکہ ان کے کاروبار کی بحالی میں مدد کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ زراعت کے شعبے میں 50 ارب روپے کی اسکیمز لائے تاکہ ویاں کھاد کی قیمتیں کم ہوں اور ٹڈی دل کا مقابلہ کیا جا سکے اور کسانوں کومراعات دی جا سکیں۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ یوٹیلٹی اسٹورز کو یہ سہولت دی گئی کہ وہ 50 لاکھ کے بجائے ایک کروڑ دکانوں تک اور یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے گئے۔

انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان کے کا ویژن کے مطابق کم آمدن والے افراد کو گھر بنانے میں مدد کی جائے اور اس کے لیے 30ارب روپے رکھے گئے ہیں تاکہ وہ خود ایک گھر کے مالک بن سکیں اور اس میں ٹیکسز کی چھوٹ بھی دی گئی۔

وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ نے کہا کہ تعمیراتی صنعت کے لیے ایک پیکج دیا گیا جس میں فکس ٹیکس کی بنیاد پر ٹیکسز دیے گئے تاکہ ایف بی آر کی طرف سے ہراساں نا کیا جاسکےاور ٹیکسز کی شرح کو بھی کافی حد تک کم کیا گیا۔

Exit mobile version