آرمی چیف کا شہباز شریف کو ٹیلی فون، خیریت دریافت کی: مسلم لیگ (ن)
جمعرات کو اطلاعات کے مطابق پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو ٹیلی فون کر کے ان کی خیریت دریافت کی اور ان کے کورونا سے متاثر ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔
پاکستان کی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی مزاج پرسی کی ہے۔
بیان کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید نے شہبازشریف کی صحت یابی کی دعا، علاج معالجے میں معاونت کے بارے میں بھی دریافت کیا، جبکہ شہباز شریف نے مزاج پرسی کے لیے ٹیلی فون کرنے پر آرمی چیف کا شکریہ ادا کیا۔
مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے بی بی سی سے اس رابطے کی تصدیق کی۔
یاد رہے کہ حال ہی میں مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر داخلہ و پلاننگ احسن اقبال، جماعت کی ترجمان مریم اورنگزیب، ان کی والدہ طاہرہ اورنگزیب، سابق وزیر اور اہم رہنما طارق فضل چوہدری کے ساتھ ساتھ چند دیگر سیاسی رہنماؤں کا بھی کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔
کوویڈ-19 کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد مسلم لیگ ن کے تمام رہنماؤں نے خود کو قرنطینہ کر لیا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی سیاسی قیادت کورونا کا شکار کیسے ہوئی؟ کیا یہ احتیاطی تدابیر پر عمل نھیں کر رہے تھے؟
اس ضمن میں بی بی سی نے پاکستان مسلم لیگ ن کے سنئیر رہنما احسن اقبال سے جاننے کی کوشش کی کہ مسلم لیگ ن کی سیاسی قیادت کورونا کا شکار کیسے ہوئی۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کو کورونا کا شکار کروانے کا ذمہ دار حکومت کا جبری اور انتقامی سیاسی ایجنڈا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت نے جبری طور پر اپنے انتقامی ایجنڈے کے تحت ہمارے لیے ایسے حالات پیدا کیے ہیں کہ ہم اس وائرس کا شکار ہو گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘میرا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر مجھے، شاہد خاقان، طارق فضل اور مریم اورنگزیب کو کورونا وائرس مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کی لاہور ہائیکورٹ میں ضمانت کے لیے پیشی کے موقع پر لگا ہے۔’
انھوں نے حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم پہلے سے حکومت اور نیب سے کہہ رہے تھے کہ وہ وبا کے دوران دو ماہ کے لیے اپنی کارروائیاں معطل کر دے یا اگر آپ نے کسی کو طلب کرنا ہے تو آن لائن یا سکائپ کے ذریعے پوچھ گچھ کر لے مگر انھیں خطرے میں مت ڈالیں۔’
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے تو اس ضمن میں نیب کو خط بھی لکھا تھا مگر وہ نہ صرف اس سے باز نھیں آئے بلکہ وہ تو انھیں گرفتار بھی کرنا چاہتے تھے۔’
ان کا کہنا تھا نیب نے شہباز شریف کو ضمانت کی درخواست دینے پر مجبور کیاا۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ‘چونکہ ہمیں پارٹی سربراہ کے ساتھ ہائیکورٹ میں پیش ہونا تھا اور وہاں بہت زیادہ بھیڑ اور گھٹن زدہ ماحول تھا، ہم سب اکٹھے تھے لہذا میرے خیال سے ہم وہاں سے متاثر ہوئے ہیں۔’
ان کا کہنا تھا کہ اس کی ذمہ دار مقامی انتظامیہ ہے جنھیں میاں شہباز شریف کی لاہور ہائیکورٹ میں پیشی سے قبل حفاظتی اور احتیاطی اقدامات اٹھانے چاہیے تھے مگر انھوں نے اس دن کوئی اقدامات نہیں کیے تھے۔’
پارٹی اجلاس سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے یا پارٹی کے کسی رکن سے متاثر ہونے کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم پارٹی کے اجلاسوں کے اندر بہت زیادہ حفاظتی اقدامات کا خیال کر رہے ہیں، زیادہ تر اجلاس سکائپ یا آن لائن کیے جاتے ہیں تاہم اگر کوئی پارٹی اجلاس کرنا بھی ہو تو اس جگہ پر اچھی طرح پہلے جراثیم سپرے کیا جاتا ہے اور تمام ارکان کی جانب سے ماسک کا استعمال اور سماجی فاصلے کے خیال بھی رکھا جاتا ہے۔
‘چھوٹے سے چھوٹے اجلاس میں بھی ایس او پیز کا خیال رکھا جاتا ہے۔’
پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کے کورونا سے متاثر ہونے پر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ‘امکان ہے کہ شہباز شریف بھی لاہور ہائیکورٹ سے ہی کورونا سے متاثر ہوئے ہوں ورنہ اس کے بعد وہ نیب پیش ہوئے تھے جہاں سے ان کے متاثر ہونے کے امکانات ہیں کیونکہ نیب کا اپنا آدھے سے زیادہ عملہ کورونا کا شکار ہے۔’
مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے پارٹی صدر شہباز شریف کے کورونا سے متاثر ہونے کی ذمہ داری وزیر اعظم عمران خان اور چئیرمین نیب پر عائد کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘شہباز شریف کے متاثر ہونے میں براہ راست عمران خان اور چیئرمین نیب ذمہ دار ہیں۔ شہباز شریف نے نیب کو سکائپ کے ذریعے پیش ہونے کا بھی کہا تھا، وہ کینسر کے مریض ہیں اور انھیں ڈاکٹروں نے سختی سے باہر نہ نکلنے کا مشورہ دیا ہے، اسی لیے وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوئے۔’
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ انھیں عمران خان کی حکومت نے مجبور کیا کہ وہ ضمانت کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں اور بعد میں نیب میں پیش ہوں۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم تو اس وبا کے آغاز سے ہی پارٹی میں سرگرمیاں کر رہے ہیں لیکن پہلے تو کوئی نہیں پھیلا۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب کی والد طاہرہ اورنگزیب بھی شاید مریم سے ہی متاثر ہوئی ہیں۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر حکومت یہ اقدامات نہ اٹھاتی، ہمیں دو ماہ بعد پیشیوں پر بلا لیتی اور ہمیں اس طرح کے حالات میں ایکسپوز نہ کرتی تو ہم محفوظ تھے، مگر عمران خان کی حکومت نے نیب کو یہ کہا ہے کہ اپوزیشن کو ٹائٹ کرو اور مجھے انھیں پکڑ کر دو تاکہ ملک میں کوئی اختلافی آواز نہ اٹھائے۔ جس نے ہمیں یہ بیماری لگنے کے امکانات بڑھا دیے۔’